Topics
ازل سے ابد تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سارے کا سارا اجتماعی طور پر لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اگر ہم ازل سے قیامت تک کا تمام پروگرام مطالعہ کرنا چاہیں تو لوح محفوظ میں اس کی تمثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ گویا لوح محفوظ پوری موجودات کا یکجائی پروگرام ہے۔ اگر ہم کسی ایک فرد واحد کی حیات کا پروگرام مطالعہ کرنا چاہیں تو لوح محفوظ کے علاوہ اس کا نقش فرد کے اعیان میں دیکھ سکتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ واجب یا علم قلم ازل سے ابد تک کائنات کے علم غیب کا ریکارڈ ہے۔ کلیات یا لوح محفوظ ازل سے حشر تک کے احکامات کا ریکارڈ ہے۔
’’جُو‘‘ ازل سے ابد تک موجودات کے اعمال کا ریکارڈ ہے لیکن فرد کے ثابتہ میں صرف فرد کے اپنے بارے میں علم الغیب کا اندراج ہے۔ فرد کے اعیان میں صرف اس کے اپنے متعلق احکامات ہیں اور فرد کے جویہ میں صرف اس کے اپنے اعمال کا ریکارڈ ہے۔
تشریح:
علم الٰہی کی تجّلی کا جو عکس انسان کے ثابتہ میں ہے وہ شکل وصورت یعنی تمثلات کی زبان میں منقوش ہوتا ہے۔ یہ تمثلات اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں اور رموز کی تشریح ہوتے ہیں۔ یہ تشریحات لطیفۂ خفی کی روشنیوں میں مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔ اگر لطیفۂ خفی کی روشنیاں استعمال نہ ہوں تو یہ تشریحات نگاہ اور ذہن انسانی پر منکشف نہیں ہو سکتیں۔ تفہیم میں مسلسل بیدار رہنے کی وجہ سے لطیفۂ خفی کی روشنی بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ اس ہی روشنی میں غیب کے تمام نقوش نظر آنے لگتے ہیں کیونکہ یہی روشنیاں لطیفۂ اخفیٰ سے لطیفۂ نفسی تک پھیل جاتی ہیں۔ ہم پیشتر ثابتہ کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ورق اور نقطہ کی وہی حیثیت اعیان اور جویہ کی بھی ہے۔
صاحب اسرار لطیفۂ خفی کی روشنی میں ثابتہ کی تجلیات کو، صاحب تفصیل لطیفۂ روحی کی روشنی میں اعیان کے احکام کو اور صاحب اجمال لطیفۂ نفسی کی روشنی میں جویہ کے اعمال کو پڑھ سکتا ہے۔ جو تعلق لطیفۂ خفی کا اخفیٰ کی تجلیات سے ہے وہی تعلق لطیفۂ روحی کا لطیفۂ سری کے احکامات سے ہے اور وہی تعلق لطیفۂ نفسی کا لطیفۂ قلبی کے اعمال سے ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ لطیفۂ سری میں کسی فرد کے متعلق احکام لوح محفوظ کے تمثلات کی شکل میں محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ احکام لطیفۂ روحی کی روشنی میں مطالعہ کئے جا سکتے ہیں۔ مراقبہ سے لطیفۂ روحی کی روشنیاں اتنی تیز ہو جاتی ہیں کہ ان کے ذریعے لوح محفوظ کے احکامات پڑھے جا سکتے ہیں۔
لطیفۂ قلبی میں انسان کے تمام اعمال کا ریکارڈ رہتا ہے۔ اس ریکارڈ کو لطیفۂ نفسی کی روشنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے لطیفۂ نفسی کی روشنی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ذریعے عالم تمثال یعنی ’’جُو‘‘ کے اندر گزرے ہوئے اور ہونے والے تمام اعمال کی تمثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
تدلّٰی
تدلّٰی اللہ تعالیٰ کی ان مجموعی صفات کا نام ہے جن کا عکس انسان کے ثابتہ کو حاصل ہے۔ قرآن پاک میں جس نیابت کا تذکرہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء کی حیثیت میں جو علم آدم کو تفویض کیا تھا اس کے اوصاف اور اختیار کے شعبے تدلّٰی ہی کی شکل میں وجود رکھتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی نیابت کے اختیارات کو سمجھنا چاہے تو اسے تدلّٰی کے اجزاء کی پوری معلومات فراہم کرنا پڑیں گی۔
پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کا نام ہوتا ہے اور وہ صفت جزوی طور پر اللہ تعالیٰ کے نائب یعنی انسان کو ازل میں حاصل ہوئی تھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے رحیم۔ اس کی صفت ہے تخلیق یعنی پیدا کرنا۔ چنانچہ پیدائش کی جس قدر طرزیں موجودات میں استعمال ہوئی ہیں ان سب کا محرک اور خالق رحیم ہے۔ اگر کوئی شخص رحیم کی جزوی صفت کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کو اسم رحیم کی صفت کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے باطن میں کرنا ہو گا۔ اس کا طریقہ بھی مراقبہ ہے۔ ایک وقت مقرر کر کے سالک کو اپنی فکر کے اندر یہ محسوس کرنا چاہئے کہ اس کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمی کا ایک جزو حاصل ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا تذکرہ کیا ہے، وہاں یہ بتایا ہے کہ میں نے عیسیٰ کو روح پھونکنے کا وصف بخشا ہے۔ یہ وصف میری طرف سے منتقل ہوا اور اس کے نتائج میں نے عطا کئے۔
وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتیٰ بِاِذْنِیْ (سورۂ مائدہ۔ آیت۱۱۰)
ترجمہ:
اور جب تو بناتا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے، پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتا جانور میرے حکم سے، اور چنگا کرتا ماں کے پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو میرے حکم سے، اور جب نکال کھڑے کرتا مردے میرے حکم سے۔
الفاظ کے معانی میں اسم رحیم کی صفت موجود ہے۔
کن فیکون
جب اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی اور لفظ کُن فرمایا، اس وقت اسم رحیم کی قوت تصرف نے حرکت میں آکر کائنات کے تمام اجزاء اور ذرات کو شکل وصورت بخشی۔ جس وقت تک لفظ رحیم اسم اطلاقیہ کی حیثیت میں تھا اس وقت تک اس کی صفت صرف علم کی حیثیت رکھتی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کُن فرمایا تو رحیم اسم اطلاقیہ سے تنزل کر کے اسم عینیہ کی حدوں میں داخل ہو گیا اور رحیم کی صفت علم میں حرکت پیدا ہو گئی جس کے بعد حرکت کی صفت کے تعلق سے لفظ رحیم کا نام اسم عینیہ قرار پایا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے موجودات کو خطاب فرمایا۔
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ
(پہچان لو، میں تمہارا رب ہوں)
روحوں نے جواباً کہا۔۔۔۔۔۔بَلٰی (جی ہاں، ہم نے پہچان لیا)
جب روحوں نے رب ہونے کا اعتراف کر لیا تو اسم رحیم کی حیثیت اسم عینیہ سے تنزل کر کے اسم کونیہ ہو گئی۔
تصوف کی زبان میں اسم اطلاقیہ کی حدود صفت تدلّٰی کہلاتی ہے۔ اسم عینیہ کی صفت ابداء کہلاتی ہے او راسم کونیہ کی صفت خلق کہلاتی ہے۔ اسم کونیہ کی صفت کے مظہر کو تدبیر کہا جاتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عیسیٰ علیہ السلام کے روح پھونکنے کا بیان کیا ہے وہاں اسم رحیم کی ان تینوں صفات کا اشارہ فرمایا ہے اور تیسری صفت کے مظہر کو روح پھونکنے کا نام دیا ہے۔
یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کو ثابتہ کی حیثیت میں اسم رحیم کی صفت تدلّٰی حاصل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اس وصف سے مردوں کو زندہ کرنے یا کسی شئے کو تخلیق کرنے کا کام سر انجام دے سکتا ہے۔
پھر اس ہی اسم رحیم کا تنزل صفت عینیہ کی صورت میں اعیان کے اندر موجود ہے جس کے تصرفات کی صلاحیتیں انسان کو پوری طرح حاصل ہیں۔ اسم رحیم کی صفت کونیہ انسان کے جویہ میں پیوست ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صفت کے استعمال کا حق بھی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی مثال دے کر اس نعمت کی وضاحت کر دی ہے۔ اگر کوئی انسان اس صفت کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہے تو اسے اپنے ثابتہ، اپنے اعیان اور اپنے جویہ میں مراقبہ کے ذریعے اس فکر کو مستحکم کرنا پڑے گا کہ میری ذات اسم رحیم کی صفات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس فکر کی مشق کے دوران میں وہ اس بات کا مشاہدہ کرے گا کہ اس کے ثابتہ، اس کے اعیان اور اس کے جویہ سے اسم رحیم کی صفت روح بن کر اس مردہ میں منتقل ہو رہی ہے جس کو وہ زندہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودات کی جس قدر شکلیں اور صورتیں ہیں وہ سب کی سب اسم رحیم کی صفات کا نوری مجموعہ ہیں۔ یہ مجموعہ انسان کی روح کو حاصل ہے۔ اس شکل میں انسان کی روح ایک حد میں صاحبِ تدلّٰی، ایک حد میں صاحب ِابداء اور ایک حد میں صاحب ِخلق ہے جس وقت وہ فکر کی پوری مشق حاصل کرنے کے بعد اسم رحیم کی اس صفت کو خود سے الگ شکل و صورت دینے کا ارادہ کرے گا تو صفت تدلّٰی کے تحت اس کا یہ اختیار حرکت میں آئے گا۔ صفت ابداء کے تحت ہدایت حرکت میں آئے گی اور صفت خلق کے تحت تکوین حرکت میں آئے گی۔ اور ان تینوں صفات کا مظہر اس ذی روح کی شکل وصورت اختیار کرے گا جس کو وجود میں لانا مقصود ہے۔
ترکیب:
صفت تدلّٰی (اختیار الٰہیہ) (ثابتہ) +صفت ابداء الٰہیہ (عین) (کسی چیز کی کامل شکل وصورت) +صفت خلق الٰہیہ (جویہ) (حرکات و سکنات زندگی)=مظہر (وجودناسوتی)
ہماری دنیا کے مشاہدات یہ ہیں کہ پہلے ہم کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اگر کبھی اتفاقیہ ایسا ہوا ہے کہ ہمیں کسی چیز کے متعلق کوئی معلومات نہیں اور وہ اچانک آنکھوں کے سامنے آ گئی ہے تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں دیکھ سکتے۔
مثال نمبر۱:
لکڑی کے ایک فریم میں ایک تصویر لگا کر بہت شفاف آئینہ تصویر کی سطح پر رکھ دیا جائے اور کسی شخص کو فاصلے پر کھڑا کر کے امتحاناً یہ پوچھا جائے کہ بتاؤ تمہاری آنکھوں کے سامنے کیا ہے تو اس کی نگاہ صرف تصویر کو دیکھے گی۔ شفاف ہونے کی وجہ سے آئینہ کو نہیں دیکھ سکے گی۔ اگر اس شخص کو یہ بتا دیا جائے کہ آئینہ میں تصویر لگی ہوئی ہے تو پہلے اس کی نگاہ آئینہ کو دیکھے گی، پھر تصویر کو دیکھے گی۔ پہلی شکل میں اگرچہ دیکھنے والے کی نگاہ آئینہ میں سے گزر کر تصویر تک پہنچی تھی لیکن اس نے آئینہ کو محسوس نہیں کیا۔ البتہ معلومات ہونے کے بعد دوسری شکل میں کوئی شخص پہلے آئینہ کو دیکھتا ہے اور پھر تصویر کو۔ یہ مثال نگاہ کی ہے۔
مثال نمبر ۲:
ہیروشیما کی ایک پہاڑی جو ایٹم بم سے فنا ہو چکی تھی، لوگوں کو دور سے اپنی شکل وصورت میں نظر آتی تھی لیکن جب اس کو چھو کر دیکھا گیا تو دھوئیں کے اثرات بھی نہیں پائے گئے۔ اس تجربہ سے معلوم ہو گیا کہ صرف دیکھنے والوں کا علم نظر کا کام کر رہا تھا۔
مثال نمبر۳:
عام مشاہدہ ہے کہ گونگے بہرے دیکھ تو سکتے ہیں لیکن نہ بول سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں۔ نہ بولنا اور نہ سننا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا علم صرف نگاہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، یعنی ان کی نگاہ علم کی قائم مقام تو بن جاتی ہے لیکن دیکھی ہوئی چیزوں کی تشریح نہیں کر سکتی۔ ان کی وہ صلاحیتیں جو علم کو سننے اور بولنے کی شکل وصورت دیتی ہیں معدوم ہیں۔ اس لئے ان کا علم صرف نگاہ تک محدود رہتا ہے۔ یہاں سے علم کے بتدریج مختلف شکلیں اختیار کرنے کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو نگاہ صفر کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا علم کو ہر صورت میں اولیت حاصل ہے اور باقی محسوسات کو ثانویت۔
قانون:
ہر احساس خواہ بصر ، سمع ہو یا لمس ہو وہ علم ہی کی ایک شاخ ہے۔ علم ہی اس کی بنیاد ہے۔ علم کے بغیر تمام احساسات نفی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا علم نہیں ہے تو نہ اس چیز کا دیکھنا ممکن ہے نہ سننا ممکن ہے۔ بالفاظ دیگر کسی چیز کا علم ہی اس کا وجود ہے۔ اگر ہمیں کسی چیز کی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں تو ہمارے نزدیک وہ چیز معدوم ہے۔
قاعدہ:
جب علم ہر احساس کی بنیاد ہے تو علم ہی بصر ہے، علم ہی سمع ہے، علم ہی کلام ہے اور علم ہی لمس ہے یعنی کسی انسان کا تمام کردار صرف علم ہے۔
کلیہ:
علم اورصرف علم ہی موجودات ہے۔ علم سے زیادہ موجودات کی کوئی حیثیت نہیں۔
حقیقت:
علم حقیقت ہے اور عدم علم لاموجود ہے۔ اسمائے صفات ہی موجودات ہیں۔ صفت کی پہلی موجودگی کا نام اطلاق، دوسری موجودگی کا نام عین، تیسری موجودگی کا نام کون ہے اور ان تینوں موجودگیوں کا نام مظہر یا وجود ہے۔
تشریح:
علم اطلاق، علم عین اور علم کون کے یکجا ہونے کا نام وجود یا مظہر ہے۔
بصر = اطلاق + عین + کون = علم = وجود
سمع = اطلاق + عین + کون = علم = وجود
کلام = اطلاق + عین + کون = علم = وجود
شامہ = اطلاق + عین + کون = علم = وجود
لمس = اطلاق + عین + کون = علم = وجود
بصر،سمع،کلام،شامہ اور لمس = وجود = علم
اوپر بیان کئے ہوئے حقائق کے تحت وجود صرف اسمائے الٰہیہ کی صفات کا عکس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم کے تین عکس ہیں۔
اطلاق
عین اور
کون۔
ان تینوں عکسوں کا مجموعہ ہی مظہر یا وجود ہے۔ دراصل کسی بھی وجود یا مظہر کی بنیاد اسمائے الٰہیہ کی صفات ہیں اور اسمائے الٰہیہ کے چھ تنزلات سے کائنات عالم وجود میں آئی۔ اسم کا تنزل صفت، صفت کا تنزل علم۔ علم نے جب نزول کیا تو اس کے تین عکس وجود میں آئے۔ اطلاق، عین اور کون۔ ان تینوں عکسوں نے جب تنزل کیا تو مظہر یا وجود بن گیا۔ وجود کی تشریح اوپر گزر چکی ہے اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وجود صرف علم ہے۔ جب صفات کا عکس وجود ہے تو صفات کا عکس ہی علم ہوا۔ کیونکہ اسم صفت ہے، اس لئے اسم کا تعلق براہ راست علم سے ثابت ہو جاتا ہے۔ جب اسم تنزل کرے گا تو علم بن جائے گا اور علم ہی اپنی شکل و صورت میں مظہر کونیہ ہو گا۔ یہ وہی اسماء ہیں جن کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )