Topics

اظہاریہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت دی:

’’تو ایمان لے آ تجھے جنت بھی ملے گی اور یہ دنیاوی حکومت بھی تیرے پاس رہے گی۔‘‘

اس نے جواب دیا کہ

’’میں اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کر لوں تو جواب دونگا۔‘‘

چنانچہ اس نے ہامان سے مشورہ کیا۔ ہامان نے کہا:

’’اس وقت تُو خود رب ہے، لوگ تیری عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب تو بندہ بن جائے گا تو پھر تجھے خود بندگی اور اطاعت کرنی پڑے گی اور کوئی شخص تیری عبادت نہیں کرے گا۔‘‘

یہ سن کر فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔

مذکورہ واقعہ انسانی فطرت میں غرور و تکبر کا مظہر ہے۔ تکبر، خوشامد اور خود پسندی نے فرعون کو اللہ کی ربوبیت اور وحدانیت کے فیوض و برکات سے محروم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں۔‘‘

(21-25)

انسان کا خود کو کسی کی اطاعت کیلئے تیار کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ تصوف میں بیعت کے معنی یہ ہیں کہ مرید اپنے آپ کو اس طرح مراد کے حوالے کر دے کہ وہ اپنے شیخ کی ذات و صفات کا عکس بن جائے۔

مرشد کامل مرید کو اپنے علم و فیض کے ذریعے روحانی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ جس میں سالک بغیر کسی خوف و خطر، حق کی منازل طے کرتا ہے اور مرشد اسے بہت سے ایسے لاینحل مسائل الفاظ کا جامہ پہنا کر سمجھا دیتا ہے جو احاطہ تحریر میں آنے سے قاصر ہیں۔ مرشد وہ ہستی ہے جو حق کی وسیع و لامحدود حقیقتوں کے سمندر کو چند قطروں میں سمو کر اپنے علم و فن سے متلاشیان حق کو سیراب کرتا ہے۔

انفرادی طور پر ایک خود شناس شخص کی عظمت سے انکار نہیں مگر وہ کائنات کی اجتماعی سطح پر کسی کام کا نہیں ہوتا۔ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے وہ اپنی حقیقت و اصل کو پا چکا ہوتا ہے مگر جو مشاہدات اور رموز اس پر آشکارا ہو چکے ہوتے ہیں وہ ان کیفیات میں کسی کو شریک نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی زبان باطنی واردات کو بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہے اس وجہ سے لوگ اپنی روحانی تشنگی کو بجھانے کیلئے مذکورہ شخص کے فیض سے محروم رہتے ہیں۔

پہلے پہل اگرچہ ہر انسان خود آگہی کی سطح پر پہنچتا ہے اور ایک مرشد کامل اسے بالآخر منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے۔ پھر جب عرفان و آگاہی کا پھول اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ کھلتا ہے تو اس کی مہک کائنات میں پھیل جاتی ہے اور ان لوگوں کی پیاس و بے چینی دور ہو جاتی ہے جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں۔

مرشد اور مرید کے درمیان ایسا روحانی ربط ہوتا ہے جو نہ ٹوٹنے والے بندھن میں بدل جاتا ہے بالآخر مرید مرشد کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے اس مقام پر تمام فاصلے اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں اور وہ یکجائیت جنم لیتی ہے جو کائنات کا طرہ امتیاز ہے۔ فنا فی الشیخ کے اس مقام پر لازوال سکوت، بصیرت اور اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور سالک حق کو پا لیتا ہے۔

بلاشبہ ایمان کے ساتھ حق تک پہنچانے کا سہرا مرشد کامل ہی کو جاتا ہے جو اپنے تصرف سے سالک کو اس کی ذات کے عرفان ہی سے متعارف نہیں کرواتا بلکہ اسے نبی کریمﷺ کی رحمت و نسبت سے عرفان الٰہی کی راہوں پر گامزن کر دیتا ہے۔

زیر نظر کتاب، مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی، خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے مصنف کے قلبی لگاؤ کا مظہر ہے۔ مرید و مراد کے درمیان روحانی ربط کو جس طرح قائم ہونا چاہئے اس کا جمال مصنف کی اس کاوش میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ زیر نظر کتاب سالکین کیلئے تفکر کی نئی راہیں کھول دے گی جس سے انہیں مرشد کریم کی نسبت اور فیض حاصل ہو گا۔

 

محمد نواب خان عظیمی

نگران مراقبہ ہال، کوئٹہ


Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔