Topics
مذکورہ چاروں شعور ہر فرد کی ذات میں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کا علم شعور کہلاتا ہے۔ اور لا علمی لاشعور سمجھی جاتی ہے۔ یعنی ان چاروں شعوروں میں عامتہ الناس صرف چوتھے شعور سے باخبر ہیں۔ اگر ہم اس باخبری کی اصلیت تلاش کریں تو بالآخر روشنی ہی کو وجہ شعور قرار دیں گے۔ یہاں لفظ روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جس کو عوام روشنی کا نام دیتے ہیں بلکہ وہ روشنی مراد ہے جو آنکھ کے لئے دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے خواہ وہ اندھیرا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی جان دار اندھیرے میں دیکھنے کا عادی ہے تو اس کے لئے اندھیرا ہی روشنی کا مرادف سمجھا جائے گا۔ کتنے ہی حشرات الارض اور درندے رات کے وقت اندھیرے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
فرض کیجئے کہ ہم کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر وہ روشنی جو اس چیز اور ہمارے درمیان موجود ہے نکال دی جائے تو وہ چیز ہمارے شعور کی حدوں سے نکل جائے گی۔ اس مثال سے ہم فقط ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ یعنی روشنی شعور ہے یا شعور روشنی ہے۔ اگر کسی وجہ سے روشنی کے خدوخال میں تبدیلی واقع ہو جائے تو شعور کے خدوخال میں بھی تبدیلی ہو جائے گی۔
عام حالات میں اس چیز کو جانچنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر پانی بھرے ٹب میں ایک پیالہ ڈبو دیا جائے تو اس کی گہرائی، قطر اور وزن میں تغیر ہو جائے گا۔ یہ تغیر یا تو شعور کا تغیر ہے یا روشنی کا۔ دونوں صورتوں میں ہم ایک کلیہ قائم کر سکتے ہیں کہ جو چیز خارج میں روشنی ہے، وہی چیز داخل میں شعور ہے۔ گویا شعور اور روشنی ایک ہی چیز ہے۔ جب وہ انسان کے محسوسات میں واقع ہوئی تو اس کو شعور کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور جب وہ خارج میں آنکھ کے سامنے ہوتی ہے تو اسے روشنی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
قانون:
اگر ہم کسی طرح اپنی داخلی روشنی (شعور) میں تبدیلی پیدا کر لیں تو آنکھ کے سامنے پھیلی ہوئی روشنی میں بھی تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ روشنی کا یہی سلسلہ کائنات کی حد بسیط تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی ایک نقطہ میں روشنی کے خدوخال تبدیل ہو جائیں اور کائنات کی باقی روشنیوں میں تبدیلی نہ ہو۔ روحانیت کی دنیا میں تصرف کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ البتہ تصرف کی ابتدا خارجی روشنیوں سے نہیں بلکہ داخلی روشنیوں سے کی جاتی ہے۔ جب کوئی تصرف کرنے والا خارجی روشنیوں یعنی خارجی حالات میں تبدیلی کرنا چاہے تو وہ اپنی ذات یعنی داخلی روشنیوں میں (شعور میں) تبدیلی کرتا ہے۔ تصوف میں اس ہی عمل کو لطیفوں کا رنگین ہونا کہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے لطیفے (ذات کی روشنیاں) رنگین ہو جائیں تو یہ رنگینی کائنات کی تمام روشنیوں میں سرایت کر جائے گی۔ گویا کائنات کی تمام روشنیوں میں وہی تغیر پیدا ہو جائے گا جو فرد کے لطیفوں میں ہوا ہے۔ نظامِ خانقاہی میں اقطابِ تکوین(مدار حضرات) کے تصرف کا طریقہ یہی ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )