Topics
’’صلوٰۃ قائم کرنا‘‘
دیکھئے! نماز کیلئے قرآن پاک
میں صلوٰۃ کا لفظ ہے۔ صلوٰۃ قائم کرو اس کا ترجمہ ’’نماز پڑھو‘‘ نہیں، پس صلوٰۃ کی
حکمت پس پردہ چلی گئی۔
نماز کے ایک معنی رحمت بھی
ہیں۔ یعنی نماز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ آقائے نامدار خاتم النبیین
تاجدار دو عالم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بہت بڑا اعجاز ہے کہ آپﷺ نے اپنی
امت اور بنی نوع انسان کے لئے حصول رحمت کا ایک ایسا طریقہ عطا فرمایا جس طریقہ میں
انسانی زندگی کی ہر حرکت سمو دی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان ہر حالت میں اور زندگی
کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ وابستہ رہے۔ ہم جب نماز کے اندر حرکات
و سکنات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کی
کوئی حرکت ایسی نہیں ہے جس کو حضورﷺ نے نماز میں شامل نہ کر دیا ہو۔۔۔۔۔۔مثلاً ہاتھ
اٹھانا، بلند کرنا، ہاتھ باندھنا، ہاتھوں سے جسم کو چھونا، کھڑا ہونا، جھکنا، لیٹنا،
بولنا، دیکھنا، سننا، سرگھما کر ادھر ادھر سمتوں کا تعین کرنا۔ غرض زندگی کی ہر حالت
نماز کے اندر موجود ہے۔ مقصد واضح ہے کہ انسان خواہ کسی بھی کام میں مصروف ہو یا کوئی
بھی حرکت کرے اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے اور یہ عمل عادت بن کر اس کی
زندگی پر محیط ہو جائے حتیٰ کہ ہر آن، ہر لمحہ اور ہر سانس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ
اس کی وابستگی یقینی عمل بن جائے۔
ہم جب نیت باندھتے ہیں تو
ہاتھ اوپر اٹھا کر کانوں کو چھوتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لیتے
ہیں۔ نماز شروع کرنے سے پہلے یہ بات ہماری نیت میں ہوتی ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لئے
کر رہے ہیں۔ نیت کا تعلق دماغ سے ہے یعنی پہلے ہم دماغی اور ذہنی طور پر خود کو اللہ
تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے اب تک جتنی
بھی ایجادات و ترقیات ہوئی ہیں ان کا تعلق پہلے دماغ سے ہے اور اس کے بعد ہاتھوں سے۔
جب ہم نماز کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اللہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں تو اس کا مفہوم
یہ ہوتا ہے کہ اپنی تمام ذہنی اور دماغی صلاحیتیں اور ترقی و ایجادات کا رشتہ اللہ
تعالیٰ کے ساتھ قائم کر دیتے ہیں۔ یعنی یہ کہ نوع انسانی سے جو ایجادات معرض وجود میں
آئی ہیں یا آئیں گی۔ ان کا تعلق ان صلاحیتوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں۔
ہم سبحانک اللھم پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف
کرتے ہیں کہ ہمارے اندر بولنے اور بات کرنے، سوچنے اور سمجھنے کی جو صلاحیت موجود ہے
وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک وصف ہے اور ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ الحمد
شریف پڑھ کر ہم اپنی نفی کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ فی الواقع تمام
تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہیں اور وہی ہمیں ہدایت بخشتا ہے اور اسی کے انعام
و اکرام سے فلاح یافتہ ہو کر ہم صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔
الحمد شریف کے بعد ہم قرآن
پاک کی کوئی سورۃ تلاوت کرتے ہیں۔ مثلاً ہم سورۃ اخلاص (قل ہو اللہ شریف) پڑھ کر برملا
اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ یکتا ہے اور مخلوق یکتا نہیں ہے۔ اللہ احتیاج نہیں
رکھتا، وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ
کہ کسی کا باپ ہے۔ اللہ کی ذات منفرد ہے، یکتا ہے، واحد ہے، لاانتہا ہے، غیر متغیر
ہے اور اس کا کوئی خاندان نہیں۔ اب ہم اللہ کی بڑائی کا اقرار کرتے ہوئے جھک جاتے ہیں۔
پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ جس حالت کو لیٹنے سے قریب ترین
کہا جا سکتا ہے پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آخری رکعت میں کافی دیر نہایت سکون اور
آرام سے بیٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھ کر سلام پھیر دیتے ہیں۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زندگی میں ہر وہ حرکت جو انسانوں سے سرزد ہوتی ہے سب کی سب
نماز میں سمو دی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرے، کسی بھی حال میں رہے، اٹھے،
بیٹھے، جھکے، کچھ بولے، اِدھر اُدھر دیکھے، ہاتھ پیر ہلائے، کچھ سوچے ہر حالت میں اس
کا زہنی ارتباط، اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے۔ قرآن پاک میں جتنی جگہ نماز کا تذکرہ
ہوا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ قائم کرو صلوٰۃ اور وہ لوگ جو قائم کرتے
ہیں صلوٰۃ وغیرہ وغیرہ پر غور کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں نماز قائم کرنے کی ہدایت
کی گئی ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ نماز پڑھو۔
نماز پڑھنے اور قائم کرنے
میں بہت فرق ہے۔ قرآن کریم میں پڑھنے کے الفاظ بھی ہیں:
’’اے محمدﷺ) جو کپڑے میں لپٹ
رہے ہو، رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ
زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ (سورہ مزمل)
فارسی زبان کا ایک لفظ ہے
’’نماز خواندن‘‘ یعنی نماز پڑھنا۔ یہ لفظ آتش پرستوں کے یہاں رائج ہے۔ جب وہ اپنی کتاب
’’ژندواوستا‘‘ پڑھ کر آگ کے سامنے جھکتے ہیں تو اس کو نماز خواندن یعنی نماز پڑھنا
کہتے ہیں۔ عربی سے جب اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا تو یہ سہو ہوا کہ ’’صلوٰۃ قائم کرو‘‘
کا ترجمہ ’’نماز پڑھنا‘‘ کر دیا گیا۔ حالانکہ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق صلوٰۃ ہی
ہونا چاہئے تھا جس طرح کلمہ طیبہ ہے، اللہ کا ترجمہ اللہ ہے، رحمان کا ترجمہ رحمان
ہے، پیغمبر کا ترجمہ پیغمبر ہے، رسول کا ترجمہ رسول ہے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن پاک کے ارشاد
کے مطابق قائم کرو صلوٰۃ اور اردو ترجمہ کے مطابق نما زپڑھو کے معنی و مفہم میں بڑا
فرق واقع ہو جاتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ جب ہماری فکر
اپنی پوری صلاحیتوں اور اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ ایک نقطے کو تلاش نہ کر لے اور ہماری
فکر کسی ایک جگہ پر قائم نہ ہو جائے ہم اس چیز کے صحیح مفہوم اور معنویت سے بے خبر
رہتے ہیں۔ دماغی انتشار اور خیالات کی یلغار کے ساتھ ہم کوئی بھی کام کریں اس کا صحیح
نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ دراصل کسی چیز کے اندر اس کا وصف اور اس وصف میں معنویت سے ہی
کوئی نتیجہ مرتب ہوتا ہے مثلاً پانی سے پیاس اس لئے بجھ جاتی ہے کہ پانی کا وصف خشک
رگوں کو سیراب کرنا ہے، آگ سے کھانا اس لئے پک جاتا ہے کہ آگ کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی
حدت اور گرمی سے چیزوں کو گلا کر قابل ہضم بنا دیتی ہے۔ جب تک ہمارے ذہن میں فی الواقع
کسی چیز کا وصف اور معنویت موجود نہیں ہوتی ہم اس چیز سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
صلوٰۃ(نماز) کی حکمت اور معنویت پر اگر غور کیا جائے تو ایک ہی بات وجہ تسکین بنتی
ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا اور اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا ایک موثر اور
یقینی ذریعہ ہے۔ لیکن کسی چیز کے قریب ہونا اور کسی چیز کو پہچاننا اس وقت ممکن ہے
جب آدمی اس شئے کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جائے۔ جب تک آدمی کسی چیز کی معنویت میں خود
کو گم نہ کر دے، اس وقت تک وہ اس کی کنہ سے واقف نہیں ہوتا اور معنویت میں گم ہو جانا
اس وقت ممکن ہے جب عقل و فہم اور سوچ کا ہر زاویہ کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ یعنی
کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے وہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس چیز سے اپنا ایک
ربط قائم کر لے۔ وہ زندگی کا کوئی کام اور زندگی کی کوئی حرکت کرے، ذہنی طور پر اس
کی تمام تر توجہ اس چیز کی معنویت تلاش کرنے میں مصروف رہے۔ انبیائے کرام کے اندر یہی
طرز فکر کام کرتی تھی۔ وہ ہر کام اور ہر عمل کا رخ ارادتاً اور طبعاً اللہ تعالیٰ کی
طرف موڑ دیتے تھے۔ یعنی ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ
کے لئے ہے۔ انبیائے کرام نے اسی طرز فکر کی تبلیغ کی ہے اور اسی طرز فکر کو اپنانے
کی پوری نوع انسانی کو ترغیب دی ہے اور اپنی ساری زندگی اسی طرز عمل میں گزاری ہے۔
تمام آسمانی صحائف اور قرآن
پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ فی الواقع انسان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
’’تم ہماری سماعت سے سنتے
ہو، ہماری بصارت سے دیکھتے ہو، ہمارے فواد سے سوچتے ہو۔ تمہارا آنا ہماری طرف سے ہے
اور تم ہماری ہی طرف لوٹ جاؤ گے۔ اللہ ہر شئے پر محیط ہے، اللہ ہی ابتداء ہے، اللہ
ہی انتہا ہے۔ اللہ ہی ظاہر ہے، اللہ ہی باطن ہے۔ جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے
اور جہاں تم دو ہو وہاں تیسرا اللہ ہے۔ اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور اللہ ہی پیدائش کے
بعد پرورش کے وسائل فراہم کرتا ہے اور اللہ ہی ہے جو بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔‘‘
ہر نبی نے اللہ تعالیٰ کے
حکم سے اپنی امت کے لئے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔ اس پروگرام میں بنیادی بات یہ رہی
ہے کہ بندے کا اللہ سے ایک رشتہ قائم ہو جائے۔ انبیائے کرام نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس لئے تخلیق کیا ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں اور
ان کا ہنی ارتباط اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم و دائم رہے۔ قربان جایئے اپنے پیارے
نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ کے محبوب پر کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم
کرنے کے لئے قیام صلوٰۃ کی صورت میں ایک طریقہ متعین فرما دیا ہے۔ غور و فکر کرنے کے
بعد یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نماز میں زندگی کا ہر عمل اور ہر حرکت موجود
ہے گویہ اعمال و حرکات بظاہر جسمانی ہیں لیکن ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کے سامنے حضوری
اور عرفان حق کا حصول ہے۔
مرشد کریم کے دورہ کوئٹہ کے
تیسرے روز صبح کوئٹہ مراقبہ ہال میں شعبہ تعلقات عامہ اور شعبہ خدمت پر تربیتی نشست
کے دو سیشن ہوئے مرکزی مراقبہ ہال کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سیکرٹری جناب احتشام
الحق نے اپنے شعبہ کی جامع انداز میں تشریح کی اور پبلک ڈیلنگ کے اہم اور حساس نقاط
کی اہمیت کو واضح کیا، آپ نے شخصیت اور کردار کی اصل بنیاد اخلاق اور طرز فکر پر بات
کی اور اعتدال و نظم و نسق کی اہمیت اجاگر کی۔
ٹریننگ کے اختتام پر شرکاء
سے خطاب کرتے ہوئے مرشد کریم نے ارشاد فرمایا:
’’اسلام کی اشاعت و ترویج
کیلئے دو رائے قائم کی جاتی ہیں، ایک یہ کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور دوسرا
یہ کہ عمدہ اخلاق سے پھیلا ہے۔ اس دور میں ہمیں مکہ میں دو گروہ نظر آتے ہیں ایک گروہ
میں امراء اور سردار نظر آتے ہیں، جن کے ہاتھ میں زیارتوں کے چڑھاوے، انتظام اور زمام
کا کاروبار تھا، یہ وہ لوگ تھے جو آسودہ و پرآسائش زندگی بسر کرتے تھے۔ دوسرا گروہ
محروم و مظلوم لوگوں کا تھا جن میں غلام اور کنیزیں بھی شامل تھیں۔ رسول اللہﷺ نے مساوات
کا درس دیا۔ آپﷺ نے اخلاق حسنہ کی بنیاد پر معاشرت کے قیام میں دلچسپی لی۔ اخلاق حسنہ
یہ ہے کہ جو کچھ اپنے لئے چاہو وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ غربا اور مفلوک الحال
طبقہ کو وسائل سے محروم رکھنا بداخلاقی کے ضمن میں آتا ہے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں
پڑوسی، والدین، بیوی، بچوں، رشتہ داروں، ملک اور قوم کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ گھر
کا ماحول درست کرنا اولین ترجیح ہے جو بندہ گھر میں بھیڑیا ہے اس سے باہر نیک روی کی
توقع کیسے کی جائے۔ اہل خانہ کا احترام نہیں تو باہر خدمت خلق کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس کے اثرات عارضی ہوں گے، منافقت نہیں ہونی چاہئے۔ ظاہر و باطن میں مطابقت ہونی چاہئے۔
آپ رسول اللہﷺ کے اخلاق حسنہ اپنائیں گے تو رسول اللہﷺ کی طرز فکر منتقل ہو گی اور
اس کیلئے ہمیں آپ کی طرح بااخلاق، با علم اور با عمل ہونا پڑے گا۔ رسول کریمﷺ کا اخلاق
حاصل کرنے کیلئے کتاب محمد رسول اللہﷺ کم از کم پانچ مرتبہ پڑھنے کی تاکید فرماتے ہوئے
مرشد کریم نے آپﷺ کے اخلاق حمیدہ کی پیروی کو مشن کی ترویج کیلئے ضروری قرار دیا۔
خطاب کے اختتام پر مرشد کریم
نے ساتھیوں کے ہمراہ ملٹری ڈیری فارم کی خوبصورت 2منزلہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔
اس مسجد میں خوبصورت پھول لگائے گئے ہیں جس کی کمی اکثر مساجد میں محسوس ہوتی ہے۔ پھولوں
اور لطافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نہ جانے کیوں مساجد کو پھولوں اور درختوں سے بے
نیاز کر دیا گیا ہے۔ نماز جمعہ کے بعد کھانے اور آرام کا وقفہ تھا۔ اس کے بعد مرد حضرات
کے مسائل و روحانی علاج کیلئے وقت مخصوص تھا تقریباً دو سو افراد نے مرشد کریم سے ملاقات
کی۔
ملاقات سے فارغ ہو کر مرشد
کریم کے ہمراہ سیر کیلئے روانہ ہوئے نواب بھائی نے شہباز پارک چلنے کی تجویز دی۔ ہم
شہباز پارک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ صرف فیملیز کیلئے مخصوص ہے، نواب بھائی نے مرشد
کریم کیلئے داخلے کی خصوصی اجازت حاصل کی تھی لیکن مرشد کریم نے قواعد کی خلاف ورزی
پسند نہ فرمائی اور کسی دوسری جگہ چلنے کو کہا۔ قوانین کا احترام ہی ترتیب زندگی ہے
جس کی پابندی سے زندگی اجتماعی طور پر سہل ہو جاتی ہے۔ ہم وہاں سے عسکری پارک روانہ
ہوئے راستے میں جب نواب بھائی کولڈ ڈرنکس لے رہے تھے تو مرشد کریم نے اپنے 39سالوں
پر محیط مشاہدات بنائے۔ قارئین یہ پڑھ کر یقیناً پر مسرت حیرانگی میں مبتلا ہوں گے
کہ اس عرصہ میں مرشد کریم نے 18لاکھ افراد کے مسائل کا حل بنایا ہے اور بیماریوں کا
علاج کیا ہے۔
چند لمحوں بعد ہم عسکری پارک
پہنچ گئے، راوی نے دیکھا ہے کہ آپ کراچی میں بھی سیر کیلئے جاتے ہیں اور کھلی و سرسبز
جگہ بہت پسند کرتے ہیں۔ مرکزی مراقبہ ہال سرجانی ٹاؤن میں مراقبہ ہال کے اطراف میں
پھول اور درخت نظر آتے ہیں اور مراقبہ ہال کو مسجد کے اندر تو بے شمار خوشنما پھول
اور درخت لگے ہوئے ہیں جن میں گلاب قابل ذکر ہے اس کے علاوہ امرود، انار، ناشپاتی،
آم، چیکو اور جامن کے پھلدار درخت بھی لگے ہوئے ہیں۔
مرکزی مراقبہ ہال شہر کی آلودگی
اور شور و غل سے بہت دور ہے نئی آبادی ہونے کی بناء پر یہ کھلے علاقہ میں واقع ہے۔
یہاں شام کو تیز ہوا چلتی ہے۔ شہروں کی ہنگامہ خیز زندگی میں روزمرہ کی مصروفیات صبح
سے رات گئے تک جاری رہتی ہیں، جس سے ہمیں ذہنی، مالی، سماجی اور معاشرتی دباؤ کا سامنا
رہتا ہے، معاش کی جگہ صرف دنیا اور پیسہ ہی مقصد حیات کر دل و دماغ پر اس طرح چھا گئے
ہیں کہ دولت کا بت ہماری زندگی کا محور بن گیا ہے۔ اس صورتحال میں اگر چند روز مرکزی
مراقبہ ہال میں گزارے جائیں تو زندگی کا روشن اور پرسکون پہلو مشاہدے میں آتا ہے یہاں
محبت و خلوص تقسیم ہوتا ہے اللہ کی نسبت کا ادراک پیدا ہوتا ہے۔
راوی ان خیالات کو مرشد کریم
کے ان ارشادات کے ضمن میں دیکھ رہا تھا جو آپ نے ایک بار مرکزی مراقبہ ہال میں فرمائے
تھے کہ اہل دل حضرات کو مراقبہ ہال سرجانی ٹاؤن میں ضرور اطمینان قلب اور سکون محسوس
ہوتا ہے، اس تناظر میں جب راوی شعوری طور پر واپس عسکری پارک میں حاضر ہوا تو مرشد
کریم فرما رہے تھے کہ میں کراچی میں مراقبہ ہال کے اطراف میں ہی سیر کرتا ہوں اور فرمایا
مجھے لاہور کا ریس کورس پارک بھی بہت پسند ہے۔ اس سفر میں ایک مرتبہ مرشد کریم نے فرمایا
کہ سلسلہ عظیمیہ کو چند اولیائے کرام کی خصوصی نظر اور سرپرستی حاصل ہے جن میں حضرت
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ
، حضرت لعل شہباز قلندرؒ ، حضرت بو علی شاہ قلندرؒ ، فرید گنج شکرؒ ، حضرت بری امامؒ
، حضرت داتا گنج بخشؒ ، سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، حضرت شاہ دولہؒ ، حضرت
امام موسیٰ رضاؒ اور حضرت جنید بغدادیؒ خاص طور پر شامل ہیں۔
رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے
جب ہم عسکری پارک سے سیرینا ہوٹل پہنچے۔ اس فور سٹار ہوٹل کو معاشرت و ثقافت کے دیہی
طرز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے دیہی علاقے میں مٹی کے گارے سے چھوٹے اور بڑے
قلعہ نما مکانات تعمیر کئے جاتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بستی ’’کلی‘‘ کہلاتی ہے۔ اس پورے
ہوٹل کو ایک کلی کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جس میں علاقائی طرز تعمیر، ثقافت و کشیدہ
کاری اور پانی کے مقامی طرز ترسیل و نکاسی کا امتزاج دکھایا گیا ہے۔
یہاں مرشد کریم اور دیگر مہمانان
گرامی جمعۃ المبارک کے روایتی کھانے میں مدعو تھے۔ مقامی باغات کی طرز پر بنائے گئے
لان کے کنارے ٹیرس پر کھانے کا انتظام تھا۔ درختوں کے درمیان پختہ گزر گاہ میں اوپر
سے گرتے ہوئے پانی کا شور قدرتی منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً 30افراد کے اس نمائندہ
اجتماع میں آپ نے اپنے قریب بیٹھے بلوچستان ڈوویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر میجر(ر)
ہارون الرشید سے گفتگو فرماتے ہوئے مسلم قوم کے انتشار، گروہ بندی اور تقسیم پر افسوس
کا اظہار فرمایا۔
مرشد کریم الشیخ عظیمی نے
اس موقع پر اجتماعی کوشش اور اجتماعی طرز فکر کی اہمیت کو اجاگر کیا، آپ نے فرمایا
کہ اللہ بھی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہ بدلنا
چاہے۔ انفرادی کوشش سے اجتماعی اعمال نہیں بنتے اور انفرادی اعمال پر اجتماعی فیصلے
نہیں کئے جاتے۔ کچھ دیر بعد خوبصورت ماحول اور باوقار تشخص کی یہ نشست اختتام کو پہنچی۔
ہم مہمانان گرامی اور ساتھیوں سے رخصت لے کر گھر واپس پہنچے یوں ایک اور بھرپور اور
منفرد دن کا اختتام ہوا۔
Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad
خواجہ شمس الدین عظیمی
مٹی کی
لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر
ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو
قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں
کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
(قلندر
بابا اولیاءؒ )
انتساب
مربّی،
مشفّی
مرشد کریم
کے نام
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت
کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے
کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب
میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم
موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی
سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔
اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ
سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی،
محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔