Topics
انسان کے شعور کو پہلے دن سے رنج و راحت کا احساس رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے رنج و راحت کی وجہ معلوم ہو تا کہ رنج سے محفوظ رہے اور راحت کو برقرار رکھ سکے۔ وہ راحت کو نہیں چھوڑتا۔ اس لئے راحت کے ضائع ہونے کا خوف و ملال بھی اس کے دل سے نہیں نکلتا۔ وہ کسی نہ کسی طرح رنج سے دور رہنے اور راحت سے قریب ہونے کی ضمانت چاہتا ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں کے سبب خود کو حوادث پر قابو پانے کے لائق نہیں سمجھتا۔ لہٰذا کسی ایسی طاقت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جس سے اس کو راحت کی ضمانت مل سکے۔ یہی مخفی طاقتوں کی تلاش کا موجب ہے۔ قرآن پاک نے یُؤْ مِنُوْنَ بِالْغَیْب میں اس ہی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی لامتناہی صفات کا تذکرہ ہے۔ یہیں سے راحت کی ضمانت ملتی ہے۔
کوئی انسان خود اعتمادی کا دعویٰ کر سکتا ہے لیکن رنج و راحت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ البتہ غیب پر ایمان لانے کے بعد اسے بہتری کا یقین ہو جاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ غیب جو کچھ ہے بہترہی بہتر ہے، کیونکہ غیب رحیم و کریم کے ہاتھ میں ہے۔
وَ ما کانَ لِبَشَر أَنْ یُکَلِّمَهُ اللّهُ إِلاّ وَحْیاً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجاب أَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً (سورۂ شوریٰ۔ آیت ۵۱)
ترجمہ: اور کسی آدمی کی حد نہیں کہ اس سے باتیں کرے اللہ مگر اشارہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا بھیجے پیغام لانے والا۔
اوپر کی آیت میں انسانی حواس کی رسائی بیان ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو مخاطب کرتے ہیں تو اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ہے دل کہ دیکھ لیتا ہے اور جان لیتا ہے۔ دل کے دیکھنے کا تذکرہ بایں الفاظ کیا گیا ہے۔
مَاکَذَّبَ الْفُؤَا دُمَارَاٰی (جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو دیکھا)
یہ اللہ تعالیٰ کا وہی طرز تکلم ہے جس کا نام وحی ہے یا اللہ تعالیٰ ایلچی کے ذریعے بات کرتے ہیں۔ یعنی آنکھیں ایلچی کو دیکھتی ہیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور کسی طرح اپنے بندے پر رہنمائی کرتے ہیں۔ اس طرز کا نام حجاب ہے۔ مثلاً ایک جمیل اور نورُٗ علیٰ نور صورت میں بندہ پر جلوہ فرماتے ہیں۔ یہ جمیل صورت اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ حجاب ہے۔
اوپر کی آیات سے انسانی حواس کی حدیں اوردو طرزیں معین ہو جاتی ہیں۔ انسانی حواس جب کسی نقطہ پر ٹھہرتے ہیں تو اس ٹھہراؤ کا نام شئے ہے اور یہ شئے ایک شکل وصورت رکھتی ہے۔ دراصل یہ ایک لمحہ ہے جس سے خود حواس کو جسم حاصل ہو جاتا ہے۔ حواس اس جسم کو خارجی اور معروضی دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کی طرز اس کے علاوہ نہیں ہو سکتی کہ حواس خود کو اپنے بالمقابل دیکھیں اور خود ہی کو خود سے ایک الگ شئے قرار دیں۔ زندگی کی تمام حرکات و سکنات اس طرز نگاہ کی مثالیں ہیں۔ اصولاً جب حواس کسی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اشارتاً اندرونی خدوخال کو بیرونی بنا دیتے ہیں۔ جب حواس خود کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’میں‘‘ تو یہ ’’میں‘‘ صرف خلاء ہوتی ہے، بالکل سادہ اور شفاف۔ گویا حواس اپنے نقش و نگار کی طرف اشارہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک بے رنگ شئے کا تذکرہ کر رہے ہیں جو صرف خاکہ ہے۔ اب حواس ’’میں‘‘ کی رنگینیوں اور نقش و نگار کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں۔ میں نے یہ کہا، میں نے وہ کیا، دیکھو یہ چاند ہے، یہ ستارے ہیں۔ یہ چاند اور ستارے وہ ہیں جن کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں۔ اس طرز میں حواس اپنی ذاتی حرکت کو قریب یا بعید دیکھتے اور اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ محض کائناتی حواس کا انداز نظر ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جو فرد کے اندر ’’میں‘‘ بن جاتے ہیں۔ اور اشارۂ قریب و بعید کے ذریعے اپنی تکرار کرتے ہیں۔
ھَلْ اَتیٰ عَلَی الْاِنْسَانَ حِیْنً مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْعًا مَّذْکُوْرًا
ترجمہ: کیا نہیں پہنچا انسان پر ایک وقت زمانے میں جو تھا شئے بغیر تکرار کیا ہوا۔
کبھی انسان ایسا وقت (حواس) تھا جس میں تکرار نہیں تھی۔ پھر ایسا وقت(حواس) ہوا جس میں تکرار ہے۔ یہاں صرف دو ایجنسیاں زیر بحث ہیں۔ ایک حواس، نمبر دو حواس کی تکرار۔ یہ دونوں ایجنسیاں ایک یونٹ ہیں۔ اس مطلب کی وضاحت تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَتُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَمِّیتِ وَتُخْرِجُ الْمَمِّیتَ مِنَ الْحَیِّ (سورۂ آل عمران۔ آیت ۲۷) میں کی گئی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دستور العمل بیان فرمایا ہے۔ اللہ رات کو داخل کرتا ہے دن میں اور دن کو داخل کرتا ہے رات میں، تو زندگی کو موت سے نکالتا ہے اور موت کو زندگی سے نکالتا ہے۔ رات حواس کی ایک نوع ہے اور دن حواس کی دوسری نوع۔ رات کے حواس کی نوع میں مکانی اور زمانی فاصلے مردہ ہو جاتے ہیں لیکن دن کے حواس کی نوع میں یہی فاصلے زندہ ہو جاتے ہیں۔
زید خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے ایک دوست سے باتیں کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کا دوست دور دراز فاصلے پر رہتا ہے۔ خواب میں زید کو یہ احساس بالکل نہیں ہوتا کہ اس کے اور دوست کے درمیان کوئی فصل ہے۔ ایسے خواب میں مکانی فاصلے صفر ہوتے ہیں۔ اس ہی طرح زید گھڑی دیکھ کر رات کے ایک بجے سوتا ہے۔ خواب میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہفتوں کا دور دراز سفر طے کرتا ہے۔ راستے میں منزل پر قیام بھی کرتا ہے۔ ایک طویل مدت گزارنے کے بعد گھر واپس آتا ہے۔ آنکھ کھلتے ہی گھڑی دیکھتا ہے۔ اب بھی ایک ہی بجا ہے۔ اس قسم کے خواب میں زمانی فاصلہ صفر ہوتا ہے۔ یہ رات کے حواس کی نوع ہے۔ جو فاصلے اس نوع میں مردہ ہوتے ہیں وہی فاصلے دن کے حواس میں زندہ ہو جاتے ہیں۔ خواب کی نیچر میں مکانی زمانی تمام فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں۔ قرآن پاک کا یہی ارشاد ہے رات کی نوع دن میں داخل ہو جاتی ہے اور دن کی نوع رات میں۔ رات اور دن میں ادراک مشترک ہے۔ محض فاصلے مرتے اور جیتے ہیں۔
رات کے حواس کتاب المبین (لوح محفوظ) ہیں اور دن کے حواس کتاب المرقوم ہیں۔ ان دونوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ ہم اس چیز کا مظاہِر قدرت میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثلاً زید اور محمود دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چراغ جل رہا ہے۔ چراغ کی روشنی میں زید محمود کو اور محمود زید کو دیکھ رہا ہے۔ دونوں کے لئے روشنی دیکھنے کا ذریعہ ہے۔ اب روشنی کی رفتار بیک وقت دو سمتوں میں ہے۔ (دوسری طرف) زید کی سمت سے روشنی محمود کی آنکھ تک پہنچتی ہے اور محمود کی سمت سے روشنی زید کی آنکھ تک پہنچتی ہے۔ یہ ایک ہی چراغ کی روشنی جو محمود سے زید تک اور زید سے محمود تک سفر کر رہی ہے۔ سفر کی سمتیں مختلف ہیں لیکن روشنی کا مخرج ایک ہے۔ یا پھر یوں کہیں گے کہ روشنی ایک ہے۔ اس روشنی کے احساس میں کوئی ایسی شئے ہے جو بیک وقت دو سمتوں میں سفر کرتی ہے۔ اور اس کے آثار یکساں ہیں۔ امتیاز کہاں ہے؟۔۔۔ یہی روشنی جو تصورات زید میں پیدا کرتی ہے، وہ زید کے تصورات کہلاتے ہیں۔ یہی روشنی جو تصورات محمود میں پیدا کرتی ہے، وہ محمود کے تصورات کہلاتے ہیں۔ یہ فرق مشاہدہ کرنے والے کے زاویۂ نظر کا ہے۔ یہاں سے مظاہر کا یہ قانون منکشف ہو جاتا ہے کہ سمتوں کی تبدیلی روشنی میں نہیں بلکہ مشاہدہ کرنے والے کے زاویۂ نگاہ میں ہے۔ اس کی وجہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کو مشاہدہ کرنے والے کی ذات کہتے ہیں۔ یہ وہی ذات ہے ذات باری تعالی سے متصل ہے۔ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد میں اس ہی اتصال کا تذکرہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر لفظ ’ہم‘ استعمال کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کثرت میں ہر ایک فرد کی ذات کے ساتھ خود کو وابستہ کر رہے ہیں۔ ہر فرد کی منفرد حیثیت اس ہی لئے اپنی جگہ قائم ہے۔
روشنی کا مرکز ایک ہی چراغ ہے۔ زید اور محمود دونوں کو ایک ہی چراغ سے روشنی مل رہی ہے۔ البتہ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تغیر روشنی میں واقع نہیں ہوتا۔ روشنی بدستور اپنی حالت پر قائم ہے۔ صرف زید اور محمود کے طرز بیان میں تغیر ہے کیونکہ وہی روشنی زید میں زید کی تصویر حیات ہے اور محمود میں محمود کی۔
تصوف میں اس طرز کو مرتبہ کہتے ہیں۔ اگر ہم مرتبہ کا ترجمہ عام زبان میں کرنا چاہیں تو انگریزی کا ایک لفظ ’میکانزم‘ استعمال کر سکتے ہیں۔ میکانزم کی اساس ایک ہے۔ فقط نام الگ الگ ہیں۔ یہی میکانزم یا مرتبہ لاشمار انواع پر مشتمل ہے۔ یہی میکانزم آدمیوں میں زید اور محمود ہے اور یہی درختوں میں آم اور بادام ہے۔ ایک ہی روشنی ہے جو ان سب کی شکلیں بناتی ہے۔ یہ میکانزم (مرتبہ) ایسے سیاہ نقطوں سے بنا ہے جو کائنات کی اصل ہے۔ ان سیاہ نقطوں کو تجّلی کہتے ہیں۔ ان کی گردش دوہری ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں جہاں اللہ تعالیٰ نے تکرار کا مفہوم استعمال کیا ہے وہاں یہی دوہری حرکت مراد ہے۔ دوہری حرکت ہر سمت میں واقع ہوتی ہے۔ اس طرح بیک وقت وہ ہر پہنائی، ہر گہرائی، ہر سمت اور وقت کے کمترین یونٹ میں جاری و ساری ہے۔ یہ دوہری حرکت صدوری ہوتی ہے یعنی سیاہ نقطہ جو زمان(Time) ہے پہنائی، گہرائی اور سمتوں میں پے در پے چھلانگ لگاتا رہتا ہے۔ جہاں تک اس نقطے کی چھلانگ ہے وہاں تک مکان(Space) کی شکل وصورت بنتی رہتی ہے۔ اس سیاہ نقطے میں وہ ساری شکلیں جو مکانی شکل وصورت میں نظر آتی ہیں مخفی ہیں۔ جب یہ نقطہ چھلانگ لگاتا ہے تو مخفی مظاہر کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اس ہی روپ کا نام کائنات ہے۔ اس نقطہ میں لاشمار پردے ہیں۔
سیاہ نقطہ
سیاہ نقطہ کو سمجھنے کے لئے اس کا نام زمان(Time) رکھنا پڑے گا۔ زمان کے دو مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ میں مکان اور وقت کے فاصلے پائے جاتے ہیں۔ دوسرے مرتبہ میں مکان اور وقت کے فاصلے نہیں پائے جاتے۔ ایک مرتبہ میں مشاہدہ کرنے والا ترتیب وار دیکھتا ہے۔ اس کے دیکھنے کا انداز کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحے اور تیسرے لمحے اور اس ہی طرح مزید لمحوں کے یکے بعد دیگرے گزرنے کا ادراک کرتا ہے۔ یہی ادراک کی تکرار ہے۔ ادراک کی تکرار سے شہود کی گہرائیاں بنتی ہیں۔ ان گہرائیوں کو مکانی فاصلے کہا جاتا ہے۔ یہ مرتبہ سیاہ نقطہ کا صرف ایک انداز نظر ہے۔ مثلاً دن ایک حبّز(Space) ہے۔ رات ایک اسپیس ہے، پھول ایک اسپیس ہے، فضا ایک اسپیس ہے، مٹی ایک سپیس ہے، پانی ایک اسپیس ہے، خلاء ایک اسپیس ہے، خیال ایک اسپیس ہے، آگ ایک اسپیس ہے، ہوا ایک اسپیس ہے، چاندی ایک اسپیس ہے، سونا ایک اسپیس ہے، ہر شئے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ایک اسپیس ہے، کائنات کا بڑے سے بڑا کرہ ایک اسپیس ہے۔ اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جوہر(ایٹم) کے کھرب در کھرب ٹکڑے کئے جائیں تو ہر ٹکڑا ایک اسپیس ہے۔ اگر ایک سیکنڈ کو سنکھ در سنکھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر حصہ ایک حبّز(Space) ہے۔ سیاہ نقطہ میں ازل تا ابد جتنے حبّز ہو سکتے وہ سب تہہ در تہہ موجود ہیں۔
سیاہ نقطے کا دوہرا انداز نظر بیان شدہ انداز نظر سے برعکس ہے۔ اس انداز نظر میں سیاہ نقطہ کی گہرائیاں اس درجہ لاتناہیت رکھتی ہیں کہ پہلے انداز نظر کا ادراک اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ تاہم یہ انداز نظر اپنا الگ ادراک رکھتا ہے۔ اس ادراک کو اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر فرمایا ہے۔
گزشتہ صفحات میں تسوید، تجرید، تشہید اور تظہیر کا تذکرہ ہوا ہے۔ یہ چاروں ادراک ہیں۔ اور ادراک کو سمجھنے کے لئے کائنات کی گہرائی اور پہنائی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ کائنات کو پہنائی میں دیکھنا اور گہرائی میں محسوس کرنا یا دل کی آنکھ سے کائنات کا مشاہدہ کرنا ادراک کی طرزیں ہیں۔ ظاہر میں دیکھنا پہنائی میں دیکھنا ہے۔ باطن میں دیکھنا گہرائی میں دیکھنا ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں طرزوں کی شرح کی گئی ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا ہے۔ اور پھر عرش پر متمکن ہو گیا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔ یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان (بلندیوں و پستیوں) کا نور ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )