Topics

صحابی جن حضرت سرقؓ

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مکہ کے سفر کے دوران مرا ہوا ایک سانپ دیکھا انہوں نے ایک کپڑے میں لپیٹ کر اسے دفن کر دیا۔

کان میں سرگوشی ہوئی ۔

                  حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے سنا تھا کہ سرقؓ گاوں کے ایک میدان میں وفات پائے گا اور میری امت کا بہترین شخص اسے دفن کرے گا ۔

                عمر بن عبدالعزیز نے پوچھا ! تم کون ہو؟

                آواز آئی ، میں نوع جنات میں سے ایک فرد ہوں اور یہ میرا ساتھی سرقؓ ہے ۔ جنات میں سے جن لوگوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت کی تھی ان میں سے اب میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا ۔

اللہ نے کُن فرمایا تو کائنات کی جو شکل و صورت اللہ کے ذہن میں تھی ، مظر بن گئی یعنی کائنات اللہ کے ذہن کا عکس ہے۔ اللہ کے ذہن کا عکس اس کی صفات ہیں۔

                کائنات میں جو کچھ ہے وہ زمین پرہو ، زمین میں ہو ، آسمانوں میں ہو یا کائنات کے کسی بھی گوشے میں ہو وہ اللہ کی صفت کا مظاہرہ ہے ۔ چونکہ کائنات اللہ کے ذہن کا عکس ہے اس لئے کائنات میں ہر مخلوق ہر ہر قدم پر خالق کائنات اللہ کی محتاج ہے۔

                اللہ کی صفات کا عکس رخ اول ہے اور خود کائنات جو ہر آن ہر لمحہ خالق کے کرم کی محتاج ہے، رخ دائم ہے ۔ ان دونوں رخوں سے کائنات میں تخلیقی عمل جاری ہے۔

                پہلا رخ یا مرحلہ کائنات کا اجتماعی شعور ہے ۔ دوسرا مرحلہ نوع ہے ۔ تیسرا مرحلہ نوع کے افرا دہیں۔ کوئی شخص اس کا نام کچھ بھی ہو اس کا وجود پہلے مرحلے کا عکس ہے، خواہ وہ فرد انسان ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، نباتات ہو، جمادات ہو یا پھیلی ہوئی کائنات میں کوئی کرہ ہو ۔

                کائنات میں ممتاز فرد انسان ہے جس کے بارے میں اللہ نے لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم فرمایا ہے۔

                قانون قدرت کے مطابق انسانی زندگی کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک ظاہری رخ اور دوسرا باطنی رخ ۔

                ظاہر رخ مادی آنکھ سے دیکھنے پر نظر آتا ہے ۔ جبکہ باطنی رخ روح کی آنکھ سے نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ باطن میں ہے وہی ظاہر میں ہے ۔ جو چیز باطن میں نہیں ہے وہ ظاہر میں بھی موجود نہیں ہے۔ گویا باطن رخ اصل ہے ۔ اور کسی شخص کا باطنی رخ ہی اس کی اصل اور روح ہے ۔ ظاہری حصہ یا ظاہری رخ زمانیت اور مکانیت کا پابندہے۔ باطنی حصہ میں زمان و مکان دونوں نہیں ہوتے۔ہم جب ظاہری رخ میں سفر کرتے ہیں تو فاصلے اور رفتار کے اعتبار سے اس میں کئی گھنٹے، کئی دن اور کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ لیکن باطنی رخ میں طویل سفرکی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہی مشاہدہ کے دوران کوئی پردہ حائل ہوتاہے۔

                کائنات کا ہر فرد لا شعوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ روشناس اور منسلک ہے ۔ اگر کوئی فرد سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت سے اس قانون سے واقف ہو جائے تو وہ ایک ذرے کی حرکت کو دوسرے ذرے  کی حرکت سے ملحق دیکھ سکتا ہے ۔ اس قانون کا شعور رکھنے والا انسان ہزاروں سال پہلے یا ہزارون سال بعد کے واقعات کا مشاہدہ کر سکتا ہے ۔ اس کا تجربہ نوع انسانی میں ہر فرد کو ہوتا رہتا ہے ۔ مثلا دن میں ہم سورج کو نو کروڑ میل دور دیکھتے ہیں اور ہر رات لاکھوں میل کے فاصلے پر ستارے ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ یہ نو کروڑ میل دیکھنا یا ستاروں کو لاکھوں میل کے فاصلے پر بغیر وقفے کے دیکھنا کائناتی شعور سے دیکھنا ہے۔

                سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشین گوئیوں میں یہی قانون نافذ ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام اللہ رب العالمین کے بھیجے ہوئے رحمت اللعالمین ہیں ۔ حضو رعلیہ الصلوۃ والسلام کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے تمام مخفی گوشوں سے پوری طرح واقف ہیں۔ کائنات کے ہر مخفی گوشہ سے واقف اور علم غیب کے امین ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کائناتی شعور استعمال کی تو ہونے والے واقعات ان کے سامنے آ گئے ۔


 

Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔