Topics
رویت کے حواس کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ وہ فرد کے اندر محدود رہتے ہیں۔ یہ حواس دوسرے افراد کے آثار و احوال معلوم نہیں کر سکتے۔ حواس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں علیین اور سجین دو کرداروں میں بیان فرمایا ہے۔ علیین اعلیٰ کردار ہے اور سجین اسفل۔ حواس میں یہ دونوں کردار ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں۔ عالم ناسوت میں ان کرداروں کا ریکارڈ نگاہوں کے سامنے نہیں رہتا بلکہ حواس کے اندر مخفی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ریکارڈوں کو کتاب المرقوم فرمایا ہے۔ جیسے ہی انسان عالم ناسوت سے منقطع ہوتا ہے، رویت کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی روح کے حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور رویت کے ریکارڈوں میں سے ان تقاضوں کا ریکارڈ مخفی رہتا ہے جن کا ملکہ پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ قیامت کے دن جب کائنات کا پہلا سفر طے ہو جائے گا تو انسان اور جنات جو کائنات کا حاصل سفر ہیں اس لئے جمع کئے جائیں گے کہ کائنات کے دوسرے سفر کا آغاز ہو۔ اس دن ان تقاضوں کا ریکارڈ تلف کر دیا جائے گا جن کا ملکہ پیدا نہیں کیا گیا تھا۔
حواس
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ شعور کا ایک کردار غیر متغیر ہے۔ یہ کردار اپنی حدوں میں ایک ہی طرز پر دیکھتا، سوچتا ، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس کردار میں کسی کائناتی ذرہ یا فرد کے لئے کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ یہ شعور ہر ذرہ میں ایک ہی زاویہ رکھتا ہے۔ اس ہی لامکانی شعور سے دوسرا شعور تخلیق پاتا ہے۔ ہم نے اس کو کسی جگہ حقیقتِ واردہ کا نام دیا ہے۔ اس شعور کی حرکت اگرچہ بہت ٹھوس ہوتی ہے تا ہم اس کا سفر خیال سے کروڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔ لیکن جب یہ شعور ابھر کر تیسرے شعور کی سطح پر وارد ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے۔ یہ رفتار پھر بھی روشنی کی رفتار سے لاکھوں گنی ہے۔ یہ شعور بھی ایک نمایاں سطح کی طرف جدوجہد کرتا ہے اور اس نمایاں سطح میں داخل ہونے کے بعد عالم ناسوت کے عناصر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عناصر کا یہ مجموعہ فرد کا چوتھا شعور ہے جو بالکل سطحی کردار رکھتا ہے۔ اس ہی لئے اس کا ٹھہراؤ اور ٹھوس پن بہت ہی کم وقفہ پر مشتمل ہے۔ یہی شعور باعتبار حواس سب سے زیادہ ناقص ہے۔ اس شعور کے حواس اگرچہ ایسے تقاضوں کا مجموعہ ہیں جو زیادہ سے زیادہ جمال کی طرف میلان رکھتے ہیں مگر جمال کے مدارج سے کامل طور پر آگاہ نہیں۔ اس ہی واسطے ان میں پیہم اور مسلسل خلاء پائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی خلاؤں کو پُر کرنے کے لئے ان حواس میں ایسے تقاضے بھی موجود ہیں جن کو ضمیر کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان ہی خلاؤں کو پُر کرنے کے لئے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ نوع انسانی کی تخلیق کے پیش نظر جمال کا منتہا صرف ایک ہو سکتا ہے اس ہی کو توحید باری تعالیٰ کہا گیا ہے۔ انبیائے کرام پریہ منتہا وحی کے ذریعے منکشف ہوتا ہے۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے توحید کو ہمیشہ اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ چنانچہ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی کر کے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیں اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ توحیدی نقطۂ فکر کے علاوہ نوع انسانی کو ایک ہی طرز فکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ لوگوں نے بزعم خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہو کر رہ گئے ہیں۔ توحید کے علاوہ آج تک جتنے نظامہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام یا تو اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظامہائے فکر یا تو فنا ہو چکے ہیں یا رد و بدل کے ساتھ اور نئے ناموں کا لباس پہن کر فنا کے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ اگرچہ ان کے ماننے والے ہزار کوششیں کر رہے ہیں کہ تمام نوع انسانی کے لئے روشنی بن سکیں۔ لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔
آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہونگی۔ نتیجہ میں نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ تو بجز اس نقطہ کے نوع انسانی کسی ایک مرکز پر کبھی جمع نہیں ہو سکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرز فکر کو سمجھے اور نوع انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں۔ جن کا مخرج توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکے تو وہ اقوامِ عالم کو وظیفۂ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کر سکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ اس معاملہ میں تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی، نوع انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے۔
ہم نے یہ تذکرہ شعور چہارم کے ضمن میں ضروری سمجھ کر کیا ہے۔ دراصل ہمارا مدعا یہ ہے کہ رویت کے حواس وحی کی رہنمائی کے بغیر صحیح قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ہم بقیہ تین شعوروں کو اجمالی طور پر سمجھ لیں تو وحی کی مرکزیت تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب ہم علم نبوت کے اجمال کو معلوم کر لیں گے تو ہماری اپنی فکر علم نبوت کے مقابلے میں تمام قیاسی علوم کو مسترد کرنے پر مجبور ہو گی۔
چار شعور
کسی نہ کسی طرح انسان کو اس نظریہ پر مجتمع ہونا پڑے گا کہ یہ محسوس کائنات ہرگز ہرگز مادی ذرات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ صرف شعور کا ہیولیٰ ہے۔ مذکورہ بالا عبارت میں کائنات کو چار شعوروں کا مرکب بتایا گیا ہے۔ پہلا شعور نورِ مفرد سے تعمیر ہوا ہے، دوسرا شعور نورِ مرکب سے۔ تیسرا شعور نسمۂ مفرد کی ترکیب ہے اور چوتھا شعور نسمۂ مرکب کی۔ ان چاروں شعوروں میں فقط چوتھا شعور عوام سے متعارف ہے۔ عوام صرف اس ہی شعور کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ بقیہ تین شعور عامتہ الناس کے تعارف سے بالاتر ہیں۔ اب تک نفسیات کے ماہرین نے شعور چہارم سے ہٹ کر جس چیز کا سراغ لگایا ہے وہ شعور سوئم ہے جس کو یہ حضرات اپنی اصطلاح میں لاشعور کا نام دیتے ہیں لیکن قرآن پاک شعور اول اور شعور دوئم کا تعارف بھی کراتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں شعوروں کو بھی ہم لاشعورہی شمار کریں گے۔
اس طرح کائنات کی ساخت میں تین لاشعور پائے جاتے ہیں پہلا لاشعور شعور اول، دوسرا لاشعور شعور دوئم، تیسرا لاشعور شعور سوئم ہے۔ ان چاروں شعوروں میں اول شعور لامکان ہے اور باقی تین شعور مکان ہیں۔ اول شعور کو غیر متغیر ہونے کی وجہ سے ’لامکان‘ کہا گیا ہے۔
پہلے کائنات کے اندر موجود کسی چیز کی محوری گردش کو سمجھنا ہے اور پھر طولانی گردش کو۔
مثال:
ہم اپنی آنکھوں کے سامنے شیشہ کا ایک گلاس رکھ کر غور کریں تو گلاس کی محوری گردش کا تجزیہ حسب ذیل الفاظ میں کر سکتے ہیں۔
جب گلاس پر ہماری نگاہ پڑتی ہے تو نزول اور صعود کے چھ دائرے طے کر جاتی ہے۔ ہمارے حواس کے اندر پہلے گلاس واہمہ کی صورت میں داخل ہوتا ہے۔ پھر یہ ہی واہمہ گلاس کا خیال بن جاتا ہے۔ بعدہٗ یہی خیال تصور کی شکل اختیار کر کے احساس کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ پھر فوراً ہی احساس تصور میں، تصور خیال میں اور خیال واہمہ کے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں واقع ہوتا ہے اور بار بار دور کرتا رہتا ہے۔ اس دور کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو اپنی آنکھوں کے سامنے ساکت محسوس کرتے ہیں۔
واہمہ سے شروع ہو کر خیال، تصور، احساس۔۔۔ پھر تصور اور خیال تک نزول اور صعود کے چھ قدم ہوتے ہیں۔ ان ہی چھ مسافتوں کو لطائف سِتّہ کہا جاتا ہے لیکن واہمہ سے احساس تک بُعد صرف چار ہوتے ہیں۔ ان چار بُعد یا چار شعوروں میں ایک شعور ہے اور تین لاشعور ہیں۔ سب سے اول ہمیں واہمہ سے رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے، پھر خیال اور تصور سے۔ البتہ یہ تینوں حالتیں ہمارے شعور سے بالاتر ہیں۔ فقط چوتھی حالت جس کو رویت کہا جاتا ہے، ہم سے متعارف ہے۔
رویت کا شعور باقی تین لاشعور کا مجموعہ ہے۔ ہم اول ورائے کائناتی شعور سے جوغیر متغیر ہے اپنی حیات کی ابتداء کرتے ہیں۔ یعنی صفات الٰہیہ میں ایک فوارہ پھوٹتا ہے اور وہ فوارہ تیسرے قدم پر فرد بن جاتا ہے۔ پہلے قدم پر فوارہ کا ہیولیٰ کائنات کی شکل میں ہوتا ہے، دوسرے قدم پر وہ کائنات کی کسی ایک نوع کا ہیولیٰ بنتا ہے اور تیسرے قدم پر وہ فرد بن کر رونما ہو جاتا ہے۔
فرد کی حالت میں لاشمار رنگوں کا ایک فوارہ وجود میں آتا ہے۔ ان لاشمار رنگوں کی ترتیب کو احساس میں قائم رکھنا تقریباً محال ہے۔ اس ہی لئے شعور چہارم کے حواس کبھی بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ اس ترتیب کو اکثر قیاس کے ذریعے قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ کوشش قریب قریب ناکام رہتی ہے۔ اس ہی واسطے روحانی علوم میں شعور چہارم پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ شعور سوئم میں کائنات کے ہر ذرہ کا ربط فرد کے ذہن سے منسلک ہوتا ہے۔ کائنات میں جو کچھ تغیرات ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں وہ فرد کے شعور دوئم میں مجتمع ہوتے ہیں۔ شعور دوئم کا ہیولیٰ ازل سے ابد تک کی کُل کائناتی فعالیت کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس شعور میں وہ تمام اجزاء پائے جاتے ہیں جو کُل موجودات کی اصل ہیں۔ روحانیت میں سب سے اہم ذریعۂ اعتماد شعور اول ہے کیونکہ شعور اول میں مشیت الٰہی بے نقاب ہوتی ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں حقیقت الحقائق اس ہی شعور کا نام ہے۔ اس ہی کو حقیقت محمدیہ کہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پیشتر کسی نبی نے اس شعور کے بارے میں تبصرہ نہیں کیا۔ درسِ عیسوی کی ابتدائیں بھی شعور دوئم سے ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے اس شعور کی تحقیق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے۔ اس ہی باعث قرآنی متصوّفین اس کو حقیقت محمدیہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
انبیائے مرسلین کی وحی کا منتہا شعور دوئم اور انبیاء کی وحی کا منتہا شعور سوئم ہے۔ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہ نبی مرسل ہیں جن کی وحی کا منتہا شعور اول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کرتا تو کائنات کو نہ بناتا۔‘‘ اس ہی وجہ سے قرآن پاک میں شعور اول کو علم القلم کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دعائے ماثورہ میں فرمایا ہے:
اسئلک بکل اشھر ھولک سمیت بہ نفسک اوانزلتہ فی کتابک اوعلمتہ احداً من خلقک اواستاقدت بہ فی علم الغیب عندک۔
ترجمہ: میں تیری جناب میں ہر ایک ایسے اسم کا واسطہ لاتا ہوں جو تیرے اسم مقدس ہیں اور اس کو تو نے اپنے لئے مقرر فرمایا ہے یا اس کو تو نے اپنی کتاب مجید میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق سے کسی کو اس کا علم دیا یا اپنے علم میں اس کا جاننا اپنے لئے مخصوص فرمایا۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )