Topics

وحدت الوجود اور وحدت الشہود

نگاہ دو طرح دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک براہ راست، دوسرے بالواسطہ۔ آئینہ کی مثال اوپر آ چکی ہے۔ جب ہم اپنی ذات یعنی داخل میں دیکھتے ہیں تو یہ نگاہ کا براہ راست دیکھنا ہے۔ یہ دیکھنا ’’جُو‘‘ یعنی وحدت میں دیکھنا ہے۔ وحدت میں دیکھنے والی یہی نگاہ انسان، امر ربی، روح یا جزولاتجزاء ہے۔ یہی نگاہ شاہد کو مشہود سے قریب کرتی ہے۔ یہی نگاہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد کا انکشاف کرتی ہے۔ یہی نگاہ اپنی جگہ علم الٰہی یا علم توحید ہے۔ یہی نگاہ کثرت میں اضافی، تفصیلی، توسیعی اور محسوساتی طبیعت بنتی ہے۔ اس کی پہلی حرکت علم توحید یا وحدت الوجود ہے۔ اس ہی نگاہ کی دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں حرکت کثرت یا وحدت الشہود ہے۔ یہی نگاہ جب بالواسطہ دیکھتی ہے تو مکانیت اور زمانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ اس کی حرکات میں جیسے جیسے تبدیلی ہوتی ہے ویسے ویسے کثرت کے درجے تخلیق ہوتے جاتے ہیں۔ یہ نگاہ تنزل اول کی حیثیت میں شعور قوت نظارہ، گفتار، شامہ اور لمس بنتی ہے۔

ہر تنزل میں اس کے دو جزو ہوتے ہیں۔ یہ نگاہ حرکت میں آنے سے پہلے تنزل اول میں علم اور علیم اور حرکت میں آنے کے بعد تنزل دوئم میں شعور، تنزل سوئم میں نگاہ اور تشکیل، تنزل چہارم میں گفتار اور سماعت، تنزل پنجم میں رنگینی اور احساس، تنزل ششم میں کشش اور لمس ہوتی ہے۔ 

تنزل اول وحدت کا ایک درجہ ہے اور تنزل دوئم کثرت کے پانچ درجے ہیں۔ اس طرح تنزلات کی تعداد چھ ہو گئی۔ پہلا تنزل لطیفۂ وحدت ، دوسرے پانچ تنزل لطائف کثرت کہلاتے ہیں۔ جزولاتجزاء، انسان یا روح کی ساخت یہاں سے منکشف ہو جاتی ہے۔

اول ذات باری تعالیٰ ہے اور باری تعالیٰ کا ذہن علم واجب کہلاتا ہے۔ واجب میں کائنات کا وجود اللہ تعالیٰ کے ارادے کے تحت موجود تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کا مظاہرہ پسند فرمایا تو حکم دیا ’’کُن‘‘ یعنی حرکت میں آ۔ چنانچہ بشکل کائنات واجب میں جو کچھ موجود تھا اس نے پہلی کروٹ بدلی اور حرکت شروع ہو گئی۔ پہلی حرکت یہ تھی کہ موجودات کے ہر فرد کو اپنا ادراک ہو گیا۔ موجودات کے ہر فرد کی فکر میں یہ بات آئی کہ میں ہوں۔ یہ انداز فکر ایک گم شدگی اور محویت کا عالم تھا۔ ہر فرد ناپیدا کنار دریائے توحید کے اندرغوطہ زن تھا۔ ہر فرد کو صرف اتنا احساس تھا کہ میں ہوں۔ کہاں ہوں، کیا ہوں اور کس طرح ہوں اس کا کوئی احساس اسے نہیں تھا، اس ہی عالم کو عالم وحدت الوجود کہتے ہیں۔ اس عالم کو اہل تصوف محض وحدت کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ وحدت، وحدت باری تعالیٰ ہرگز نہیں ہے کیونکہ باری تعالیٰ کی کسی صفت کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ یہ وحدت ذہن انسانی کی اپنی ایک اختراع ہے جو صرف انسان کے محدود دائرۂ فکر کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کسی لامحدود وصف کو صحیح طور پر بتانے سے قطعی کوتاہ اور قاصر ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفت کا مکمل اظہار ہو سکے۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ’’وحدت‘‘ فکر انسانی کی اپنی ایک اختراع ہونے کی حیثیت میں زیادہ سے زیادہ فکر انسانی کے علو اور وسعت کو بیان کرتی ہے۔ جب کوئی انسان لفظ وحدت استعمال کرتا ہے تو اس کے معنی بس یہی نکلتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یکتائی کو یہاں تک سمجھا ہے۔ بالفاظ دیگر لفظ وحدت کا مفہوم انسان کی اپنی حد فکر تک محدود ہے۔ اس محدودیت ہی کو انسان لامحدودیت کا نام دیتا ہے۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ اس قسم کی توصیفی حدوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہیں۔ جب ہم وحدت کہتے ہیں تو فی الحقیقت اپنی ہی وحدت فکر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس ہی مقام سے عالم وحدت الوجود کے بعد عالم وحدت الشہود کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ روحوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں نہیں ہوں رب تمہارا؟)

یہاں سے انسان یا امر ربی کی نگاہ وجود میں آ جاتی ہے۔وہ دیکھتا ہے کسی نے مجھے مخاطب کیا اور مخاطب پر اس کی نگاہ پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے بَلٰی۔۔۔۔۔۔جی ہاں، مجھے آپ کی ربانیت کا اعتراف ہے اور میں آپ کو پہچانتا ہوں (قرآن)۔

یہ ہے وہ مقام جہاں امر ربی نے دوسری حرکت کی۔ یا دوسری کروٹ لی۔ اس ہی مقام پر وہ کثرت سے متعارف ہوا۔ اس نے دیکھا کہ میرے سوا اور بھی مخلوق ہے کیونکہ مخلوق کے ہجوم کا شہود اسے حاصل ہو چکا تھا، اسے دیکھنے والی نگاہ مل چکی تھی۔ یہ واجب کا دوسرا تنزل ہوا۔ اس تنزل کی حدود میں انسان نے اپنے وجود کی گہرائی کا احساس اور دوسری مخلوق کی موجودگی کا شہود پیدا کیا۔ پہلے تنزل کی حیثیت علم اور علیم کی تھی یعنی انسان کو صرف اپنے ہونے کا ادراک ہوا تھا۔ 

میں ہوں۔۔۔۔۔۔’’میں‘‘ علیم اور ’’ہوں‘‘ علم ہے۔ دوسرے تنزل میں گم شدگی کی حد سے آگے بڑھا تو اس نے خود کو دیکھا اور دوسروں کو بھی دیکھا۔ اس ہی کو عالم وحدت الشہود کہتے ہیں۔ پہلے تنزل کو جو محض ادراک تھا جب احساس کی گہرائی حاصل ہوئی تو نگاہ وجود میں آ گئی۔ نگاہ ادراک کی گہرائی کا دوسرا نام ہے۔

قانون:

ادراک گہرا ہونے کے بعد نگاہ بن جاتا ہے۔ ادراک جب تک ہلکا ہو اور خیال کی حدوں تک موجود رہے، اس وقت تک مشاہدہ کی حالت رونما نہیں ہوتی۔ احساس صرف فکر کی حد تک کام کرتا ہے۔ جب فکر ایک ہی نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکوز ہو جاتی ہے وہ نقطہ خدوخال اور شکل وصورت کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اس ہی کو مشاہدہ یا شہود کہتے ہیں۔ اب فکر نگاہ کی حیثیت میں اس ہی نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتی ہے تو نقطہ گویا ہو جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں نگاہ جو نقطہ کا مشاہدہ کر رہی ہے گویا ہو جاتی ہے یا بولنے لگتی ہے۔ اس نقطہ پر امر ربی کہتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے۔

یہ قوت گویائی جسے نطق کہتے ہیں اگر ذرا دیر اس نقطہ کی طرف اور متوجہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینیوں کا چشمہ اُبل پڑتا ہے۔ اور وہ اپنے ارد گرد نیرنگی کا ایک ہجوم محسوس کرنے لگتی ہے۔جب اس ہجوم پر امر ربی کی توجہ ذرا سی دیر اور مرکوز رہتی ہے تو شعور انسانی میں کشش کی روشن لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان لہروں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے مطمح نظر یا شہود کو جسے وہ دیکھ رہی ہیں یا محسوس کر رہی ہیں چھو دیتی ہیں۔ ان لہروں کے اس عمل کا نام ’’لمس‘‘ ہے۔ یہاں سے یہ قانون پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ علم ہی کی جداگانہ حرکات یا حالتوں کا نام خیال، نگاہ، گفتار، شامہ اور لمس ہے۔

بیان کردہ قانون سے اس بات کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ ایک حقیقت اپنی حالت بدلتی رہتی ہے۔ ان تبدیلیوں میں مختلف انکشافات کا قیام ہے۔ جس نقطہ پر جو انکشاف صورت پذیر ہے وہی امر ربی کی حرکت بن جاتا ہے۔ جس طرح خیال علم ہے اس ہی طرح نگاہ بھی علم ہے اور نگاہ کے بعد کی تمام حالتیں بھی علم ہیں۔ کوئی حالت ان حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔ علم کی حدود کے اندر ہی درجہ بدرجہ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔

ہماری فکر اوپر سے نیچے کی طرف سیڑھیاں اترتی ہے اور ہم فکر کی شکل وصورت کو مختلف احساسات کا نام دیتے چلے جاتے ہیں۔ جب ہم ایک خیال کو ذہن میں شدت سے محسوس کرتے ہیں تو وہی خیال شکل و صورت بن کر رونما ہو جاتا ہے۔ وہی شکل وصورت مزیدغور و فکر کے اثر سے گفتگو کرنے لگتی ہے۔ ذرا اور شدت ہوتی ہے تو یہی گفتگو رنگارنگ لباسوں میں جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ آخری مرحلہ میں شدت احساس کے باعث ہم ان رنگا رنگ لباسوں کی طرف خود کو کھنچتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری حس ان رنگا رنگ لباسوں کو چھو لیتی ہے۔ یہاں پر ہمارا تجسس ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت فکر انسانی کے لئے لذت کی انتہا ہے۔ اس آخری نقطہ سے پھر فکر انسانی کو لوٹنا پڑتا ہے۔ یعنی جس چیز کو ہم نے ابھی چھوا تھا ہماری حس اس سے دور ہونے لگتی ہے۔ یہی حالت ہماری حس کا رد عمل ہے جو مکانیت اور زمانیت کے فصل کا احساس دلاتا ہے۔ ابھی ہم جس چیز سے قریب تھے رفتہ رفتہ اس سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور مجموعی طور پر اسی نقطہ کی دوری کا نام موت ہے۔ موت وارد ہونے کے بعد روح گزرے ہوئے تجربات سے ایک مجموعی علم جدید سیکھتی ہے۔ اسی عالم کا نام عالم غیب کا شہود ہے۔ایک بار پھر زندگی کی تشریح بیان کی جاتی ہے۔

یہ کائنات اپنی ہر شکل و صورت اور ہر ایک حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی۔ اس ہی موجودگی کا نام وجودِ رویاء ہے اور جس علم میں کائنات کی موجودگی تھی، اللہ تعالیٰ کے اس علم کو واجب یا علم قلم کہتے ہیں۔ علم واجب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جس کو ذات کا عکس کہتے ہیں۔

علم واجب کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی صفات ایک قدم اور نیچے اترتی ہیں تو عالم واقعہ یا عالم ارواح کا ظہور بن جاتی ہیں۔ یہی وہ محل وقوع ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ظہور تخلیق کا ارادہ فرمایا اور لفظ کُن  کہہ کر اپنے ارادے کو کائنات کی شکل وصورت بخشی۔ یہاں سے دو حیثیتیں قائم ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ایک حیثیت اللہ تعالیٰ کے علم کی، دوسری حیثیت اللہ تعالیٰ کے ارادے کی۔ دراصل ارادہ ہی ازل کی ابتدا کرتا ہے۔ ازل کے ابتدائی مرحلے میں موجودات ساکت و صامت ہیں۔ موجودات کی شکل کو روحانیت کی زبان میں علم وحدت، کلیات یا علم لوح محفوظ کہتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موجودات کا سکوت ٹوٹے اور حرکت کا آغاز ہو تو اللہ تعالیٰ نے موجودات کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ

اب موجودات کی ہر شئے متوجہ ہو گئی اور اس میں شعور پیدا ہو گیا۔ اس شعور نے جواباً بَلٰی کہہ کر اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اعتراف کر لیا۔یہ عالم واقعہ کی پہلی شکل تھی۔ اشیاء میں جب حرکت کی ابتدا ہوئی تو عالم واقعہ کی دوسری شکل کا آغاز ہو گیا۔ اس شکل کا نام عامی زبان میں کثرت ہے۔ اس ہی شکل کو عالم مثال یا ’’جُو‘‘ کہتے ہیں۔

یہاں سے امر ربی روح، جزولاتجزاء یا انسان زندگی کا اقدام کرتا ہے اور اس ہی کا عکس ناسوت میں واقعات کی شکل وصورت اختیار کر لیتا ہے۔ عالم ناسوت کا یہ عکس اشیاء کا دوسرا تمثل ہے۔ ذات کا عکس علم واجب یا علم قلم۔ علم واجب کا عکس علم وحدت یا علم لوح محفوظ ہے۔ علم لوح محفوظ کا عکس ’’جُو‘‘ یعنی عالم تمثال ہے۔ عالم تمثال کا عکس تمثل ثانی یا عالم تخلیط ہے۔ عالم تخلیط کو عالم ناسوت بھی کہتے ہیں۔ 


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )