Topics
مکہ میں ایک مرتبہ حضور علیہ
الصلوۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص جنات سے ملاقات کرنا
چاہتا ہے وہ آج رات میرے پاس آ جائے ۔ ابن مسعودؓ کے سوا اور کوئی نہیں آیا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر مکہ کی ایک اونچی پہاڑی پر پہنچے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصار کھینچ کر فرمایا کہ تم حصار سے باہر نہ آنا۔ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کر دیا ۔ کچھ دیر بعد
ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح گھیر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم ان کے بیچ چھپ گئے ۔ جنات کے گروہ نے کہا کہ تمہارے پیغمبر ہونے کی کون گواہی
دیتا ہے ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ درخت گواہی دیگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس درخت سے پوچھا میں کون ہوں ۔ درخت نے گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ
کے فرستادہ بندے اور آخری نبی ہیں ۔ یہ دیکھ کر سارے جنات ایمان لے آئے۔
ہر جسمانی وجود کے
اوپر ایک اور جسم ہے ۔ اس جسم کو علمائے باطن ہیولی کہتے ہیں ۔ روحانی آنکھ اس
جسم کے طول و عرض اور جسم میں تمام
خدوخال ہاتھ، پیر ، آنکھ ،ناک، دماغ کا بھی مشاہدہ کرتی ہے۔ نہ صرف مشاہدہ کرتی
ہے بلکہ ان کے اندر روشنیوں کے ٹھوس پن کو بھی محسوس کرتی ہے۔
تخلیق کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ
پہلے روشنیوں سے بنا ہوا جسم تخلیق ہوتا ہے ۔ پھر مادی وجود کی تخلیق عمل میں آتی
ہے ۔ لیکن دونوں میں ٹھوس پن موجود ہے ۔ ہم مفرد اور مرکب لہروں کی وضاحت کر چکے
ہیں ۔ مفرد لہر ایسی حرکات کا مجموعہ ہے جو ایک سمت سے دوسری سمت میں جاری و ساری
ہے ۔ اگر مخالف سمت سے ایک سمت سے دوسری سمت لہر مفرد لہروں میں پیوست ہو جائے اور
اس کے اوپر نقش و نگار بن جائیں تو اس کا نام انسان اور انسان کی دنیا ہے۔ لیکن
اگر مفرد لہریں ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں اس طرح کہ پیوست بھی رہیں اور فاصلہ
بھی ختم نہ ہو اور اس بساط پر نقش و نگار بن جائیں تو اس کا نام جنات اور جنات کی
دنیا ہے مطلب یہ ہوا کہ مفرد لہروں کی اوپر نقش و نگار یعنی آنکھ ، ناک ، کان ،
ہاتھ ، پیر وغیرہ کی دنیا ، جنات کی دنیا ہے اور مرکب لہروں پر نقش و نگار یعنی
ہاتھ ، پیر اور دوسری اعضا اگر نقش ہوں تو مادی وجود کی دنیا ہے۔
مادی وجود کی دنیا میں جس طرح انسان کے علاوہ اور بے شمار مخلوقات ہیں ۔ اسی
طرح جنات کی دنیا میں بھی زمین ، آسمان ، چاند ،سورج ، ستارے اور وہ تمام مخلوقات
موجود ہیں جو ہمیں زمین پر نظر آتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انسان مرکب لہروں کی تخلیق
ہے۔ جبکہ جنات مفرد لہروں سے بنے ہوئے ہیں ۔ جس طرح مرکب لہروں کی تخلیق میں پانچ
حسیں کام کرتی ہیں اسی طرح مفرد لہروں کی مخلوق میں بھی پانچ حسیں کام کرتی ہیں۔
جنات بولتے بھی ہیں، جنات سنتے بھی ہیں، جنات کی دنیا میں کھیتی باڑی بھی ہوتی ہے
اور جنات کی دنیا میں سائنسی ایجادات کا بھی عمل دخل ہے۔
جنات کی دنیا ایسی دنیا ہے جو
ہماری زمین کے گلوب کی حدود میں ہے اور زمین سے تقریبا دس لاکھ چھپن ہزار فٹ خلا
میں جنات کی دنیا کی حدود شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے بہت
بڑی زمین کے رقبے پر چھت ڈال دی جائے اور چھت پر کھیتی باڑی بھی کی جائے ، مکان
بھی بنائے جائیں ، درخت بھی لگائے جائیں اور وہاں مخلوق بھی آباد ہو ۔ چھت پر
موجود مخلوق کو نہ تو زمین سے انسان دیکھ سکتا ہے اورنہ ہی چھت پر سے جنات انسان
کو دیکھ سکتے ہیں۔ نہ دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس ٹھوس مادیت
سے واقف ہیں اور وہ ٹھوس مادیت جس
پر روشنی کا غلبہ ہے ، الگ الگ ہیں۔
انسانی دنیا میں ماں کے بطن سے
بچہ نو ماہ میں پیدا ہوتا ہے اور جنات کی دنیا میں ماں کے بطن سے بچہ انسانی
اعدادو شمار کے مطابق نو سال میں پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ان کی عمر کا تعین بھی ہے
۔
جنات اور انسان دونوں مکالف مخلوق
ہیں۔ دونوں دنیاوی علوم کی طرح روحانی علوم سیکھ سکتے ہیں ۔ کائنات میں جتنی چیزیں
، جتنے رنگ اور جتنے روپ ہیں ان کے لئے ایک مخصوص طول حرکت مقرر ہے۔ جس چیز کے لئے
جو مقداریں معین کر دی گئی ہیں ان میں کمی بیشی نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالی نے قرآن
پاک میں دو مکلف مخلوق کا تذکرہ کیا ہے۔
ترجمہ: اے گروہ جنات اور گروہ انسان ! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر
دکھاو تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے ۔ ( الرحمن)
سلطان کا مطلب روحانی صلاحیتیں
ہیں۔ اگر کوئی انسان یا جن روحانی صلاحیت کو بیدار اور متحرک کر لے تو آسمان اور
زمین کے کناروں سے نکل کر غیب کی دنیا کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
جتنے بھی انبیا تشریف لائے ان سب
کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ انسان مادی وجود میں رہتے ہوئے اللہ تعالی کا عرفان
حاصل کرے اور اللہ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے غیب کی دنیا میں داخل ہونا ضروری ہے
جو سلطان ( روح) کے ذریعہ ممکن ہے۔ اس لئے کہ ازل میں روح اللہ کی آواز سن چکی ہے
۔ اللہ کو دیکھ چکی ہے اور پورےہوش و حواس کے ساتھ اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربو
بیت کا اقرار کر چکی ہے۔ انسان کے عالم و جود میں یا جنات میں، انسان پر یا جن پر
ایسا پردہ پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ نور یا روشنی کی دنیا کو نہیں دیکھ سکتا اور
جب یہ وجودی پردہ ہٹ جاتا ہے تو انسان کو اپنی روح کا دراک ہو تا ہے اور روح ازل
میں اللہ کو دیکھ چکی ہے۔ اللہ کی آواز سن چکی ہے اور اللہ کو ربوبیت کا اقرار کر
چکی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام جب پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ نے قرآن
پاک کی تلاوت فرمائی تو آیتوں کے انوار جن کو نورانی مفرد لہریں کہتے ہیں متحرک
ہو گئے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جنات کی مخلوق آ گئی ۔ حضرت ابن
مسعودؓ نے بھی یہ دنیا دیکھی ۔ حضرت ابن مسعودؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشریف
لے گئے تھے، آیات مبارکہ کے انوار جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے ظاہر
ہوئے ان انوار سے حضرت ابن مسعودؓ کے اندرروحانی صلاحیتیں بیدار ہو گئیں یعنی نور
نبوت سے ان کا باطن نہ صرف روشن ہو گیا بلکہ ان کے اندر انوار کا ذخیرہ اتنا زیادہ
ہو گیا کہ انہوں نے جنات کی دنیا کو دیکھ لیا۔ درخت کاگواہی دینا اس بات کی سند ہے
کہ جنات کی دنیا کے تمام افراد نے اور تمام مخلوقات نے سیدنا حضور علیہ الصلوۃ
والسلام کی رسالت و نبوت کا اقرار کیااور جنات مسلمان ہو گئے ۔
علمائے باطن کے مطابق اب بھی جنات
کی دنیا میں اربوں کی تعداد میں مسلمان ہیں ۔ جس طرح مادی وجود کا مسلمان بندہ
نماز ، روزہ حج، زکوۃ ادا کرتا ہے اسی طرح جنات کی دنیا میں بھی مسلمان جن اور ان
کی خواتین نماز، روزہ ، حج ، زکوۃ ادا کرتی ہیں۔ کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ
جنات نظر کیوں نہیں آتے تو ہم یہ سوال کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ انسان کو وائرس
کیوں نظر نہیں آتا ؟ بیکٹیریا کیوں نظر نہیں آتا ؟ لیکن اگر کوئی Sensitive Device بنالی جائے تو اس سے بیکٹیریا یا
وائرس کا ادراک ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر انسان مفرد لہروں کا علم حاصل کر لے تو
وہ جنات کو اور جنات کی دنیا کو دیکھ سکتا ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا یہ اعجاز ہے کہ انہیں مرکب لہروں ، مفرد لہروں ، نورانی لہروں اور ماورائے نور
لہروں کا علم بدرجہ اتم حاصل ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔