Topics
زمان اور مکان کو سمجھنے کے لئے کُن کی تشریح ضروری ہے۔ جب ہم لفظ قرآن کہتے ہیں تو ہماری مراد اس سے وہ افہام و تفہیم ہوتی ہے جو قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئیں۔ ہماری مراد ق ر پیش قُر، زبر آ، ان ساکن قُرآن(لفظ) ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر بات کے لئے ایک اسم(نام) یا علامت جسے جسم کہنا چاہئے، ہوتا ہے لیکن کوئی علامت یا جسم اس شئے کی زندگی یا روح نہیں ہوتی۔ علامت یا جسم مفروضہ ہے، اس کے اندر بسنے والی روح یا زندگی حقیقت ہے۔ سننے والا لفظ کو سنتا اور حقیقت کو سمجھتا ہے۔ جب ہم قلم کہتے ہیں تو سننے والا ق ل م نہیں سمجھتا بلکہ اس کے ذہن میں ایک ایسی چیز آتی ہے جو لکھنے کا کام کرتی ہے۔ ساخت کا قانون یہاں سے واضح ہو جاتا ہے۔ اگر ہم کسی شئے کو اس شئے کی زندگی یا حرکت کہیں تو اس شئے کی حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ اب ہم موجودات کے اندر جس قدر نوعیں ہیں اور ان نوعوں میں جس قدر افراد ہیں ان میں سے ہرفرد کا نام ذرہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ ذرہ دراصل حرکت ہے جس کے دو رخ ہیں۔ حرکت کا ایک رخ رنگین روشنی ہے جس کو اس ذرہ کا مظہر یا جسم کہا جاتا ہے۔ حرکت کا دوسرا رخ بے رنگ روشنی ہے جس کو زندگی، فطرت، کردار یا حقیقت کہا جاتا ہے۔ حقیقت یا بے رنگ روشنی یا حرکت(نسمہ) کا ایک رخ زمان کہلاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک حدیث شریف ہے۔
لَاتَبسُوْءُ الدَّھْر اِنّ الدَّھْر ھُوَ اللّٰہ
ترجمہ: زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔
حرکت کے اس رخ میں کوئی تغیر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی رو سے حرکت(نسمہ) کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ جیسا کہ قانون ہے، اوصاف کی بنا پر ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ حرکت کے جس رخ میں تغیر ہوتا ہے اس کو مکان کہتے ہیں۔ اور جس (متضاد) رخ میں تغیر نہیں ہوتا اس کو زمان کہتے ہیں۔ وہ تمام صفات جو کسی ہستی، کردار یا زندگی کی اصلیں ہیں ان کا قیام زمان کے اندر ہے۔ ان اصلوں میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا مستقر یا مرکز زمان ہے جو غیر متغیر ہے۔ حرکت کا وہ رخ جو زمان کے برعکس ہے مکان کہلاتا ہے۔ ہر قسم کا تغیر اس ہی رخ میں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد
ان الفاظ میں زمان کی وضاحت کی گئی ہے۔ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام اور ارشاد عبث نہیں ہوتا۔ اس بات کی تصدیق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مذکورہ بالا حدیث سے ہوتی ہے، زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دوسری حدیث میں بھی اس معنی کی تشریح کرتی ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
نفس اس حقیقت کا نام ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔
زمان کو سمجھ لینے کے بعد خالقیت اور مخلوقیت کی قدریں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدُٗoاَللّٰہُ الصَّمَدُoلَمْ یَلِدْoوَلَمْ یُوْلَدoوَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُواً اَحَدُٗo
ترجمہ: اللہ لاثانی ہے۔ اللہ لا احتیاج ہے۔ اللہ لا اولاد ہے۔ اللہ لاوالدین ہے۔ اللہ لا کفو ہے۔
یہ سب خالقیت کی قدریں ہیں۔
ثانی ہونا، ذی احتیاج ہونا، ذی اولاد ہونا، ذی والدین ہونا، ذی خاندان ہونا، مخلوقیت کی قدریں ہیں۔ یہ قدریں مکان یعنی مظہر(Space) پر مشتمل ہیں۔ لیکن خالقیت کی قدریں ان قدروں کے برعکس ہیں۔ مخلوقیت کی قدروں میں ابتدا، انتہا، اشتباہ، عکس رنگ(روشنی) کی درجہ بندی اور ہر قسم کا تغیر ہوتا ہے اور مختلف نوعوں میں مختلف شکل و صورت، مختلف آثار و احوال پائے جاتے ہیں۔
زمان اور مکان کی بہت واضح مثال راستہ اور مسافر سے دی جا سکتی ہے۔ راستہ زمان ہے اور مسافر مکان۔ اگرچہ مسافر کا انہماک خود میں یعنی اپنے آثار و احوال میں ہوتا ہے تا ہم مسافر بغیر راستہ کے اپنی ہستی قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ راستہ سے کتنا ہی غافل رہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ راستہ سے لاتعلق ہو جائے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مسافر میں اور راستہ میں کمترین اور نازک ترین فصل بھی نہیں ہو سکتا۔ مسافر راستہ ہی کی تخلیق ہے۔ مسافر کی تمام حرکات و سکنات، سارا کردار، زندگی کی طرزیں اور فکریں راستہ کے حدود سے باہر نہیں جا سکتیں۔ وہ راستہ کی قدروں اور راستہ کے اصولوں کا پابند ہے۔ انسانی زندگی میں راستہ لاشعور ہے اور مسافر شعور ہے۔ ہم شعور سے لاشعور کو پہچان سکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا انہماک شعور میں زیادہ سے زیادہ ہے تو اس کی توجہ لاشعور میں کم سے کم ہے جس سے زندگی کے عمل اور اقدار کم رہ جاتی ہیں۔ شعور کا زیادہ سے زیادہ ہونا شعور کے زیادہ سے زیادہ حرکت میں رہنے کی دلیل ہے۔ اس لئے عمل کی مقدار کم سے کم رہ جاتی ہے جب انسان پیہم فکر کرتا ہے تو لاشعور کے حرکت میں آنے کا وقفہ کم سے کم رہ جاتا ہے اور صرف یہی وقفہ عمل کا وقفہ ہے کیونکہ سوچ بچار سے آزاد ہے۔
قانون یہ ہوا کہ جتنا زیادہ سے زیادہ وقت لاشعور کو دیا جائے گا، زندگی اتنے ہی عمل کے راستے طے کرے گی۔ دراصل لاشعور ہی نسمہ کی حرکت کا وہ رخ ہے جو زندگی کی مکانیتوں یعنی زندگی کے اعمال کی تعمیر کرتا ہے۔ ہم پھر ایک بار تشریح کر دینا چاہتے ہیں کہ نقطۂ وحدانی کے دو رخ ہیں۔ ایک عالم نور جو اصل زمان ہے، دوسرا عالم امر جو اصل مکان ہے۔
عالم امر یا اصل مکان میں زمان غالب اور مکان مغلوب ہے۔ عالم مکان یا خلق میں مکان غالب اور زمان مغلوب ہے۔ زمان اصل امکان میں بھی بساط (Base Line) اور مکان میں بھی۔ اصل مکان نسمۂ مفرد ہے اور مکان نسمۂ مرکب۔ نسمۂ مفرد کی عام تعمیر عالم امر کہلاتی ہے اور نسمۂ مرکب کی تمام تعمیر عالم خلق کہلاتی ہے۔ ان دونوں عالموں کے درمیان عالم مثال پردہ (برزخ) ہے۔ انسان عالم امر میں پانچ قدم اٹھاتا ہے، پھر عالم خلق میں دو قدم۔۔۔۔۔۔پانچ قدم اخفیٰ، خفی، سِر، روح اور قلب ہیں۔ اور دو قدم احساس(نفس) اور قالب ہیں۔ یعنی پانچ قدم عالم امر کے ہیں اور دو قدم عالم خلق کے۔
اخفیٰ اور خفی کی حرکت لاشعور میں رہتی ہے۔ یہ حرکتِ اُولیٰ ہے۔ سِر، روح اور قلب کی حرکات قالبِ انسانی میں وہم، خیال اور تصور کی نوعیت رکھتی ہیں۔ یہ حرکت ثانی ہے۔ نفس اور جسم کی حرکات قالبِ انسانی میں احساس اور عمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ حرکت آخر ہے۔ اخفیٰ بے رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ خفی بے رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے۔ سِریک رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ روح یک رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے اور قلب کل رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ نفس کل رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے۔ قالب ان حرکات کا مظاہرہ ہے۔
عالم امر کی تمام حرکات مفرد ہیں۔ دو حرکات ایسی ہیں جن میں کوئی رنگ نہیں جو لانفی کا بسط ہیں۔
نمبر۱۔ لاگریز اخفیٰ عالم امر خاص۔
نمبر۲۔ لاکشش خفی عالم امر عام۔
اخفیٰ سے کشف ہوتا ہے لاگریز کا۔ اور خفی سے کشف ہوتا ہے لاکشش کا۔ یہ دونوں لطائف موجودات کی اصلوں کے بسائط(Basid Points) ہیں۔ اخفیٰ کسی نوع کی وہ اصل ہے جس میں نوع کا ایک ہیولیٰ تمام افراد نوع کو محیط ہوتا ہے۔ اس کی مثال کائناتی شئے سے دی جا سکتی ہے مثلاً کسی درخت کا جو بیج سب سے پہلے اُگا تھا اس بیج کے اندر کائنات کی عمر تک پیدا ہونے والے تمام درخت موجود تھے۔ وہی ایک بیج اپنی تمام نوع کا ہیولیٰ بنا۔ اس بیج کے ہیولیٰ میں ایسی حرکت پائی جاتی ہے جو اپنے آغاز(مبتداء) سے انجام(مظہر) کی طرف گریز کرنے والی ہے۔ نوعی ہیولیٰ کی حرکت کا یہ پہلا قدم ہے۔ دوسرا قدم خفی ہے جو اپنے مظہر سے مبتداء کی طرف کھینچتا ہے۔ لا میں عالم امر کے دو ابتدائی بساط پائے جاتے ہیں۔ یہ کُن کے دو ابتدائی قدم ہوئے۔ لام(ل) بسط ہے گریز کا اور الف(ا) بسط ہے کشش کا۔ یہ دونوں بسائط اخفیٰ اور خفی حیات کی اصل(لاشعور) ہیں۔ اگر ان دونوں بسائط کے مجموعہ کو نگاہ کا نام دیں تو اس نگاہ کو سطح اور عمق دونوں رخوں پر تقسیم کریں گے۔ دونوں رخوں میں اخفیٰ عمق اور خفی سطح۔ اخفیٰ کی نگاہ ہمیشہ پردے کے پیچھے دیکھتی ہے اور خفی کی نگاہ ہمیشہ پردے کے اوپر دیکھتی ہے۔ اخفیٰ کی نگاہ پردے سے گزر جاتی ہے کیونکہ پردہ کشش ہے اور اخفیٰ گریز۔ لیکن خفی کی نگاہ کشش ہے۔ اس ہی لئے پردے پر رک جاتی ہے، گزر نہیں سکتی۔
سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١﴾ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴿٢﴾ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴿٣﴾هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿٤﴾ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ﴿٥﴾(سورہ حدید، آیات ۱۔۵)
ترجمہ: اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی، وہی حیات دیتا ہے وہی موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی پہلے وہی پیچھے اور وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ہے اور ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ وہ ایسا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا، پھر تخت پر قائم ہوا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو چیز اس نکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیزاس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے خواہ تم لوگ کہیں بھی ہو اور تمہارے سب اعمال کو بھی دیکھتا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف سب امور لوٹ جائیں گے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )