Topics

شہود

اگر کسی شخص کو اس حالت کا کمال میسر آ جائے تو پھر وہ ’’عالم امر‘‘ کا نظارہ کرتے وقت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا بلکہ از خوداس کی آنکھوں پر ایسا وزن پڑتا ہے جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتیں اور کھلی رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کے غلاف ان روشنیوں کو جو نقطۂ ذات سے منتشر ہوتی ہیں سنبھال نہیں سکتے اور بے ساختہ حرکت میں آ جاتے ہیں جس سے آنکھوں کے کھلنے اور بند ہونے یعنی پلک جھپکنے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ جب یہ سیر و سیاحت کھلی آنکھوں سے ہونے لگتی ہے تو اس کو ’’فتح‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس اجمال سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جب تک ذات کے شانوں پر صرف دنیا کے تقاضے مسلط رہتے ہیں تو اس کی حرکت دنیاوی افکار و اعمال میں دور کرتی رہتی ہے لیکن جب نقطۂ ذات کے شانے دنیاوی محسوسات کے بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں تو وہ غیبی دنیا کی طرف صعود کر کے وہاں کی طرز حیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ عالمِ روحانی سے روشناس ہوتا ہے۔ اس دنیا کے نظام شمسی اور افلاک کے بہت سے نظاموں کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ فرشتوں سے متعارف ہوتا ہے ان باتوں سے آگاہ ہوتا ہے جو اس کی اپنی حقیقت میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان صلاحیتوں کو پہچانتا ہے جو اس کے اپنے احاطۂ اختیار میں ہیں۔ عالم امر کے حقائق اس پر منکشف ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں اور ان روشنیوں کو سنبھالنے کے لئے کیا کیا انوار استعمال ہوتے ہیں۔ پھر اس کے ادراک پر وہ تجّلی  بھی منکشف ہو جاتی ہے جو روشنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے۔

ایک مبتدی کو سمجھانے کے لئے عالم امر کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ چاندنی رات میں جب کہ چاندنی سے فضا معمور ہے، اس وقت آتش بازی چھوڑی جائے تو آتش بازی کی روشنیوں کو چاندنی محیط ہو گی اور آتش بازی کی روشنیوں میں بہت سے نقش و نگار، پھول پتیاں وغیرہ ابھری ہوئی معلوم ہوں گی۔ آتش بازی کے نقش و نگار روشنیوں پر قائم ہوں گے اور روشنیاں چاندنی پر۔ اگر چاندنی کو تجلیات ذات یا عالم امر خاص فرض کر لیا جائے تو روشنیوں کو عالم امر عام اور صفات کہیں گے۔ اور جو نقش و نگار روشنیوں پر قائم ہیں وہ تنزل کردہ تجّلی  صفات یعنی عالمِ نسمہ قرار پائیں گے۔ ان نقش و نگار کی حدود افراد کائنات کے نام سے پکاری جائیں گی۔ گویا تجّلی  ذات پر تجّلی  صفات اور تجّلی  صفات پر نسمہ قائم ہے۔ اس نسمہ میں جب حرکت ہوتی ہے تو زمان و مکان کی مختلف شکلیں ’’ابعاد‘‘ کے دائرے اور نقوش بناتی ہیں۔ یہ ابعاد کے نقوش (کائنات) یعنی چاند، سورج، ستارے اور تمام دوسری مخلوق پر مشتمل ہیں۔ جب عارف کی سیر شروع ہوتی ہے تو وہ کائنات میں خارجی سمتوں سے داخل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نقطۂ ذات سے (جو مذکورہ بالا تین عالموں کا مجموعہ ہے) داخل ہوتا ہے، اسی نقطے سے وحدت الوجود کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب عارف اپنی نگاہ کو اس نقطہ میں جذب کر دیتا ہے تو ایک روشنی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ وہ اس روشنی کے دروازے سے ایسی شاہراہ میں پہنچ جاتا ہے جس سے اور لاشمار راہیں کائنات کی تمام سمتوں میں کھل جاتی ہیں۔ اب وہ قدم قدم تمام نظام ہائے شمسی اور تمام نظام ہائے فلکی سے روشناس ہوتا ہے۔ لاشمار ستاروں اور سیاروں میں قیام کرتا ہے۔ اسے ہر طرح کی مخلوق کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہر نقش کے ظاہر و باطن سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ وہ رفتہ رفتہ کائنات کی اصلیتوں اور حقیقتوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس پر تخلیق کے راز کھل جاتے ہیں اور اس کے ذہن پر قدرت کے قوانین منکشف ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اپنے نفس کو سمجھتا ہے، پھر روحانیت کی طرزیں اس کی فہم میں سما جاتی ہیں۔ اسے تجّلی  ذات اور صفات کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جان لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب  کُن  ارشاد فرمایا تو کس طرح یہ کائنات ظہور میں آئی اور ظہورات کس طرح وسعت در وسعت مرحلوں اور منزلوں میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ خود کو بھی ان ہی ظہورات کے قافلے کا ایک مسافر دیکھتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذکورہ سیر کی راہیں خارج میں نہیں کھلتیں۔ دل کے مرکز میں جو روشنی ہے اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اس کے نشانات ملتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ دنیا خیالات اور تصورات کی بے حقیقت دنیا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اس دنیا میں وہ تمام اصلیں اور حقیقتیں متشکل اور مجسم طور سے پائی جاتی ہیں جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔

ازروئے حقیقت ہر نقش کے تین وجود ہوتے ہیں:

ایک وجود تجّلی  ذات میں،

دوسرا وجود تجّلی  صفات میں،

تیسرا وجود عالم خلق میں۔



كَلَّا إِنَّ كِتَابَا لْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ ﴿٧﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ﴿٨﴾ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴿٩﴾ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿١١﴾ وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ﴿١٢﴾ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٣﴾ كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّاكَانُوايَكْسِبُونَ ﴿١٤﴾ كَلَّاإِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ﴿١٥﴾ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ ﴿١٦﴾ ثُمَّ يُقَالُ هَـٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿١٧﴾ كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ ﴿١٨﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ ﴿١٩﴾ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴿٢٠﴾يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿٢٢﴾ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ ﴿٢٣﴾  تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَالنَّعِيمِ ﴿٢٤﴾ يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ ﴿٢٥﴾  خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ﴿٢٦﴾ وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِيمٍ ﴿٢٧﴾  عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ ﴿٢٨﴾ إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ﴿٢٩﴾ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ﴿٣٠﴾ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ ﴿٣١﴾ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ﴿٣٢﴾ وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ ﴿٣٣﴾ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ﴿٣٤﴾ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ ﴿٣٥﴾ هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴿٣٦﴾            (پارہ ۳۰، آیت ۷۔۲۸)

ترجمہ: کوئی نہیں، لکھا گنہگاروں کا پہنچنا بندی خانے میں۔ اور تجھ کو کیا خبر ہے کیسا بندی خانہ؟ ایک دفتر ہے لکھا ہوا۔ خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کی، جو جھوٹ جانتے ہیں انصاف کا دن اور اس کا جھٹلانا وہی ہے جو بڑھ چلنے والا گنہگار ہے۔ جب سناتے اس کو آیتیں ہماری، کہتے نقلیں ہیں پہلوں کی۔ کوئی نہیں، پر زنگ پکڑ گیا ہے ان کے دلوں پر، وہ جو کچھ کماتے تھے۔ کوئی نہیں، وہ اپنے رب سے اس دن روکے جاویں گے، پھر مقرر پہنچنے والے ہیں دوزخ میں۔ پھر کہے گا یہ ہے جس کو تم جھوٹ جانتے تھے۔ کوئی نہیں، لکھا نیکوں کا ہے اوپر والوں میں۔ اور تجھ کو کیاخبر ہے کیا ہیں اوپر والے۔ ایک دفتر ہے لکھا، اس کو دیکھتے ہیں نزدیک والے۔ بے شک نیک لوگ ہیں آرام میں۔ تختوں پر بیٹھے دیکھے۔ پہچانے تو ان کے منہ پر تازگی آرام کی۔ ان کو پلائی جاتی ہے شراب مہر میں دھری، جس کو مہر جمتی ہے مُشک پر اور اس پر چاہیں رغبت کریں، رغبت کرنے والے اور اس شراب میں آمیزش تسنیم کی ہو گی، ایک چشمہ جس سے پیتے ہیں نزدیک والے۔ (ترجمہ شاہ عبدالقادر)


اَلَالَہٗ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (پارہ ۸، رکوع ۱۴)

ترجمہ: ہم نے پیدا کیا اور امر کیا۔

مذکورہ بالا آیات کی رو سے یہ تینوں وجود اپنی حرکات و سکنات میں اللہ کی طرف سے حکم کئے جاتے ہیں۔ اور یہ حکم کیا جانا خبر پر مبنی ہوتا ہے۔ ’’ہم نے خلق کیا اور حکم کیا۔‘‘ یہ دو رخوں پر مشتمل ہے۔ ایک رخ اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ کے تحت اور دوسرا رخ حرکت کے تحت، جس کا اصطلاحی نام نسمہ ہے، عمل میں آتا ہے۔اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰت وہ اصل ہے جس پر پہلے ’’حکمِ  کُن ‘‘ کا قیام ہے۔ اس  کُن  کا ظہور ایک ہیولائے نورانی کی صورت میں نازل ہوا۔ گویا یہ تخلیق کا اجمال ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ کے زیر اثر(نسمہ) حرکت کی تفصیل واقع ہوئی۔ ہیولائے نورانی ہر نقش کو محیط ہے اور ہر نقش کے اندر تفصیلی امور کی ایک معین سطح کا وجود ہے جس کو اصطلاح عام میں ماہیت کہا جاتاہے۔ یہ ماہیت ہیولائے نورانی کے اندر پارہ کے تمثلات ہیں۔ خلق کی شرح میں یہ دونوں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اول ہیولےٰ دوئم حرکت کی سطح۔ یعنی پارہ کے تمثلات۔ ہیولائے نورانی نقش ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا اور پارہ کی سطح کے تمثلات حرکت ہیں جو ہرلمحہ متغیر ہیں۔ اس متغیر سطح میں زمانیت، مکانیت اور امور کی تفصیل و تعمیل پائی جاتی ہے۔ اس سطح میں ایک طرح کی جِلا ہے جس میں احکامات کا مسلسل عکس پڑتا رہتا ہے۔ اس ہی عکس کا نام حرکت ہے۔ یہ حرکت وقفہ کے ذریعے نقوش کے متنوع دائرے بناتی ہے۔ ان ہی دائروں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کتاب المرقوم کے نام سے یاد کیا ہے۔ نقوش کے ان دائروں کی تعمیر حرکت کے صعود و نزول سے ہوتی ہے۔ حرکت کی یہ سطح جس کو ذہن کہتے ہیں، ایک طرف نفس یعنی نقطۂ ذات تک صعود کرتی ہے۔ دوسری طرف جِلا کی گہرائی میں پڑنیوالے سائے تک نزول کرتی ہے۔ صعود کی حالت کا نام انسانی اصطلاح میں خواب ہے۔ صعود اور نزول کی دونوں حرکتیں قدرت کے اشاروں سے عمل میں آتی ہیں۔ کائنات کا ہر فرد اس کا پابند ہے۔ چنانچہ کائنات کے تمام نقوش سوتے ہیں اور جاگتے ہیں۔ صعود کی حالت یعنی ربودگی(وجدان) ذات سے قریب کرتی ہے اور نزول کی حالت یعنی بیداری(عقل) ذات سے دور کرتی ہے۔ موجوداتی زندگی کے یہ دو ضروری اجزاء ہیں جن کو اصطلاح میں زندگی کا تعین کہا جاتا ہے۔ کائنات کا ہر نقش اس تعین میں مقید ہے۔ عارفوں کی دنیا میں ربودگی کے اندر سفر کا ذریعہ مراقبہ ہے اور مادہ پرستوں کی دنیا میں بیداری کے اندر سفر کرنے کا ذریعہ ہاتھ پیروں کی جنبش ہے۔ قرآن پاک کا پروگرام ان دونوں اجزاء کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ یہاں قرآن پاک کے پروگرام کی بنیادوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ارشاد فرمایا ہے اَقِیْمُوالصَّلوٰۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃَ (قائم کرو نماز اور ادا کرو زکوٰۃ)۔