Topics
مدینہ آئنے کے بعد
چند ماہ مسلمان مہاجرین کے لئے بڑے صبر آزما تھے۔ مہاجرین اپنا سارا اثاثہ اور
بیوی بچے چھوڑ کر مدینہ آئے تھے ۔ انہیں مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ گھر گر ہستی
کی دشواریوں کا بھی سامنا تھا۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے مدینہ کے مسلمانوں اور
مکے سے آئے ہوئے مسلمانوں کے مابین رشتہ اخوت قائم کر دیا اور مدینہ کے انصار نے
ایثار و خلوص کی اعلی مثال قائم کی ۔ ہر انصاری مسلمان نے اپنے مال و اسباب میں سے
نصف اپنے مہاجر بھائی کو دیا ۔
کچھ عرصہ کے بعد مسلمانوں اور
یہودیوں کے درمیان خلیج پیدا ہوئی تو قریش نے اس سے فائدہ اٹھایا اور یہودیوں کو
اپنے ساتھ ملا لیا۔ مدینہ کے یہودی اس پر آمادہ ہو گئے کہ وقت پڑنے پر وہ قریش کا
ساتھ دیں گے ۔ یہودیوں کی اقتصادی اور معاشی حیثیت مضبوط تھی ۔ بازار اور منڈیاں
ان کے ہاتھ میں تھیں ۔ قریش نے مسلمانوں کو معاشی طورپر جکڑنے کا پروگرام بنایا
اور مدینہ کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی ۔ اشیائے خورد و نوش اور دیگر سامان مدینہ
میں پہنچنا بند ہو گیا ۔ مدینہ کے باشندے فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے۔
مکہ والوں کی دشمنی اور شر انگیزی
سے تنگ آ کر مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی مکہ کے تجارتی قافلوں کو مدینہ کے
قرب و جوار سے نہیں گزرنے دیں گے ۔ تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں پر آباد قبائل سے
معاہدہ کر کے انہیں اپنا حلیف بنا لیا اور آنے اور جانے والی قافلوں کا راستہ بند
کر دیا ۔ چند تجارتی قافلے جب اس صورتحال سے دو چار ہوئے تو قریش کو تشویش ہوئی ۔
سالانہ تجارتی قافلہ جب ابوسفیان کی قیادت میں دو ہزار اونٹوں پر سامان تجارت لے
کر جا رہا تھا تو مکہ میں یہ
افواہ پھیل گئی کہ مسلمان قافلہ لوٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس افواہ سے لوگوں میں
سراسیمگی پھیل گئی ۔
بے شمار اونٹوں اور تیز رفتار
گھوڑوں پر مسلح فوج مکہ سے روانہ ہوئی۔ اس لشکر میں مکہ کے بڑے بڑے سردار شامل تھے
۔ لشکر کی تیاری اور مسلمانوں کے خلاف جذبات ابھارنے میں ابو جہل پیش پیش تھا۔ ابو
سفیان تجارت کا سامان لے کر بحفاظت مکہ پہنچ گیا ۔ لشکر کو اطلاع ملی تو انہوں نے
اپنے سپہ سالار سے واپس چلنے کو کہا ۔ لیکن ابو جہل نے کہا ہم اس خوشی میں جش منائیں گے اور جش مدینہ کے
قرب و جوار میں پر فضا مقام پر ہو گا تا کہ مدینہ والے ہماری طاقت سے مرعوب ہو
جائیں اور وہ قبائل جو مسلمانوں کے حلیف بن گئے ہیں معاہدہ توڑ دیں اس طرح سارے
عرب میں ہماری قوت کی دھاک بیٹھ جائے گی
سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام
کو ابو جہل کی سازش اور قریش مکہ کے ارادوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ابو جہل کی سازش کو ناکام کر دینے کا اعلان کر دیا۔
مہاجرین کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی تائید کی ۔ مدینہ کے انصار کی طرف سے مقداد بن عمروؓ نے کہا ،
جو حکم اللہ کی جانب سے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو ہوا ہے اس کی تعمیل میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ ہم
بنی اسرائیل کی طرح نہیں کریں گے ، کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا تھا کہ تو اور
تیرا خدا جا کردشمنوں سے لڑائی کرے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا ہے ۔ ہم جاں نثاری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی پیروی کریں گے۔
سن ۲ ہجری ماہ رمضان میں ۳۱۳رضاکار جن کے پاس ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے ،
مدینہ سے بدر کی طرف روانہ ہوئے ۔ لشکر کے افراد باری باری سواری کے جانور استعمال
کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور مدینہ سے اسی میل کے فاصلہ پر بدر کے چشموں کے قریب
پڑاؤ ڈال دیا۔ بھر پور جنگی سازو سامان کے ساتھ قریش کی فوج نے وادی کے دوسرے سرے
پر پڑا ؤڈالا تھا ۔
اسلامی انٹیلی جنس نے مکی لشکر کے دو افراد کو گرفتار کر لیا ۔ ان سے اہم
معلومات حاصل ہوئیں ۔ حضرت حباب بن مندزؓ کے مشورہ سے سیدنا علی علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کے قیام کی جگہ
تبدیل کر دی اور آگے بڑھ کر چشموں کے پانی پر قبضہ کر لیا۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے
صحابہ اکرامؓ کی معیت میں میدان جنگ کا جائزہ لیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل اس جگہ ابو جہل مارا جائے گا ۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے
بعد دوبارہ ارشاد فرمایا ، اس جگہ عتبہ کا لاشہ گرے گا ۔ اس طرح چیدہ چیدہ تمام
سرداران قریش کے واصل جہنم ہونے کے مقامات سے اپنے رفقائ کو آگاہ کیا۔
اسی رات بارش برسی اور جس جگہ
مسلمان لشکر کا پڑاو تھا وہاں کی ریت دب گئی جبکہ قریش مکہ کا لشکر جس جگہ اترا
تھا وہ زمین کیچڑ میں تبدیل ہو گئی۔
ترجمہ : جس وقت ڈال دی تم پر اونگھ، اپنی طرف سے تسکین
کو ، اور اتارا تم پر آسمان سے پانی کہ اس سے تم کو پاک کرے اور دور کرے تم سے
شیطان کی نجاست اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور ثابت کر ے تمہارے قدم (الا نفال ۔۱۱)
سعد بن معاذؓ کی تجویز پر لشکر سے
پیچھے ایک بلند ٹیلے پر سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے چھپر ڈال کر مرکز قیادت
بنا دیا گیا جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں لشکروں کا بآسانی جائزہ لے
سکتے تھے۔
دوسری صبح قریش کا لشکر نخوت و
کبر کی تصویر بن کر متکبرانہ طمطراق سے وادی بدر میں اترا ۔ قریش کے سردار عتبہ بن
ربیعہ پر صورت حال واضح ہو ئی کہ ابو جہل اور چند دیگر سرداروں کی ہٹ دھرمی خون
خرابے اور اپنے مسلم رشتہ داروں کو قتل و غارت کرنے کا باعث بن رہی ہے تو اس نے
قریش کو مخاطب کر کے کہا۔ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے لڑ
کر کوئی کارنامہ انجام نہیں دو گے ۔ اگر تم نے انہیں شکست دے کر قتل کر دیا تو
تمہیں ایسے چہرے نظر آئیں گے جن کو دیکھ کر تمہیں خوشی نہیں ہو گی ۔ کیونکہ ہر
آدمی اپنے قبیلہ کے کسی فرد یا قریبی رشتہ دار کو قتل کرے گا ۔ جنگ کے ارادے سے
باز رہو اور واپس چلو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں سے کنارہ کش ہو
جاؤ، عرب والے خود ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نبٹ لیں گے ۔ عتبہ سرخ اونٹ پر
سوار تھا۔ اس کو دیکھ کر سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایاکہ قوم میں سے کسی
شخص کے پاس خیر ہے تو سرخ اونٹ والے کے پاس ہے اگر لوگوں نے اس کی بات مان لی تو
صحیح راہ پائیں گے ۔
عتبہ کی تقریر کا اثر ختم کرنے کے
لئے ابو جہل نے دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے اور کہا اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ
کاٹنے والااور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے تو آج توڑ دے ۔ اے اللہ! ہم میں
سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما۔
قرآن حکیم نے اس کا
جواب سورۃ انفال آیت نمبر ۱۹ میں دیا ہے۔
ترجمہ: اگر تم
چاہو فیصلہ ، سوپہنچ چکا تم کو فیصلہ ، اور اگر باز آو تو تمہارا بھلا ہے اور اگر
پھیر کرو گے تو ہم بھی پھیر کر ینگے اور کام نہ آوے گا تم کو تمہارا جتھا اگرچہ
بہت ہوں اور جانو کہ اللہ ساتھ ہے ایمان والوں کے ۔
۱۷ رمضان المبارک سن ۲ ہجری کی صبح صف بندی ہوئی ۔ جنگ شرع ہونے سے قبل سیدنا
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سجدہ ریز ہو کر رب العزت کے حضور التجا کی:
الہٰی یہ قریش ہیں۔ کبر و نخوت سے جن
کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔ تیرے نافرمان ہیں اور تیرے رسول سے آمادہ جنگ ہیں۔ الہٰی
ہمیں نصرت او رمد د کی ضرورت ہے ۔ جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔ اے اللہ !تجھ پر
ایمان لانے والے قلیل ہیں۔ آج تو نے انہیں ہلاک کر دیا تو روئے زمین پر تیری
عبادت کرنے والاکوئی نہیں رہے گا۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کی
چادر کندھوں سے ڈھلک گئی اور سجدہ طویل ہو گیا۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام اور
سارے اسلامی لشکر پر چند لمحوں کے لئے اونگھ طاری ہو گئی ۔ اسلامی لشکر نے جب
آنکھیں کھول کر دشمن فوج کی طرف دیکھا تو ان کی تعداد کم تھی۔
ترجمہ : " بے
شک تمہارے لئے ان دو گروہوں میں باہم مقابل ہو ئے قدرت کی بڑلی دلیل ہے ، ایک گروہ
اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا دوسرا گروہ کافروں کا تھا ۔ جو مسلمانوں کو اپنی
آنکھوں کے سامنے اپنے سے دو گنا دیکھ رہا تھا اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی مدد
سے قوت دیتا ہے ۔ بے شک اس میں نصیحت ہے آنکھوں والوں کے لئے ۔ "(
آل عمران ۔ ۱۳)
لڑائی شروع ہونے سے پہلے دونوں
لشکر ایک دوسرے کو اصل تعداد سے کم تعدادمیں دیکھ رہے تھے۔ لیکن جب لڑائی شروع
ہوئی تو مسلمانون کی تعداد کفار کو زیادہ نظر آنے گلی اور ان کے دلوں میں ہیبت
بیٹھ گئی ۔ جنگ کا آغاز ہوا تو عرب کے دستور کے مطابق قریش کے لشکر میں سے تین
افراد میدان میں آئے اور دعوت مبارزت دی ۔ عتبہ اگرچہ جنگ کے حق میں نہ تھا لیکن
مبارزت کے لئے اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ میدان میں آیا اور للکار ا
کہ ہے کوئی ہمارا مقابلہ کرنے والا۔ لشکر اسلام میں سے تین انصاری جوان مقابلے کے
لئے نکلے ۔ کبرو نخوت کے پیکر قریشی سرداروں نے ان سے لڑنے سے انکار کر دیا اور
کہا کہ ہمارا تعلق مکہ کے اشراف سے ہے لہذا ہمارا مقابلہ وہ کرے جو مکہ کا رہنے
والا ہو اور ہم اس کو جانتے ہوں۔
حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت
عبیدہؓ میدان میں آئے اور تینوں مشرکوں کو جہنم واصل کر دیا ۔ حضرت عبیدہؓ شیبہ
کے وار سے زخمی ہو گئے تھے جنہیں حضرت علیؓ اٹھا کر میدان سے باہر لائے ۔ مشرکین
کے تین نامور سرداروں کے لاشے خاک و خون میں لت پت تھے۔ کفار اپنے معبودوں کو
پکارتے ہوئے تلواریں لہرا کر میدان میں کود پڑے اور دو بدو لڑائی شروع ہو گئی ۔
لڑائی میں قریش کو ہزیمت ہوئی ۔
کافروں کو مسلمانوں تک پہنچنے کے لئے ریتلی ناہموار زمین میں سے گزرنا پڑتا تھا ۔ مسلمانوں کی صف بندی نسبتا
ہموار اور سخت زمین پر کی گئی تھی ۔ کافر اپنی صفوں کو جس وقت ترتیب دے رہے تھے ،
سیدنا حضور الصلوۃ والسلام نے چند کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کی طرف پھینکیں
اور فرمایا ، پست و رسوا ہوئے کفار کے چہرے ۔ مٹھی
بھر کنکریاں فضا میں اڑتی ہوئی دشمن فوج تک پہنچیں تو ہوا کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔
دشمن کی آنکھیں اور نتھنے ریت اور مٹھی سے بھر گئے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام
کے اس عمل کو اللہ نے اپنا عمل قرار دیا ۔
ترجمہ : "سو تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اللہ نے مارا ، اور تو نے نہیں
پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی اور کرنا چاہتا تھا ایمان
والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان ، تحقیق اللہ ہے سنتا جانتا ۔" ( الا نفال ۔ ۱۷)
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لئے
فرشتوں کے دستے آسمان سے اترے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کی فتح و
کامرانی کے لئے خدائے بزرگ و برتر کی حضور سجدہ ریز ہو کر دعا کی اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے فرمایا : ابو بکر ! خوش ہو جاو تمہارے پاس اللہ کی مدد آ
گئی ہے ۔
ترجمہ : " جب تم نے اپنے رب سے
فریاد کی تو اس نے تمہاری پکار سنی اور تمہاری مدد کےلئے ہزار جنگی فرشتے آگے
پیچھے صف بستہ بھیج دئیے ۔" ( الا نفال ۔۹)
بدر میں زور کا رن پڑا۔ کچھ وقت کے لئے یہ کہنا مشکل تھا
کہ ہارنے اور جیتنے والاکون ہے ۔ کس کی فتح ہو گی ؟ یکا یک جنگ کا نقشہ مسلمانوں
کے حق میں بدل گیا ۔ کفار کے قابل سپوت اور نمایاں چہرے خون آلودہ ہو گئے ۔ کافر
لشکر کا سپہ سالار ابو جہل بھی جہنم رسید ہوا ۔ دشمن کی صفوں میں انتشار پھیل گیا۔
فوج کے حوصلے پست ہو گئے اور ان میں مزید لڑنے اور مزاحمت کی طاقت نہیں رہی ۔
میدان جنگ چھوڑ کر کفار فرار ہو گئے۔ اشراف قریش جنگی قیدی بنا لئے گئے ۔ قریش کے
ستر اسی افراد مارے گئے ۔ کافی تعداد میں قید ہو ئے ۔ چودہ مسلمان شہید ہو ئے اور
اللہ کی مدد و نصرت سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھیوں تک پہنچ گئی ۔
٭٭٭
مخلوقات میں تبادلہ خیالات ہوتا رہتا ہے کائنات تبادلہ خیال
کا ایک خاندان ہے ۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔ پے در پے جو
خیال ہماری ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمین وصول
ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعہ ہم تک پہنچتے ہیں۔
کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان
بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترکہ رکھتی ہیں۔ تین نوع
کے طرز عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ انہی کا تذکرہ قرآن پاک میں
انسان ، فرشتہ اور جنات کے نام سے کیا گیا ہے ۔ انسان ، فرشتہ اور جنات کائنات کے
اندر سارے کہکشانی نطاموں میں موجود ہیں۔
انسان لا شمار سیاروں میں آباد
ہیں اور ان کی قسمیں کتنی ہیں؟ اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے ۔ یہی بات فرشتوں اور
جنات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوۃ
والسلام سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس کائنات سے پہلے کیا تھا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: "امعا "
سوال کیا گیا ، اس کے بعد کیا ہو ا؟
ارشاد کیا : "ماء "
امعا عربی اصطلاع
میں ایسی منفیت کو کہتے ہیں جو عقل انسانی میں نہ آ
سکے اور ما عربی
میں" مثبیت "کوکہتے ہیں جو کائنات کی بنیادیں ہیں۔ اس
ہی مثبیت کا نام عالم امر ہے۔ امعا جو اصطلاح میں ماورا الماوراء کہلاتی ہے اس کا
تعارف عالم نور سے کیا جاتا ہے ۔ انسانی تفہیم و تعلیم کی معراج جہاں تک ہے اس حد
کا اصطلاحی نام حجاب محمود ہے۔ حجاب محمود وہ بلندیاں ہیں جس سے عرش اعظم
کی انتہا مراد ہے ۔ یہ انسانی نقطہ ذات کی معراج کا کمال ہے کہ وہ اپنے ادراک کو
حجاب محمود کی تفہیم کا خوگر بنا سکے اور ان صفات الہیہ کو سمجھ سکے جو ان بلندیوں
میں کارفرما ہے۔ یہ عالم اللہ کے مقرب فرشتوں کی پرواز سے ماورا ہے ۔ مقرب فرشتوں
کی پرواز جہاں تک ہے ۔ اس حد کا نام "سدرۃ المنتہی" ہے ملائکہ مقربین سدرۃ المنتہی سے آگے نہیں جا
سکتے ۔ سدرۃ المنتہی سے نیچے ایک اور بلندی ہے ۔ اس بلندی کی وسعتوںکو" بیت
المعمور" کہتے ہیں۔
سدرۃ المنتہی اور بیت المعمور کی
حد میں رہنے والے اور پرواز کرنے والے فرشتے تین گروہوں پر مشتمل ہیں ۔ ایک گروہ
اللہ تعالیٰ کے سامنے رہ کر تسبیح میں
مشغول ہے ، دوسرا گروہ اللہ کے احکام عالم تک پہنچاتا ہے اور تیسرا گروہ ان فرشتوں
کا ہے جو عالم امر کے لئے اللہ کے احکامات کو اپنے حافظہ میں رکھتے ہیں ۔ یہ تمام
فرشتے لوح محفوظ سے تعلق رکھتے ہیں۔ عالم نور سے
فروتر ملائکہ مقربین یا ملاء اعلی کی حدود ہیں۔ ان میں ملا اعلی چھ بازووں والے
فرشتے ہیں ۔ ان کو عالم نور کے سمجھانے کی فراست حاصل ہے اور یہ عالم نور کے پیغامات
کا تحمل رکھتے ہیں ۔ عالم نور کے پیغامات وہی ہیں جو اللہ عرش اعظم سے نافذ فرماتے
ہیں۔ اس طبقہ سے فروتر ملائکہ روحانی کا طبقہ ہے ۔ ان کو ملاء اعلیٰ کے پیغامات
سمجھنے کی فراست حاصل ہے ۔ اور اس طبقہ سے فروتر ملائکہ سماوعی کا طبقہ ہے ۔ یہ
روحانی ملائکہ کے پیغامات سمجھنے کی فراست رکھتے ہیں ۔ چوتھے درجے میں ادنی فرشتے ہیں یہ ان احکامات کی تعمیل کرنے کی
فراست رکھتے ہیں جو ان تک پہنچتے ہیں ۔ یہ ملائکہ طبقات ارضی پر ہر طرف پھیلے ہوئے
ہیں۔
چھ بازو والے فرشتے
( ملا ءاعلی) چھ فراستوں کے اہل ہیں ۔ ان
میں سے ہر
فراست ایک نور ہے ۔
۱۔ انہیں کچھ نہ کچھ ذات کا
عرفان حاصل ہے ۔
۲۔ وہ صفات کی معرفت رکھتے
ہیں۔
۳۔ عالم امر کے صادر العین کی
فہم رکھتے ہیں۔
۴۔ عین کی ترتیب اور تخلیق سے
واقف ہیں۔
۵۔ عالم امکان یا عالم خلق کی
مثالیت کے علوم پر انہیں پورا عبور حاصل ہے ۔
۶۔ عالم خلق یا عالم امکان کےاجزاءپر
عبور رکھتے ہیں۔
روحانی ملائکہ تین ، چار ، پانچ ،
چھ روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان کو عالم امر اور عالم خلق کی معرفت حاصل ہے ۔ ان کے
چار بازووں سے یہ روشنیاں مراد ہیں۔
سماوی ملائکہ عالم امر کی معرفت
رکھتے ہیں۔ ان کے اندر صادر العین اور عین کی روشنیاں مجتمع ہیں۔ سماوی ملائکہ تین
اور چار روشنیوں کا مجموعہ ہے۔
ادنی ملائکہ عالم خلق کے اجزا کی
تفہیم پر عبوررکھتے ہیں ۔ ہر مثالیت اور عنصریت کی یعنی پانچ اور چھ روشنیون کا
مجموعہ ہیں۔۔۔۔۔۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب
جنگ بدر میں مسلمانوں کے لئے دعا فرمائی تو اللہ نے اس دعا کو قبول کیا اور نظام
تکوین کے تحت ملا ءاعلیٰ نے دعا کی قبولیت کو ملائکہ روحانی تک پہنچایا ۔ ملائکہ
روحانی نے ملائکہ سماوی تک دعا کی قبولیت کا اعلان کیا اور چوتھے درجے کے فرشتے جن
کو ملائکہ عنصری بھی کہا جاتا ہے یہ پیغامات قبول کر کے کفر کے مقابل آ گئے اور
اس طرح اللہ نے نصرت اور فتح عطا فرما دی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔