Topics

نزول و صعود

اخفیٰ، خفی، سِر، روح، قلب اور نفس یہ سب چھ لطائف ہوئے۔ دراصل یہ چھ حرکتوں کے نام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حرکت ہر نوع میں ایک طول رکھتی ہے۔ ان چھ حرکات میں سے تین حرکات نزولی ہیں اور تین صعودی۔ تین نزولی حرکات کے مقابل دوسرے رخ پر تین صعودی حرکات بیک وقت وقوع میں آتی ہیں۔ ہر ایک نوع میں پہلی حرکت اخفیٰ، گریز یا نزول کی حرکت ہے۔ یہ حرکت عمق سے سطح کی طرف ابھرتی ہے۔ یہ حرکت اپنا معین طول طے کرنے کے بعد جس سطح پر پہنچتی ہے اس کا نام سِر ہے۔ اخفیٰ میں یہ حرکت بے رنگ تھی لیکن جب یہ سِر(عالم مثال) کے اندر قدم رکھتی ہے تو اس میں ایک رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ اخفیٰ کی بے رنگی تمام رنگوں کی اصل تھی۔ اب سِرّ کی یکرنگی اپنے اندر تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ سِرّ کے بعد یہ حرکت ایک طول اور طے کرتی ہے۔ جیسے ہی یہ طول طے ہو چکتا ہے یک رنگی کے اندر جس قدر رنگ تھے سب بکھر جاتے ہیں۔ جن حدود میں یہ رنگ منتشر ہوئے ہیں ان حدود کا ایک رخ قلب یا تصور اور دوسرا رخ نفس یا احساس ہے۔ رنگوں کا یہی مجموعہ مظہر یا جسم ہے، خواہ کسی نوع کا ہو۔ اب تک اس سفر میں لاشعور یعنی زمان سطح پر تھا اور مکان یعنی شعور عمق میں۔ لیکن مظہر کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد زمان عمق میں چلا جاتا ہے اور مکان سطح پر آ گیا تو حرکت صعودی ہو گئی۔ یہ حرکت مظہر(لطیفۂ نفسی) سے روح کی طرف صعود کرتی ہے اور روح سے خفی کی طرف۔ اخفیٰ لوح محفوظ ہے۔ سِرّ عالم مثال ۔لطیفۂ روحی مذہب کی زبان میں اعراف یا برزخ کہلاتا ہے۔ خفی کتاب المرقوم، حشر و نشر کی منزل ہے۔ 

جیسا کہ ہم اوپر تذکرہ کر چکے ہیں انسانی زندگی کے یہ سات قدم ہوئے۔ ساتوں قدم سات عمریں ہیں۔ ان ساتوں عمروں کے دو مجموعی نام ہیں۔

ایک عالم رنگ یا عالم ناسوت یعنی موجودہ دنیا۔ دوسرا حشر و نشر۔

ان دو منزلوں کے درمیان دو مرحلے اور پڑتے ہیں۔ لوح محفوظ اور عالم ناسوت کا درمیانی مرحلہ عالم مثال کہلاتا ہے۔ عالم ناسوت اور حشر و نشر کا درمیانی مرحلہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔ یہ مرحلہ صعودی حرکت میں پیش آتا ہے۔

تشریح:

قلم یعنی علم القلم اور لوح یعنی لوح محفوظ۔

یہ دونوں نقطۂ وحدانی کے دو رخ ہیں جو رخ ذات باری تعالیٰ کی طرف ہے اس کو علم القلم کہتے ہیں۔ یہی رخ تجّلی  ذات بھی کہلاتا ہے۔ اور عام اصطلاح میں ورائے بے رنگ یا ورائے لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ قلم اور لوح کے تئیس شعبے ہیں ہم یہاں قلم (ورائے بے رنگ) کے تئیس شعبوں کاتذکرہ نظر انداز کرتے ہیں۔ صرف لوح (بے رنگ) کے اس شعبہ کا تذکرہ کریں گے جس کا بیان مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ شعبہ لوح یا لاشعور کے اس نقطہ سے متعلق ہے جس کی ایک سطح حافظہ اور دوسری سطح فکر ہے۔ یہ دونوں سطحیں ایک ہی حرکت کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ حافظہ کی سطح اور دوسرا رخ فکر کی سطح۔ حافظہ کی سطح خلائے نور ہے۔ یہ بسیط، عمیق اور محیط ہے۔ فکر کی سطح محض نور ہے جو خلائے نور سے نور کی طرف یعنی لامحدودیت سے محدودیت کی طرف نزول کرتی ہے۔ اس ہی حرکت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کے پہلے جزو میں کیا ہے۔

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

چنانچہ ہر شئے لامحدودیت سے محدودیت میں آ کر اس بات کا تعارف کراتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بے نقص اور غیر محدود ہے اور غیر محدودیت ہی اللہ تعالیٰ کی سبحانیت اور پاکی کا شعبہ ہے۔ اگر غیر متغیر اور متغیر کو الگ الگ سمجھنا چاہیں تو غیر متغیر کا نام لامحدودیت اور تغیر پذیر کا نام محدودیت رکھنا ہو گا۔ جب کسی شئے میں تغیر پیدا ہوتا ہے تو پہلے حدود کا قیام عمل میں آتا ہے یعنی حد بندی کے بغیر کوئی شئے تغیر کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ تغیر حرکت کا دوسرا نام ہے اور کسی شئے میں جب تک حدود کا تعین موجود نہ ہو حرکت واقع نہیں ہو سکتی۔ تغیر سے پاک ہونا ہر قسم کی احتیاج ہر طرح کی پابندی اور ہر تعدد سے آزاد ہونا ہے۔ قرآن پاک میں لامحدودیت کو خالق اور محدودیت کو مخلوق قرار دیا گیا ہے۔

خارج۔ خارجی طور پر کائنات تین دائروں پر مشتمل ہے۔ یہ تین دائرے دراصل کائنات کے تین حصے ہیں۔ 

پہلا دائرہ مادیت کا ہے۔ دوسرا حیوانیت کا اور تیسرا انسانیت کا۔ خارجی عمل جس کو میکانکی عمل کہنا چاہئے، مادیت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس میکانکی عمل کے نتیجے میں جمادات، نباتات بنتے ہیں۔ دوسرے دائرے سے حیوانات اور پھر انسانی تعمیر کے خمیر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ تین معین دائرے خارج یا مظاہر کہلاتے ہیں لیکن تحلیل کی طرزیں ہماری نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور یہ مخفی طرزیں اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت کا ایک جزو ہیں۔

واردات۔یہ منفی تحلیل نقطۂ وحدانی کے ذہن سے عمل میں آتی ہے۔ نقطۂ وحدانی کا ذہن اللہ تعالیٰ کا وہ ارادہ ہے جو  کُن  فرمانے سے ظہور میں آیا۔ یہاں سے یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ لامحدودیت کا ارادہ اخفیٰ کو خفی کی صورت عطا کرتا ہے۔ یا خلائے نور کو نور کی شکل دیتا ہے۔ یہ ارادہ کسی سبب یا وسیلہ کی احتیاج نہیں رکھتا۔ کیونکہ خلائے نور میں وسائل یا اسباب کو کوئی قوام موجود نہیں ہے۔ یہ تبدیلی جس نے خلائے نور کو نور میں تبدیل کیا ہے صرف خالق کے ارادے سے عمل میں آئی ہے۔ اس حقیقت سے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ خلائے نور اور خالق کا ارادہ دونوں ایک ہی حقیقت ہیں اور یہی حقیقت کائنات کی تعمیر کا بسط ہے۔ قرآن پاک میں اس حقیقت کو تدلّٰی کا نام دیا گیا ہے۔

عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿٥﴾ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ﴿٦﴾ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ﴿٧﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾(سورۂ نجم، پارہ ۲۷)

ترجمہ: ان کو تعلیم کرتا ہے جس کو طاقت زبردست ہے۔ اصلی صورت پر نمودار ہوا جب وہ افق پر تھا۔ نزدیک آیا۔ پھر اور نزدیک آیا۔ جھکا، دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم۔

ان آیات میں ان مشاہدات کا ذکر ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خلائے نور سے متصل ہونے میں پیش آئے تھے۔ اس حقیقت کا تعارف معرفت ذات کے اعلیٰ مراتب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مرتبہ میں ذات باری تعالیٰ کے کمالات کا انکشاف ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو تعلیمات براہ راست اللہ تعالیٰ سے حاصل کی تھیں۔ مذکورہ بالا آیات میں ان ہی تعلیمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ خلائے نور ان تجّلی ات کا مجموعہ ہے جو علوم کے حقائق ہیں۔ ان ہی علوم کے حقائق کو علم القلم کہا جاتا ہے۔ یہ لوح محفوظ کے احکامات پر اولیت رکھتے ہیں۔ ان ہی علوم کی ثانویت کا نام لوح محفوظ کے احکام ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ماثورہ دعاؤں میں کہیں کہیں ان علوم کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں سے ایک دعا یہ ہے:

یا اللہ! میں تجھے تیرے ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کیا۔ یا مجھ سے پہلوں پر ظاہر کیا۔ اور میں تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے اپنے علم میں اپنے لئے محفوظ رکھا اور تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جو تو میرے بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔

اس دعا میں خلائے نور یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات و کمالات، شعائر و عادات اور قوانین تجلیات کو اللہ تعالیٰ کے اسماء قرار دیا گیا ہے۔ یہ علم

 اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اور ابداء سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرتبہ کی معرفت بغیر وسائل و اسباب کے تخلیق و تکوین کی صلاحیتیں عطا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر نام میں لاشمار کمالات جمع ہیں۔ کمالات خلائے نور سے صادر ہو کر لوح محفوظ کی زینت بنتے ہیں اور پھر لوح محفوظ سے عالم خلق میں ظاہر ہوتے ہیں۔

ہم نے پچھلے صفحات میں خلائے نور کو ورائے بے رنگ کہا ہے۔ خلائے نور یا ورائے بے رنگ سے نفی یا عدم مراد نہیں ہے بلکہ عدم نور مراد ہے، وہ عدم نور جو قانون نورانیت کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک طرح کا لطیف ترین جلوہ ہے اور اس ہی جلوہ سے نور کی تخلیق ہوئی ہے۔ذات باری تعالیٰ خلائے نور سے ماوراء ہے۔ خلائے نور ورائے بے رنگ ہے اور ذات باری تعالیٰ وراء الوراء بے رنگ ہے۔ ذات باری تعالیٰ کی تشخیص میں فی الحقیقت الفاظ کو دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بیان وہم، تصور، الفاظ ہر طرز فہم سے بالاتر ہے۔ محض فکر وجدان اللہ تعالیٰ کی قربت کو محسوس کر سکتی ہے۔ اور اس ہی فکر وجدانی کی سعی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ تجّلی  ذات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس ہی مقام میں اللہ تعالیٰ سے گفتگو کے مواقع حاصل ہوتے ہیں یہ گفتگو براہ راست ذات سے نہیں بلکہ تجّلی  ذات کی معرفت ہوتی ہے۔


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )