Topics

زمان و مکان کی حقیقت

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کائنات کس طرح بنی ہے اور مکان و زمان کا کائنات کی تکوین سے کیا تعلق ہے۔ 

کائنات کی دو سطح ہیں۔ اگر ہم ایک سطح کو کل ذات (Internal Self) کہیں تو دوسری سطح کو ایک ذات (Personal Ego) کہیں گے۔ کل ذات چھوٹے سے چھوٹے ذرات اور بڑے سے بڑے اجرام کا بسط(Base Line) ہے۔ یعنی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ اور بڑے سے بڑا کرہ جن روشنیوں کا مجموعہ ہے وہ ساری روشنیاں کل ذات کے اجزاء ہیں۔ اگر ہم ان روشنیوں کو دیکھ سکیں تو یہ تصورات کی صورت میں نظر آئیں گے۔ یہی تصورات کل ذات سے یک ذات میں منتقل ہوتے ہیں۔ ان کا منتقل ہونا کل ذات پر منحصر ہے۔ کل ذات جن تصورات کو یک ذات کے سپرد کر دے۔ یک ذات انہیں قبول کرنے پر مجبور ہے۔ مثلاً گلاب کو کل ذات سے وہی تصورات منتقل ہوتے ہیں جو گلاب کی شکل وصورت میں ظہور پاتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو بھی کل ذات سے وہی تصورات ملتے ہیں جو انسانی شکل وصورت کا مظہر ہوں۔

انسان کی ساخت کیا ہے؟

وہ ایسے تصورات کا مجموعہ ہے جو کل ذات میں ایک ذات کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ انسان کا لاشعور(کل ذات) خود اپنے جسم کی تخلیق کرتا ہے۔ عام زبان میں جس کو مادہ(Substance) کہا جاتا ہے وہ لاشعور کی مشین کا بنا ہوا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ خارج سے جو غذا انسان کو ملتی ہے اس سے خون اور جسم بنتا ہے۔ یہ قیاس سرے سے غلط ہے۔ دراصل انسان کا لاشعور(کل ذات) تصورات کو روشنی سے مادہ کی شکل میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی مادہ جسمانی خدوخال اور ثقل کی صورت میں متعارف ہوتا ہے۔ جب لاشعور کسی وجہ سے تصورات کو مادہ میں منتقل کرنے کا اہتمام نہیں کرتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

انسان کو اپنی زندگی میں ایک سے زیادہ مرتبہ سخت ترین بیماریوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس زمانہ میں غذا یا تو کم سے کم رہ جاتی ہے یا بالکل مفقود ہو جاتی ہے لیکن موت واقع نہیں ہوتی۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ جسمانی مشین زندگی کو چلانے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ ان مشاہدات سے یہ بات تحقیق ہو جاتی ہے کہ خارج سے انسانی جسم کو جو کچھ ملتا ہے وہ زندگی کا موجب نہیں ہے۔ زندگی کا موجب صرف لاشعور کی کارسازی ہے۔

کل ذات کو سمجھنے کی طرزیں بہت ہیں۔ کل ذات کی صفات لاشمار ہیں۔ انسان پیدا ہوتا ہے، وہ چند ماہ کا ہوتا ہے۔ پھر ساٹھ، ستر، اسی اور نوے سال کا ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم میں، اس کے خیالات میں، اس کے علم و عمل میں ہر لمحہ تغیر ہوتا ہے۔ اس کے جسم اور علم و خیال کا ہر ذرہ بدل جاتا ہے لیکن وہ شخص نہیں بدلتا۔ وہ جو کچھ چند ماہ کی عمر میں تھا وہی نوے سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا نام زید ہے تو اس کو زید ہی کہیں گے۔ وہ ہمیشہ زید ہی کے نام سے یاد کیا جائے گا۔

جملہ معترضہ

یہ زید کیا ہے؟

یہ زید کل ذات ہے۔ جس قدر رد و بدل واقع ہوتا ہے وہ ایک ذات (Personal Ego) ہے۔ کل ذات کائنات کو محیط ہے۔ علمِ کائنات یک ذات کو حاصل نہیں ہے۔ کل ذات سے لاتعلقی اس کا سبب ہے۔ اگر ایک شخص کی تمام دل چسپیاں اس کے خاندان تک محدود رہیں تو اس کی فہم صرف خاندان کی حدود میں سوچ سکتی ہے۔ اس کے مشاہدات اور تجربات بھی اس ہی مناسبت سے محدود ہوں گے۔ یوں کہیئے کہ اس نے اپنی فہم کو محدود کر لیا، یہاں تک کہ وہ خاندان سے باہر دیکھنے سے قاصر ہے۔ انسان کی آنکھ اور کان اس کی اپنی فہم کی حدود میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ فہم کی حدود سے باہر نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے اطراف میں دیکھ رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں لیکن اس کی فہم کو خاندان سے باہر کسی چیز میں ذرہ بھر دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کے شعور کا حال بالکل چند سال کے بچے کا سا ہوتا ہے، ایسے بچے کا سا جس کو آپ ریڈیو پر ساری دنیا کی خبریں سنوا دیں مگر وہ نہ کچھ سمجھے گا، نہ محسوس کرے گا۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر میں صرف اپنے خاندان کی حدود میں سوچتا ہے تو روحانیت کے نقطۂ نظر سے اس کی عمر چند سال سے زیادہ تصور نہیں کی جا سکتی۔ کسی ایسے انسان کا شعور جو محض اپنے انفرادی مفاد کو مدنظر رکھتا ہے۔ سو سال کی عمر میں بھی بلوغ کو نہیں پہنچتا۔ اس ہی بنیاد پر کُل ذات سے بے خبر رہتا ہے۔ کائنات کی اسٹیج پر اس کی حالت وہی ہوتی ہے جو تین سال کے بچے کی کسی بین الاقوامی جلسے میں ہو سکتی ہے۔ اس ہی وجہ سے مذہب لازمۂ حیات انسانی ہے۔ جس قوم کا ایمان، کائنات کا اخلاص نہیں ہے وہ قوم کائناتی قدروں کا مشاہدہ نہیں کر سکتی۔ نہ اس کی فہم کائناتی علوم تک پہنچ سکتی ہے۔ اس نے خود کو کُل ذات سے منقطع کر لیا ہے۔ اس وضع کی قوم ہزاروں سال کی عمر پانے کے باوجود پالنے کا بچہ رہے گی۔

یہ روشنی جس کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں یک ذات اور کل ذات کے درمیان ایک پردہ ہے۔ اس ہی روشنی کے ذریعے کل ذات کے تصورات یک ذات کو وصول ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کل ذات جو اطلاعات یک ذات کو دیتی ہے ان اطلاعات کو یہ روشنی رنگ روپ اور اُبعاد(Dimensions) دے کر یک ذات تک پہنچاتی ہے۔ اس کی مثال ٹیلیویژن ہے۔ ٹیلیویژن کی سطح سے وہ ساری چیزیں نظر آتی ہیں اور وہ ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں جو اسٹیشن سے ارسال کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ ترسیل منقطع ہو جاتی ہے نہ کچھ سنائی دیتا ہے، نہ نظر آتا ہے۔ بالکل یہی حال کل ذات سے آنے والی اطلاعات کا ہے۔ نوع انسانی کے افراد کو روشنی کے ذریعے اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ جس طرح اطلاع ملتی ہے انسانی افراد اس ہی طرح دیکھتے اور جانتے ہیں۔ جب کسی فرد سے اطلاعات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے تو اس فرد کی موت واقع ہو جاتی ہے لیکن یہ انقطاع ناسوتی دنیا سے ہوتا ہے۔ یعنی حیات کی ایک سطح سے فرد منقطع ہو جاتا ہے لیکن دوسری سطح سے (جس کو ہم غیب کہتے ہیں) اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔

یہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جس روشنی کے ذریعے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں خود اس روشنی کی بھی دو سطح ہیں۔ ایک سطح کے حواس میں ثقل اور اُبعاد دونوں شامل ہیں لیکن دوسری سطح میں اُبعاد ہیں۔ اُبعاد کی سطح اس روشنی کی گہرائی میں واقع ہے۔ روشنی ہمیں جو اوپری سطح کی اطلاعات دیتی ہے حواس انہیں براہ راست دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن جو اطلاعات ہمیں نچلی سطح سے پہنچتی ہیں ان کی وصولی کے راستے میں کوئی مزاحمت ضرورہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حواس ان اطلاعات کی پوری طرح گرفت نہیں کرتے۔ دراصل جو اطلاعات ہمیں اوپری سطح سے وصول ہوتی ہیں وہی اطلاعات نچلی سطح سے وصول ہونے والی اطلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی ہیں۔ گویا کہ ایک طرح کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہمارے حواس کوشش کرنے کے باوجود اسے پار نہیں کر سکتے۔ اوپری سطح کی اطلاعات دو قسم پر ہیں۔

۱

۔ وہ اطلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں۔ ان کے ساتھ ہمارا رویہ جانب دارانہ ہوتا ہے۔

۲۔ وہ اطلاعات جو انفرادی مفاد سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ان کے حق میں ہمارا رویہ غیر جانب دارانہ ہوتا ہے۔


اطلاعات کی ان دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ انسان کے پاس ادراک کے دو زاویے ہیں۔ ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے۔ دوسرا وہ زاویہ جو انفرادیت کی حدود سے باہر ہے۔ جب ہم انفرادیت کے اندر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک نہیں ہوتی لیکن جب ہم انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک ہوتی ہے۔ جس زاویے میں کائنات شریک ہے اس کے اندر ہم کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ اپنا ادراک کرتے ہیں۔ ادراک کا یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ اس ہی کو ہم تجرباتی دنیا کہتے ہیں۔ ایک طرف کائنات کو اپنی انفرادیت میں دیکھنے کے عادی ہیں، دوسری طرف اپنی انفرادیت کائنات میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ ایک طرف انفرادیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور دوسری طرف کائنات کی۔ جب یہ دونوں ترجمانیاں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو انفرادیت کی ترجمانی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے تاویل کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض اوقات تاویل کے حامی اپنے حریفوں سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے نظریات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ انفرادیت ایک شخص، ایک جماعت یا پوری ایک قوم پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ انفرادیت کے زاویے کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ کسی نہ کسی مرحلے میں کائنات کی اور اشیاء سے منحرف ہو جاتی ہے۔ اس زاویہ میں نگاہ ہمیشہ غلط دیکھتی ہے۔ مثلاً کسی چیز کا سائز(Size) ہوا میں کچھ اور نظر آتا ہے، پانی میں کچھ اور۔ یہ اختلافِ نظر زمان اور مکان کی پابندیوں کے سبب ہیں۔ دیکھنے والا جب تک زمان و مکان سے آزاد نہ ہو کسی شئے کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ 

زمان و مکان کی تشریح لازمانی زاویہ سے

زمان و مکان دو چیزیں نہیں ہیں۔ روشنی سے ملنے والی اطلاعات کی جو سطح ہمارے سامنے ہے ہم اس کو مکان کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جو سطح نظر سے اوجھل ہے اس کو زمان کا نام دیتے ہیں۔ فی الواقع یہ دونوں سطح مل کر ایک یونٹ ہیں۔ شعور کی اوپری سطح میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ بیک وقت لاشمار چیزوں کو دیکھ سکے، سن سکے اور سمجھ سکے۔ یہ یکے بعد دیگرے ایک ایک چیز کو دیکھتی، سنتی اور سمجھتی ہے۔ حواس کی اس ترتیب میں جو مرحلے پڑتے ہیں ان کو وقفہ، آن، لمحہ وغیرہ متنوع الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ہیں زمان کے اجزاء۔ جب ان اجزاء کو نگاہ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں، ذہن سمجھتا ہے تو مکانی تخلیق عمل میں آتی ہے۔

اگرچہ کائنات کی بناوٹ بہت زیادہ پیچیدہ نہیں مگر فکر انسانی اس بناوٹ کو نامانوس ہونے کی وجہ سے پیچیدہ سمجھتی ہے۔ بات بہت سادہ ہے۔ اس کا کہنا اور سمجھنا بالکل آسان ہے۔ لاتناہیت کا ایک عالم ہے۔ یہ عالم ماورائے کائنات کو محیط ہے۔ تمام کہکشانی نظاموں کو اس عالم سے ادراک تقسیم ہوتا ہے۔ یہ ادراک لاشمار لمحات سے گزرتا ہے۔ یہی لمحات کہکشانی نظاموں کی شکل وصورت اختیار کر لیتے ہیں۔ کسی جوہر کے چھوٹے سے اجزاء اور کسی کرہ کے بڑے سے بڑے جسم کا ظہور ایک ہی لمحہ میں ہوتا ہے۔ اس بات کو ایک اور طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کے ادراک میں حرکت ہوتی ہے۔ خود لاتناہیت میں حرکت نہیں ہوتی۔ یہ حرکت ایک یونٹ، ایک ہستی یا ارادۂ الٰہیہ ہے اور دو سطح پر مشتمل ہے۔ ایک زمان، دوسرے مکان۔ یہ دونوں توام ہیں اور ایک دوسرے کا اثبات کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے زمان کو امر اور مکان کو خلق فرمایا ہے۔

امر اور خلق کے اجزاء

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ھَلْ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا (سورۂ دہر۔ آیت ۱)

ترجمہ: کبھی ہوا ہے انسان پر ایک وقفہ زمانے میں جو نہ تھا کچھ چیز قابل ذکر کیا ہوا۔

نمبر۱۔ دہر لازمان ہے۔ ہم دہر کو ادراکِ الٰہیہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ لاتناہیت ہے۔

نمبر۲۔ وقت کائنات کا وقفہ ہے اور کائنات کو محیط ہے۔ یہ ازل تا ابد ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث ہے۔ لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتُٗ۔ اس حدیث میں کائنات ہی کے وقت کا تذکرہ ہے۔

کائنات سے ماوراء جو سطح ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دہر(امر) فرمایا ہے۔ یہی سطح لازمان ہے۔ کائنات کی حدود میں اسی سطح کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’وقت‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہی سطح زمان ہے۔ افراد کائنات میں اس کو حین کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ سطح خود مظاہر نہیں ہے بلکہ مظاہر کی اساس ہے۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس ہی مفہوم کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

۲۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ (سورۂ رحمٰن۔ آیت ۱۴)

ترجمہ: بنایا آدمی کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔

۳۔ ھَلْ اَتیٰ عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنُٗ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْعًا مَّذْ کُوْراً (سورۂ دہر۔ آیت۱)

ترجمہ: کیا نہیں پہنچا انسان پر ایک وقت جو تھا شئے (تصور) بغیر تکرار کیا ہوا(بے ترتیب)۔

۴۔ خَلَقَکَ مَنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ (سورہ کہف۔ آیت ۳۷)

ترجمہ: بنایا تجھ کو مٹی سے پھر بوند سے۔

۵۔ اِنَّا خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْراً (سورۂ دہر۔ آیت ۲)

ترجمہ: ہم نے بنایا آدمی ایک بوند سے، پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا سنتا دیکھتا۔

اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجتی اور کھنکھناتی فرمایا ہے۔ یعنی خلاء مٹی کے ہر ذرے کی نیچر ہے۔ اس ہی خلاء کا نام حین لیا ہے۔ ارشاد ہے ہم نے انسان کو پھر دیکھتا سنتا بنا دیا۔ مراد یہ ہے کہ خلاء میں حواس پیدا کر دیئے۔ یہ حواس وہ بوند ہیں جس کا تذکرہ نطفہ کے لفظ سے کیا ہے۔ خلاء زمان غیر مسلسل ہے اور بوند زمان مسلسل ہے، خلاء نور ہے اور بوند نسمہ ہے۔ بوند کے معنی کوئی جسمیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک نقطۂ ماسکر ہے۔ اس ہی نقطہ میں تصورات جمع ہوتے ہیں۔ فرمایا ہے پلٹتے رہے اس کو۔ گویا جو تصورات مصدر اطلاعات (دہر) سے خلاء(حین) کو حاصل ہوئے ان میں ترتیب قائم کی گئی ہے۔ اس ہی ترتیب نے حواس یا مظاہر کی شکل اختیار کر لی۔

قرآن پاک میں کتاب المبین کا تذکرہ ہے۔ کتاب المبین ہی وہ غیب ہے جس کو ہم مستقبل کا نام دیتے ہیں۔ یہ ازل تا ابد کی مکمل تصویر ہے اور ظہور کا مبداء ہے۔ جب ہم لفظ ابد زبان سے ادا کرتے ہیں تو یہ ایک ہی لفظ ازل تا ابد کے تمام تصورات کا مجموعہ ہے۔ لفظ ظہور ہے اور لفظ کے اندر مخفی تصورات غیب ہیں۔ لفظ ذہن کی ایک حرکت ہے۔ اس حرکت میں تین قسم کی شعاعیں مرکوز ہوتی ہیں۔

۱۔ حسیات کی شعاعیں

۲۔ معتقدات کی شعاعیں

۳۔ تغیرات کی شعاعیں

حسیات کی شعاعیں مفرد اور معتقدات کی شعاعیں مرکب ہوتی ہیں۔ مفرد و مرکب شعاعیں مل کر تغیرات کی شعاعیں بن جاتی ہیں۔ تغیرات ہی کی شعاعوں کا نام ظہور کائنات ہے۔

تخلیق کا راز

قرآن پاک میں تخلیق کا راز بیان ہوا ہے۔ اللہ کا امر یہ ہے کہ

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (سورۂ یٰسین۔ آیت ۸۲)

ترجمہ: جب وہ کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’ہو‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔

اس آیت پر غور کیا جائے تو لفظ کے اندر جو راز ہیں ان رازوں کا اور ان رازوں کو حرکت میں لانے کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کُن‘‘ تو ان کا مخاطب کوئی شئے ہوتی ہے جو ابھی تک ظہور میں نہیں آئی لیکن جب اسے ظہور میں آنے کا حکم دیا گیا تو یہی حکم اس شئے کے اندر میکانکی حرکت بن گیا۔ غور طلب یہ ہے کہ شئے کے ظہورکی ماہیت اور طرز کیا تھی۔ یہ ماہیت وہ تصورات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارادے میں موجود ہیں۔ لیکن ان کی طرز میں کوئی ترتیب نہ تھی۔ ترتیب نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ کوئی شئے لاتناہیت میں پھیلی ہوئی ہے۔ جب ارادہ نے شئے کے تصور کو لاتناہیت سے اخذ کیا تو شئے کی ایک صورت بن گئی۔ اب شئے کی صورت ایک علم بن گئی اور علم لفظ ہے۔ یعنی جس وقت شئے کے مجموعی تصورات علم کا سانچہ بن گئے تو لفظ کہلائے۔ پھر شئے کی ہستی لفظ کی گرفت میں آ گئی۔ اور لفظ اسے پردہ (کتاب المبین) سے باہر کھینچ لایا۔

لفظ کی تین قسمیں ہیں۔ دو قسمیں ایسی ہیں کہ ان کو برائے نام لفظ کہا جا سکتا ہے۔یہ دو قسم کے لفظ ظہور کے بعد استعمال ہوتے ہیں مثلاً اچھا یا برا۔ اچھا ایسا لفظ ہے جو تائید کرتا ہے، برا ایسا لفظ ہے جو تردید کرتا ہے۔ دونوں الفاظ میں تصورات کا ایسا مجموعہ پوشیدہ ہے جو ظہور میں آ چکا ہے۔ اب ارادہ میں ایسے تصورات موجود نہیں ہیں جن کو ظہور میں آنا ہو۔ یعنی ارادہ میں تصور کی گنجائش نہیں ہے۔ ان دونوں قسم کے الفاظ کا نام خلق یا کائنات ہے۔ یہ دونوں امر کے شعبے سے الگ ہیں۔ قرآن پاک میں آیا ہے:

ھُوَ الْاَوَّلُ ھُوَ الْاٰخِرُ ھُوَ الظَّاھِرُ ھُوَ الْبَاطِنُ

ان معنوں میں اللہ تعالیٰ محیط کل ہے۔ اور وجود مدرک ہے۔ ہم ظاہر کو دیکھتے ہیں باطن کو نہیں دیکھتے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ تو دیکھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کس سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم ادراک کرتے ہیں لیکن یہ ادراک نہیں کرتے کہ کس سے ادراک کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ ادراک کر لیں کہ کس سے ادراک کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا ادراک کر لیں گے۔ اس ہی لئے ہماری فہم صرف خلق میں کام کرتی ہے۔ امر تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ ہم الفاظ کو کسی چیز کے رد میں استعمال کرتے ہیں یا قبول میں استعمال کرتے ہیں جس لفظ کو رد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ میں رد کئے ہوئے تصورات کام کرتے ہیں۔ جس لفظ کو قبول میں استعمال کیا جاتا ہے اس میں قبول کئے ہوئے تصورات کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے الفاظ خلق ہیں کیونکہ تصورات سے لبریز ہونے کے بعد ظہور میں آ چکے ہیں۔


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )