Topics

نماز اور زکوٰۃ کا پروگرام

قرآنی پروگرام کے دونوں اجزاء، نماز اور زکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے انسان پر لازم ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

جب تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ یا یہ محسوس کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔

اس ارشاد کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں وظیفۂ اعضا کی حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔ جب ایک شخص دس بارہ سال کی عمر سے اٹھارہ بیس سال کی عمر تک جو اس کے شعور کی تربیت کا زمانہ ہے اس طرح نماز قائم کرے گا تو اس کا ذہن اللہ کی طرف رہنے کا اور جسم قیام و رکوع، قومہ و سجود، قعدہ اور جلسہ ہر قسم کی حرکت کا عادی ہو جائے گا۔ ذہن کا اللہ کی طرف ہونا، روح کا وظیفہ ہے اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ ہے۔ چنانچہ صرف نماز کے ذریعے کوئی فرد اس بات کا عادی ہو جاتا ہے کہ اس پر ربودگی اور بیداری کی صحیح کیفیت طاری رہے تا کہ زندگی کی دونوں صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہو سکے۔ جب وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی طرف متوجہ رہنے اور ساری دنیا کے کام انجام دینے کا عادی ہوتا ہے تو ربودگی اور بیداری دونوں کیفیتوں سے یکساں طور پر روشناس رہتا ہے۔ یہی زندگی کی تکمیل ہے، یہی نماز کا پروگرام ہے۔ اور دوسرا زکوٰۃ کا پروگرام ہے جس کا منشاء مخلصانہ اور بے لوث خدمت خلق ہے۔ تصوف میں اس ہی کیفیت کو ’’جمع‘‘ کہتے ہیں یعنی وہ کیفیت جس میں انسان ہر وقت اللہ اور اللہ کی مخلوق دونوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک عارف کے لئے ’’جمع‘‘ پہلی منزل ہے۔

پوری کائنات ایک مرکزی نقطۂ وحدانی رکھتی ہے۔ اس نقطۂ وحدانی کی گہرائیوں میں روشنیوں کے سرچشموں کا سوت مخفی ہے۔ اس نقطۂ وحدانی سے روشنیاں جوش کھاتی اور ابلتی رہتی ہیں۔ کائنات کے اندر ہر لمحہ ان ہی روشنیوں سے ستاروں اور سیاروں کے لاشمار نظام تعمیر ہوتے رہتے ہیں اور تقریباً اس ہی تعداد میں مٹتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ روشنیاں دم بدم کائنات کو وسعت دیتی رہتی ہیں۔ روشنیوں کی حرکات نئی صورتوں اور نئے نئے نقوش کی طرزوں میں کائنات کی تفصیل کرتی رہتی ہیں۔ روشنیوں کی ان حرکات کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ روشنیوں کے گہرائیوں میں سمٹنے اور ہجوم کرنے پر مبنی ہے اور دوسرا رخ روشنیوں کے پھیلنے اور منتشر ہونے پر مشتمل ہے۔ گہرائیوں میں سمٹنے کو مخفی حرکات سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ پھیلنے اور منتشر ہونے کو مثبت حرکت کہتے ہیں۔ حرکت کی یہی دو حالتیں کشش اور گریز کے نام سے تعبیر کی جاتی ہیں۔ تمام کائنات میں کشش اور گریز کے کروڑ ہا حلقے پائے جاتے ہیں۔ ان حلقوں میں ہر حلقہ ایک مرکزیت رکھتا ہے لیکن ان تمام حلقوں کی مرکزیتیں نقطۂ وحدانی کی سمت میں متحرک رہتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر نقطۂ وحدانی سے حلقوں کی ان مرکزیتوں میں نور کی شعاعوں کا ایک سلسلہ ازل سے ابد تک جاری اور قائم ہے۔ 

اِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٥٤﴾(سورۂ اعراف۔ آیت ۵۴)

ترجمہ: بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر قائم ہوا۔ چھپا دیتا ہے شب سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا اور ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں، یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔

اس آیت میں نقطۂ وحدانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ربانیت کی صفت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ میں بھی اس ہی طرف اشارہ ہے۔ اِنِّیْ اَنَارَبَّکَ (میں ہوں تیرا رب) اِنِّیْ اَنَااللّٰہُ رَبَّ الْعٰلَمِیْن (میں ہوں میں اللہ عالمین کا رب)۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو اللہ اور اپنی صفات کو رب فرمایا ہے۔ چنانچہ نقطۂ وحدانی صفت ربانیت کا مرکز ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ انسان پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت ربانیت سے متعارف ہوتا ہے اور یہی صفت موجودات سے زیادہ قریب ہے۔

کائنات کا ہر ایک نقش روشنی کی ایک الگ نوع ہے۔ ہر نوع روشنی کی ایسی مقداری حرکت رکھتی ہے جو مخصوص رنگوں کی ترتیب ہے اور ہر ترتیب کے تحت یکساں اور مشابہ شکلیں ظہور میں آتی ہیں چنانچہ ہر نوع کی مقداری حرکت اپنی الگ ایک مرکزیت رکھتی ہے۔ یہ ساری مرکزیتیں مل کر نقطۂ وحدانی کی طرف صعود کرتی ہیں۔ صعود اور نزول کی مذکورہ بالا طرز ہی کسی شئے میں تغیر پیدا کرتی ہے۔ اس ہی تغیر کا نام حکم کی تفصیل ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ میں کیا ہے۔


خلق اور امر

خلق اور امر کو سمجھنے کے لئے کائناتی زندگی کی مرکزیت اور ترتیب کا سمجھنا ضروری ہے۔ کائنات کا ہر نقش تین وجود رکھتا ہے۔ 

پہلے وجود کا قیام لوح محفوظ میں ہے۔

دوسرے وجود کا قیام عالم تمثال میں ہے۔

تیسرے وجود کا قیام عالم رنگ میں ہے۔

عالم رنگ سے مراد کائنات کے وہ تمام مادی اجسام ہیں جو رنگوں کی اجتماعیت پر مشتمل ہیں۔ یہ اجسام لاشمار رنگوں میں سے متعدد رنگوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ رنگ نسمہ کی مخصوص حرکات سے وجود میں آتے ہیں۔ نسمہ کی معین طوالت حرکت سے ایک رنگ بنتا ہے۔ دوسری طوالت حرکت سے دوسرا رنگ۔ اس طرح نسمہ کی لاشمار طوالتوں سے لاشمار رنگ وجود میں آتے ہیں۔ ان رنگوں کا عددی مجموعہ ہر نوع کے لئے الگ الگ معین ہے۔ اگر گلاب کے لئے رنگوں کا الف عددی مجموعہ معین ہے تو اس الف عددی مجموعہ سے ہمیشہ گلاب ہی وجود میں آئے گا۔کوئی اور شے وجود میں نہیں آئے گی۔اگر آدمی کی تخلیق رنگوں کی جیم تعداد سے ہوتی ہے  تو اس تعداد سے دوسرا کوئی حیوان نہیں بن سکتا۔ صرف نوع انسانی ہی کے افراد وجود میں آ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس قانون کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔

فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَاتَبْدِیْلَ لِِخَلْقِ اللّٰہِ(سورۂ روم، آیت ۳۰)

یہاں فطرت سے مراد نسمہ کی حرکت کا طول، رفتار اور اس کا ہجوم ہے۔ 

عالم رنگ میں جتنی اشیاء پائی جاتی ہیں وہ سب رنگین روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان ہی رنگوں کے ہجوم سے وہ شئے وجود میں آتی ہے جس کو عرف عام میں مادہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے یہ مادہ کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے اگر اس کو شکست و ریخت کر کے انتہائی قدروں تک منتشر کر دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ اگر بہت سے رنگ لے کر پانی میں تحلیل کر دیئے جائیں تو ایک خاکی مرکب بن جائے گا جس کو ہم مٹی کہتے ہیں۔ گھاس، پودوں اور درختوں کی جڑیں پانی کی مدد سے مٹی کے ذرات کی شکست و ریخت کر کے ان ہی رنگوں میں سے اپنی نوع کے رنگ حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ تمام رنگ پتی اور پھول میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تمام مخلوقات اور موجودات کی مظہری زندگی اس ہی کیمیائی عمل پر قائم ہے۔ نسمہ کی حرکت داخل کی زندگی سے خارج کی زندگی تک عمل کرتی اور خارج کی زندگی کو مظہر کی شکل و صورت دیتی ہے۔ فی الحقیقت یہ شکل و صورت صرف رنگوں کی اجتماعیت ہے۔ نسمہ کے اندر دو قسم کی مظہریت ہوتی ہے۔

اول، حرکت کا طول۔

دوئم، حرکت کی رفتار

حرکت کا طول مکانیت اور حرکت کی رفتار زمانیت ہے۔ حرکت کی یہ دونوں طرزیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔

تین عالم کیوں؟

جب مصور تصویر بناتا ہے یہ تصویر اس کے تصور کا عکس ہوتی ہے۔ تصور بذات خود کاغذ پر منتقل نہیں ہوتا۔ اس ہی لئے وہ کسی شئے کی جتنی تصویریں بنانا چاہتا ہے بنا سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تصور جوں کا توں اس کے ذہن میں محفوظ ہے۔ یہاں سے تخلیق کا یہ قانون منکشف ہو جاتا ہے کہ اصل اپنی جگہ محفوظ رہتی ہے۔ اور عکس منتقل ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام مخلوق ظہور میں آنے سے پہلے خالق کے ارادے میں جس طرح محفوظ تھی، اب بھی س ہی طرح محفوظ ہے۔ کائنات کا یہی مرکز محفوظیت لوح محفوظ کہلاتا ہے۔ جس کو نقطۂ وحدانی بھی کہہ سکتے ہیں۔

موجودات میں جس قدر نوعیں ہیں ان سب کی اصلیں نقطۂ وحدانی میں محفوظ ہیں۔ نقطۂ وحدانی کے عین مقابل ایک آئینہ ہے جس کو عالم مثال کہتے ہیں۔ اس آئینہ میں ہر نوع کی الگ الگ مرکزیت ہے۔ یہ مرکزیت کسی نوع کے تمام افراد کا ایک ایسا مجموعی ہیولیٰ ہے جس میں نوع کی معین شکل وصورت نقش ہوتی ہے۔ چنانچہ نقطۂ وحدانی کی لاشمار نوعیں اپنی روشنی سے لاشمار نوعوں کا مرکزی ہیولیٰ بناتی ہیں۔

جب نقطۂ وحدانی کی شعاعیں عالم مثال کی طرف حرکت میں آتی ہیں تو زمان(Time) وقوع میں آتا ہے لیکن یہ حرکت اکہری ہوتی ہے۔ اس میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ اس حرکت کی طوالت ازل سے ابد تک ہے۔ زمان بھی ازل تا ابد ہے۔ اس ہی لئے اس حرکت کو زمان(Time) کہتے ہیں۔ یہ حرکت ازل سے ابد تک مسلسل سفر کرتی ہے جب یہ حرکت عالم مثال سے گزر جاتی ہے تو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ عالم مثال کا آئینہ شعاعوں کو قبول کر کے اپنی فطرت کے مطابق ان شعاعوں کو واپس لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش سے شعاعوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک طرف نقطۂ وحدانی کی فطرت آگے بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔ دوسری طرف مثالی آئینہ کی فطرت شعاعوں کو واپس لوٹانے پر اپنی پوری کوشش صرف کر دیتی ہے۔ اس کشمکش میں یہ حرکت مرکب(دوہری) ہو جاتی ہے۔ حرکت میں بھی دو رخ ہوتے ہیں:

ایک کشش، دوسرا گریز۔

مفرد حرکت(زمان) جو نقطۂ وحدانی سے شروع ہوتی ہے، نزولی حرکت ہے۔ نقطۂ وحدانی سے متضاد سمت میں سفر کرتی ہے۔ لہٰذا اس کو گریز کہا جاتا ہے۔

جب مثالی آئینہ عکس کو لوٹانے کی کوشش کرتا ہے تو مفرد حرکت کی سمت بدل جاتی ہے۔ وہ اب تک نزول کر رہی تھی، لیکن حرکت کے متضاد ہونے سے صعود کی طرف رجوع ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت کشش کہلاتی ہے۔


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )