Topics
جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو طبی سائنس کی تحقیق کے مطابق اس چیز سے خارج ہونے والی روشنیاں آنکھوں کے ذریعہ دماغ کے معلوماتی ذخیرہ تک پہنچتی ہیں۔ ہم اس عمل کو دیکھنا کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہمارا علم داخلی ہے۔ اس داخلی علم کے کئی اجزاء ہیں جسے باصرہ یا باصرہ کے علاوہ دیگر حسوں کا نام دیا جاتا ہے اور یہی حسیں مشاہدہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ مشاہدات فکر سے شروع ہو کر دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے پر مکمل ہوتے ہیں۔ مشاہدات میں کسی جسمانی حرکت کو دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف انا کی تحریکات ہیں۔ مشاہدات میں مادی اعضاء معطل رہتے ہیں۔ فی الواقع زندگی ’’انا‘‘ کی تحریکات کا نام ہے۔ ’’انا‘‘ کے ہی جسم کو ’’روح مثالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی جسم خواب میں چلتا پھرتا او رسارے کام کرتا ہے۔ یہ ’’جسم انا‘‘ خاکی جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے اور بغیر خاکی جسم کے بھی۔
اعمال کی دو قسمیں ہیں:
ایک قسم ان اعمال کی جو بغیر خاکی جسم کے انجام پاتے ہیں جیسے خواب کے اعمال۔ دوسری قسم کے اعمال وہ ہیں جو ہم بیداری میں خاکی جسم کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ ان اعمال کی ابتدا بھی ذہنی تحریکات سے ہوتی ہے۔ بغیر ذہن کی رہنمائی کے خاکی جسم ہلکی سے ہلکی جنبش نہیں کر سکتا۔ گویا داخلی تحریکات ہی زندگی کے اصل اعمال ہیں۔
اب ہم ’’انا‘‘ کی فاعلیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔
زید نے محمود کو دیکھا۔ زید ایک ’’انا‘‘ ہے۔ وہ صرف اپنی انا کی حد میں دیکھ سکتا ہے۔ وہ اپنی انا کی حد سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ گویا اس نے محمود کو اپنی حد وجود میں دیکھا ہے۔ مشاہدات کی زبان میں یوں کہا جائے گا کہ زید کی انا نے خود کو محمود بن کر دیکھا ہے کیونکہ زید محمود کی حد میں اور محمود زید کی حد میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اگر زید محمود کی حد میں قدم رکھ سکتا تو اس کا نام زید نہیں رہتا بلکہ محمود بن جاتا اور اس کی اپنی انا تلف ہو جاتی۔ دیکھنے کا عمل جن حدود میں واقع ہوا وہ حدیں فقط زید کی انا سے وابستہ ہیں۔ دراصل ہر انا میں کائنات کی تمام انائیں موجو دہیں اور ہر انا ایک جداگانہ فرد کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
انا کی تحلیل
خاکی دنیا کے ساتھ ایک دوسری دنیا بھی آباد ہے۔ یہ دوسری دنیا مذہب کی زبان میں ’’اعراف‘‘ یا ’’برزخ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس دنیا میں زندگی بھر انسان کا آنا جانا ہوتا رہتا ہے۔ اس آنے جانے کے بارے میں بہت سی حقیقتیں انسان کی نگاہ سے چھپی ہوئی ہیں لیکن یہ آمد و رفت غفلت کی حالت میں واقع ہوتی ہے جب انسان سو جاتا ہے تو خاکی دنیا ملکوتی دنیا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ چلتی پھرتی، کھاتی پیتی اور وہ سارے کام کرتی ہے جو بیداری کی حالت میں کر سکتی ہے۔ انسانوں نے اس کا نام خواب رکھا ہے لیکن کبھی اس حقیقت پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ خواب بھی زندگی کا ایک جزو ہے۔
اس مقام پر کائنات کی ساخت کا مجمل تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ عام اصطلاح میں جس کو جمادات کہا جاتا ہے وہ حیات کا ابتدائی ہیولیٰ ہے۔
کائنات کی ساخت
کائنات کی ساخت میں نسمہ(نظر نہ آنے والی روشنی) ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ احاطہ کرنے سے مراد ہر مثبت اور منفی زندگی کی بساط میں نسمہ کا محیط ہونا ہے۔ گویا ہر چیز کے کم ترین اور لانشان جزو ’’لاتجزاء‘‘ کی بنیاد دو قسموں پر ہے۔ ایک اس کی منفیت اور دوسری اس کی اثباتیت۔ ان ہی دونوں صلاحیتوں کی یکجائی کا نام نسمہ ہے۔
ہم عام گفتگو میں لفظ پیاس استعمال کرتے ہیں لیکن اس لفظ کے جو معنی سمجھتے ہیں وہ غیر حقیقی ہیں۔ اصل میں پیاس اور پانی دونوں مل کر ایک وجود بناتے ہیں۔ منفیت پیاس، اثباتیت پانی۔ واضح طور پر اس طرح کہنا چاہئے کہ پیاس روح ہے اور پانی جسم۔ پیاس ایک رخ ہے اور پانی دوسرا رخ۔ اگرچہ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے متضاد ہیں تا ہم ایک ہی وجود کے دو اجزاء ہیں۔ پیاس سے پانی کو اور پانی سے پیاس کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک دنیا میں پیاس موجود ہے پانی موجود ہے۔ یعنی پیاس کا ہونا پانی کے وجود کی روشن دلیل ہے۔ اسی طرح پانی کا ہونا پیاس کے وجود کی روشن دلیل ہے۔ روحانیات میں یہ دونوں مل کر ایک وجود ہیں لیکن ان کی پیوستگی ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح نہیں ہے جس طرح ایک ورق کے دو صفحات کی۔ ایک ورق کے دو صفحات ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہو سکتے لیکن پیاس اور پانی کا وجود ایک ایسا ورق ہے جس میں صرف مکانی فاصلہ ہے، زمانی فاصلہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف کاغذ کے ورق میں صرف زمانی فاصلہ ہے، مکانی فاصلہ نہیں ہے۔ اشیاء کی ساخت میں اللہ تعالیٰ نے دو رخ رکھے ہیں۔ کسی شئے کے دو رخوں میں یا تو مکانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے یا زمانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے۔ ایک آدمی کرۂ ارضی پر پیدا ہوتا ہے اور رحلت کرتا ہے۔ ان دونوں رخوں کے درمیان زمانی فاصلہ ہے۔ اس زمانی فاصلہ کے نقش و نگار اس کی زندگی ہیں، جو حقیقتاً مکانیت ہے۔
ظاہر و باطن
اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کی حیات کا زمانی رخ باطن اور مکانی رخ ظاہر ہے۔ ہم جس چیز کو ظاہر کہتے ہیں اس کے تمام نقش و نگار ’’مکانیت زندگی‘‘ پر مشتمل ہیں لیکن یہ جس بساط پر قائم ہیں وہ زمانیت ہے۔ بغیر زمانیت کی بساط کے کائنات کا کوئی نقش ظہور میں نہیں آ سکتا۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ ان تمام مظاہر کی بساط زمانیت ہے جس کو ہم مادی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام مظاہر کی بنیادیں ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں۔ تصوف میں زمانیت کا دوسرا نام نسمہ ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جس کو خلا کہہ سکتے ہیں۔ اور خلا ایک وجود رکھتا ہے۔ دراصل یہ ایک حرکت ہے جو ازل سے ابد کی طرف حرکت کر رہی ہے۔ اس سفر کے پہلے دائرۂ روانی کا نام ’’عالم ملکوت‘‘ ہے جس کو منفی عنصریت کا عالم کہہ سکتے ہیں۔ ہم پہلے نسمۂ مفرد اور نسمۂ مرکب کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
زمانیت کی ترکیب نسمۂ مفرد سے ہوتی ہے اور مکانیت کی ترکیب نسمۂ مرکب سے۔ فرشتے، جنات اور ان کے عالم وہ نقش و نگار ہیں جو زمانیت کی ترکیب پر مشتمل ہیں لیکن عالمِ مادی اور اس کے مظاہر مکانیت کی ترکیب کا نتیجہ ہیں۔ خلا کی اکہری حرکت کا نام زمان یا نسمہ مفرد ہے اور فاصلہ کی دوہری حرکت کا نام ’’مکان‘‘ یا نسمۂ مرکب ہے۔ اول اول تو خلا میں جو لا محسوس حرکت واقع ہوتی ہے وہی ’’موالید ثلاثہ‘‘ کی اصل ہے۔ اس حرکت میں جس قدر تیزئ رفتار پیدا ہوتی ہے اس ہی قدر نسمہ کا ہجوم بڑھ جاتا ہے ۔ یہ ہجوم دو مراتب پر منقسم ہے۔ ایک مرتبہ ’’عین‘‘ دوسرا ’’مکان‘‘۔ عین کوماہیت اور مکان کو مظہر کہہ سکتے ہیں۔ عین گریز(منفی) ہے۔ مکان کشش مثبت ہے۔ جب دونوں کی اجتماعیت میں کشش کا غلبہ ہوتا ہے تو ’’عالم ناسوت‘‘ (مادی دنیا) کی شکلیں وقوع میں آتی ہیں۔ ان کو مادی جسم کہا جاتا ہے۔ لیکن جب گریز کا غلبہ ہوتا ہے تو ملکوتی شکلیں وجود میں آتی ہیں۔ ملکوتی مخلوق کے دو مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ میں عین کی صفات کا ہجوم امکان کی صفات کے ہجوم پر غالب رہتا ہے۔ اس مرتبہ کی مخلوق کا نام ملائکہ ہے۔ دوسرے مرتبہ میں امکان کی صفات کا ہجوم عین کی صفات کے ہجوم پر غالب آ جاتا ہے۔ اس مرتبہ کی مخلوق کا نام جنات ہے۔ نسمہ جن دو رخوں پر مشتمل ہے، ان میں ایک رخ گریز ہے۔ گریز کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی ذات جو روشنیوں کا مجموعہ ہے، اس کے اندر دو حرکات مسلسل واقع ہوتی رہتی ہیں۔ ایک حرکت ذات کے انوار کا خارج کی طرف متواتر سفر کرتے رہنا۔ دوسری حرکت خارج سے نہروں کی روشنیاں برابر اپنے اندر جذب کرتے رہنا ہے۔ گویا نسمہ کی دوصفات ہیں۔ ایک ملکوتی، دوسری بشری۔ ان دونوں صفات میں ہر صفت ایک اصول کی پابند ہے۔ کوئی فرد خارجی دنیا میں جتنا مستغرق ہوتا ہے اس کے نقطۂ ذات کی روشنیاں اتنی ہی ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ روشنیوں کے گریز کا پہلو ہے۔ یہ وہی روشنیاں ہیں جن کی صفت ’’ملکیت‘‘ ہے۔ ان روشنیوں کے ضائع ہونے سے ملکیت کی صفت بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ نقطۂ ذات میں روشنیوں کی ایک معین مقدار ہوتی ہے جو ملکیت اور بشریت کا توازن قائم رکھتی ہے۔ اگر اس روشنی کی مقدار کم ہو جائے گی تو حیوانی اور مادی تقاضے بڑھ جائیں گے۔ ملکیت کی صفت عالم امر میں صعود کرتی ہے، اس لئے کہ اس صفت کا مرکز ’’عالم امر‘‘ ہے۔ اس کے برعکس جب ملکیت کی صفت کم ہو جاتی ہے تو مادی تقاضے فرد کو اسفل میں کھینچ لاتے ہیں۔ وہ جتنا اسفل کی طرف بڑھتا ہے اتنا ہی کثافتوں اور ثقل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس کی توجہ ’’عالم امر‘‘ سے ہٹ کر اسفل میں مقید ہو جاتی ہے۔
عالم امر
حم ﴿١﴾ وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿٥﴾ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦﴾ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ ﴿٧﴾(سورۂ دخان)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے۔(سورۂ دخان، رکوع پہلا)حکمت والے معاملے سے مراد نوع انسانی کی فکری وسعتیں اور ان کا عمل ہے۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہر قسم کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ جو طرزیں عالم ظاہر کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین ہوتی ہیں وہ عالم امر یا عالم مثال میں اصل نقش و نگار کی صورت رکھتی ہیں اور ایک ترتیب کے ساتھ عالم خلق یا عالم ظاہر میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اگرچہ عالم امر عالم خلق کو محیط ہے مگر اس عالم کو خارج میں دیکھنے والی نگاہ نہیں دیکھ سکتی۔ البتہ نگاہ کے اس رخ سے دیکھا جا سکتا ہے جو داخل میں دیکھتا ہے۔
جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی شئے ہمارے اور اس چیز کے درمیان مشترک ہوتی ہے۔ یہی مشترک شئے دیکھنے کا ذریعہ ہے اور کائنات کی دیگر اشیاء سے ہمارے اتصال کا باعث ہے۔ مثلاً سورج ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ہمارے اور سورج کے درمیان سورج کے نقطۂ ذات اور ہمارے نقطۂ ذات کے علاوہ کوئی تیسری شئے موجود ہے۔ یہ شئے اتنی سریع السیر ہے کہ ہمارے نقطۂ ذات اور سورج کے نقطۂ ذات کے درمیانی فاصلے کو ہر آن ہم رشتہ رکھتی ہے۔ اس ہی کے ذریعہ ہماری ہستی سورج کی ہستی سے ابتدائے آفرینش سے متعارف ہے۔ ہزاروں سال پہلے کی دنیا بھی سورج سے اس ہی طرح متعارف تھی جس طرح آج کی دنیا متعارف ہے۔ تعارف کی طرز میں رد و بدل ہونا تعارف کے اصل نقوش پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ اگر ان نقوش کے ذریعہ تعارف کی تلاش کی جائے تو صفاتِ تعارف کا سمجھ لینا ممکن ہو سکتا ہے۔
تعارف کی ایک صفت یہ ہے کہ اب سے ہزاروں سال پیش تر کا انسان سورج کو جس شکل میں دیکھتا تھا، موجودہ دور کا انسان بھی اس ہی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تعارف کی روشنی ازل سے ایک ہی طرز پر قائم ہے۔ تمام افراد کا نقطۂ ذات الگ الگ ہے اور ایک دوسرے سے روشناس ہے۔ یہ روشناسی اس روشنی کے ذریعہ قائم ہے جو نگاہ کی ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی بلکہ داخلی رخ سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس روشنی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم نگاہ کے ظاہری رخ سے دیکھی جا سکتی ہے اور دوسری نگاہ کے داخلی رخ سے۔ جو قسم نگاہ کے داخلی رخ سے دیکھی جا سکتی ہے وہ ازل سے یکساں حالت پر قائم ہے۔ اس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا اور اس غیر متغیر روشنی میں کسی قسم کے نقش و نگار نہیں ہوتے۔ وہ کائنات کا ’’عین‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہی عین مظاہرے کے نقش و نگار کی اصل ہیں۔ اس ہی عین کی حرکت مراتب میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ان دونوں مراتب کو گریز اور کشش کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
روشنی کی ایک اصل جو غیر متغیر ہے ’’صادرالعین‘‘ کہلاتی ہے لیکن دوسری جو تغیر پذیر ہے ’’عین‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ دونوں اصلیں عالم امر میں ’’صادر العین‘‘ اور ’’عین‘‘ کے بعد امکان کی حد میں شروع ہوتی ہیں۔ ان حدوں کا پہلا مرحلہ ’’مثالیت‘‘ اور دوسرا مرحلہ’’عنصریت‘‘ ہے۔ مثالیت روشنی کا وہ ہیولیٰ ہے جس کو دوسرے الفاظ میں روشنی کا جسم کہتے ہیں۔ داخلی نگاہ اس کو دیکھ سکتی ہے اور ادراک اس کو محسوس کر سکتا ہے۔ اس ہیولیٰ میں ’’ابعاد‘‘ پائے جاتے ہیں لیکن اس کا مرکز مادی دنیا میں نہیں ہے۔ البتہ دوسرا مرحلہ عنصریت کا مرکز مادی دنیا میں ہے۔یہ دونوں عالم امکان کے مراتب ہیں۔ اس طرح کائنات میں چار بُعد پائے جاتے ہیں۔
بُعد نمبر۱۔ صادر العین (غیر متغیر)
بُعد نمبر۲۔ عین (تغیر پذیر)
بُعد نمبر۳۔ مثالیت
بُعد نمبر۴۔ عنصریت
ہم پہلے نہروں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ہر نہر اپنی حدود میں ’’بُعد‘‘ کہلاتی ہے۔ اور مخصوص صفات رکھتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس کائنات سے پہلے کیا تھاتو آپﷺ نے فرمایا ’’امعاء‘‘ سوال کیا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ارشاد ہوا، ’’ماء‘‘۔
‘‘امعاء‘‘ عربی اصطلاح میں ایسی منفیت کو کہتے ہیں جو عقل انسانی میں نہ آ سکے اور ’’ماء‘‘ عربی میں ’’مشبیت‘‘ کو کہتے ہیں جو کائنات کی بنیادیں ہیں۔ اس ہی مشبیت کا نام عالم امر ہے۔ امعاء جو اصطلاح میں ماوراء الماوراء کہلاتی ہے۔ اس کا تعارف ’’عالم نور‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ انسانی تفہیم و تعلیم کی معراج جہاں تک ہے اس حد کا اصطلاحی نام ’’حجاب محمود‘‘ ہے۔ حجاب محمود وہ بلندیاں ہیں جس سے عرش ِعظیم کی انتہا مراد ہے۔ یہ انسانی نقطۂ ذات کی معراج کا کمال ہے کہ وہ اپنے ادراک کو حجاب محمود کی تفہیم کا خوگر بنا سکے اور ان صفاتِ الٰہیہ کو سمجھ سکے جو ان بلندیوں میں کار فرما ہے۔ یہ عالم اللہ کے مقرب فرشتوں کی پرواز سے ماوراء ہے۔ مقرب فرشتوں کی پرواز جہاں تک ہے اس حد کا نام ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ ہے۔ ملائکہ مقربین سدرۃ المنتہیٰ سے آگے نہیں جا سکتے۔ سدرۃ المنتہیٰ سے نیچے ایک اور بلندی ہے۔ اس بلندی کی وسعتوں کو بیت المعمور کہتے ہیں۔
سدرۃ المنتہیٰ اور بیت المعمور کی حد میں رہنے والے اور پرواز کرنے والے فرشتے تین گروہوں پر مشتمل ہیں۔ ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رہ کر تسبیح میں مشغول ہے، دوسرا گروہ اللہ تعالیٰ کے احکام عالم تک پہنچاتا ہے اور تیسرا گروہ ان فرشتوں کا ہے جو عالم امر کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنے حافظہ میں رکھتے ہیں۔ یہ تمام فرشتے لوح محفوظ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’عالمِ نور‘‘ سے فروتر ملائکہ مقربین یا ملاء اعلی کی حدود ہیں۔ ان میں ملاء اعلیٰ چھ بازو والے فرشتے ہیں۔ ان کو عالمِ نور کے سمجھانے کی فراست حاصل ہے اور یہ عالمِ نور کے پیغامات کا تحمل رکھتے ہیں۔ عالم نور کے احکامات وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ عرش اعظم سے نافذ فرماتے ہیں۔ اس طبقہ سے فروتر ملائکہ روحانی کا طبقہ ہے۔ ان کو ملاء اعلیٰ کے پیغامات سمجھنے کی فراست حاصل ہے۔ اور اس طبقہ سے فروتر ملائکہ سماوی کا طبقہ ہے۔ یہ روحانی ملائکہ کے پیغامات سمجھنے کی فراست رکھتے ہیں۔ چوتھے درجہ میں ادنیٰ فرشتے ہیں۔ یہ ان احکامات کو تعمیل کرانے کی فراست رکھتے ہیں جو ان تک پہنچتے ہیں۔ یہ ملائکہ طبقات ارضی پر ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ چھ بازو والے فرشتے چھ فراستوں کے اہل ہیں۔ ان میں سے ہر فراست ایک نور ہے۔
نمبر۱۔ انہیں کچھ نہ کچھ ذات کا عرفان حاصل ہے۔
نمبر۲۔ وہ صفات کی معرفت رکھتے ہیں۔
نمبر۳۔ ’’عالم امر‘‘ کے صادر العین کی فہم رکھتے ہیں۔
نمبر۴۔ ’’عین‘‘ کی ترتیب اور تخلیق سے واقف ہیں۔
نمبر۵۔ عالم امکان یا عالم خلق کی مثالیت کے علوم پر انہیں پورا عبور حاصل ہے۔
نمبر۶۔ عالم خلق یا عالم امکان کے اجزاء پر عبور رکھتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ملاء اعلیٰ مذکورہ بالا چھ علوم کی روشنیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ علم کوئی ایسی چیز ہے جو روشنی کے وجود سے الگ ہے۔ دراصل روشنی ہی کا نام علم ہے۔ اگر ہمارے سامنے علم(یہاں علم سے مراد علم حضوری یا علم الحقیقت ہے) کی شکل وصورت آئے گی تو وہ ایک طرح کی روشنی ہو گی جو اس علم کے مخصوص صفات کے رنگوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس طرح روحانی ملائکہ تین، چار، پانچ، چھ روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان کو عالم امر اور عالم خلق کی معرفت حاصل ہے۔ ان کے چار بازوؤں سے یہ روشنیاں مراد ہیں۔ سماوی ملائکہ عالم امر کی معرفت رکھتے ہیں۔ ان کے اندرصادر العین اور عین کی روشنیاں مجتمع ہیں۔ ادنیٰ ملائکہ عالم خلق کے اجزاء کی تفہیم پر عبور رکھتے ہیں۔ یہ مثالیت اور عنصریت کی روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )