Topics
حضرت عثمان بن طلحہ
کعبہ کے کلید بردار تھے ۔ ایام جاہلیت میں وہ کعبہ کو پیر اور جمعرات کے دن کھولا
کرتے تھے۔ ایک دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کعبہ میں داخل
ہوئے ۔ عثمان بن طلحہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ۔ مگر حضور
علیہ الصلوۃ والسلام نے درگزر کیا اور فرمایا، اے
عثمان ! عنقریب چابی میرے ہاتھ میں ہو گی اور مجھے اس پر تصرف ہو گا جس کو چاہوں
دے دوں ، جہاں چاہوں رکھ دوں ۔ عثمان بن طلحہ نے کہا اس دن قریش ہلاک اور ذلیل
ہو جائیں گے ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ، نہیں ، بلکہ وہ عزت پائیں گے اور زندہ رہیں گے ۔
فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کی چابی محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی ۔ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ دونوں میں سے
ہر ایک نے عرض کیا کہ یہ چابی ہمیں عنایت فرما دی جائے مگرحضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے چاپی عثمان بن طلحہ کو عطا فرما دی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔