Topics
مدینہ کی طرف ہجرت
فرماتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو خزاعہ کی خاتون عاتکہ بنت خالد کے
خیمےکے پاس سے گزرے ۔ یہ خاتون ام معبہ کے نام سے مشہور تھی اور آنے جانے والوں
کو پانی پلاتی اور کھانا کھلاتی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے کی چوب سے
ایک بکری بندھی دیکھی ۔ دریافت فرمانے پر ام معبہ نے کہا ۔ یہ بکری
کمزور اور بیمار ہے ۔ ریوڑ کے ساتھ نہیں جا سکتی ۔ لاغری کے سبب دوسری بکریوں سے
پیچھے رہ جاتی ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
دریافت فرمایا کہ یہ دودھ دیتی ہے ۔ ام
معبہ نے جواب دیا اسے دودھ نہیں اترتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن طلب کر
کے دودھ دوہنا شروع کیا ۔ جب بوتن بھر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ام
معبہ کو پلایا پھر حضور نے اپنے ساتھیوں کو پلایا ۔ سب سے آخر میں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس دودھ کو خود نوش فرمایا ۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ کے پاس ایک
بکری اور کچھ بچا ہوا توشہ موجود تھا ۔ انہوں نے بکری کو ذبح کیا ان کی بیوی نے
آٹا پیس کر روٹی اور گوشت پکایا اور ایک پیالے میں ثرید تیار کیا ۔ حضرت جابرؓ
ثرید کا پیالہ لے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور علیہ
الصلوۃ والسلام نے حضرت جابرؓ سے فرمایا اے جابر ! اپنے ساتھیوں کو جمع کر اور ان کو
میرے پاس ایک ایک کر کے بھیج دے۔ حضرت
جابرؓ ایک ایک جماعت بنا کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھیجتے رہے ۔ سب نے
سیر ہو کر کھایا ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کھانے والوں سے صرف اتنا فرماتے تھے
کہ کھاو اور ہڈی نہ توڑو۔ سب لوگ جب ثرید کھا کر چلے گئے تو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے پیالے کے درمیان ہڈیوں کو جمع کیا اور ان پر اپنا دست مبارک رکھ کر
کچھ ارشاد فرمایا بکری کان ہلاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے
فرمایا ۔ جابرؓ اپنی بکری لے جاؤ۔
حضور قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ
علیہ نے روحانی علوم و قوانین پر مبنی کتاب لوح و
قلم میں لکھا ہے کہ میں یہ
کتاب پیغمبر اسلام حضور علی الصلوۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں ۔ مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے بطریق اویسیہ ملا ہے ۔ کتاب لوح و
قلم صفحہ ۱۲۱ پر معجزہ ، کرامت اور استدراج کے بارے
میں قلندر بابا اولیاؒ لکھتے ہیں کہ :
تجلی تنزل کر کے نور بنتی ہے اور
نور تنزل کر کے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے ۔ یہی مظہر شے ہے جو تجلی اور نور کی
مظہراتی شکل ہے ۔ باالفاظ دیگر تجلی تنزل کر کے نور بنی اور نور تنزل کر کے مظہر
یا شے بنا ۔ یہ مظہر تجلی اور نور سے تخلیق ہوا پھر نور اور تجلی ہی میں فنا ہو
گیا اور اگر اللہ چاہے گا تو اس نا موجود کو پھر موجود کر دے گا ۔ عارف علم شے میں
ہی تصرف کرتا ہے جس کا اثر شے پر براہ راست پڑتا ہے ۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں۔
۱۔ معجزہ
۲۔ کرامت
۳۔ استدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری
ہے ۔ استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ کسی
آدمی میں خاص وجود کی بنا پر پرورش پا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال حضور علیہ الصلوۃ
والسلام کے دور میں بھی پیش آتی ہے۔
اس دور میں صاف ابن صیاد نام کا
ایک لڑکا مدینہ کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں نے اسے
اچک لیا اور اس کی چھٹی حس کو بیدار کر دیا ۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا
اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا ۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان کر
دیتا۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروقؓ
سے فرمایا ، آو ، ذرا ابن صیاد کو دیکھیں۔
اس وقت وہ مدینہ کے قریب ایک سرخ
ٹیلے پر کھیل رہا تھا ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے سوال کیا ۔ " بتا! میں کون ہوں!"
وہ رکا
اور سوچنے لگا ۔ پھر بولا، " آپ امیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں
خدا کا رسول ہوں ۔"
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے
فرمایا ۔ "تیرا علم ناقص ہے ، تو شک
میں پڑ گیا ، اچھا بتا ! میرے دل میں کیاہے؟"
اس نے کہا ، "دخ
ہے "( ایمان نہ لانے والا) یعنی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاوں گا ۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے
فرمایا" پھر تیرا علم محدود ہے تو ترقی نہیں کر سکتا ۔
تو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے؟ "
حضرت عمر ؓ نے فرمایا ۔ " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں ۔"
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب
دیا ۔ "اے عمر ! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو
نہیں پا سکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے ۔ اس کو چھوڑ دو ۔"
غیب کی دنیا میں لفظ اور معنی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے
خواہ وہ وہم ہو ، خیال ہو یا احساس ، اگر کسی انسان کی چھٹی حس بیدار ہے تو اسکے
ذہن میں غیب بینی کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ عبرانی زبان میں نبی غیب بین کو
کہتے ہیں اور رسول غیب کے قاصد کو ۔ اسی ہی وجہ سے ابن صیاد حضور علیہ الصلوۃ
والسلام کے مرتبہ رسالت کو صحیح نہیں سمجھ سکا ۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ
حضور علیہ الصلوۃ والسلام غیب کے قاصد ہیں اور اس کی غیب کی روشناسی اپنی ہی حد تک
تھی یا ان اجنہ کی حد تک تھی جو اس کے دوست یا استاد تھے ۔ وہ ملائکہ کی سرگرمیوں
کا مشاہدہ کر سکتا تھا۔ بس یہیں تک اس کے فن کی رسائی تھی۔ جب اس نے حضور علیہ
الصلوۃ والسلام کو سمجھنے کی کوشش کی تو معرفت الہی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے حضور
علیہ الصلوۃ والسلام کو غیب کا رسول قرار دیا ۔ اس کی غیب بینی صرف اس حد تک تھی
کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایک امی قوم میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے معجزات کا
مظاہر امی قوم میں ہوا ہے ۔ اس فکر کے تحت اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو
امیوں کا رسول کہا ۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو استدراج کی حدوں میں
مقید دیکھا تو اس سے یہ سوال کیاکہ بتا
میرے دل میں کیا ہے جس کے جواب میں اس نے دخ کہا او رحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جب
یہ دیکھا کہ ابن صیاد کو معرفت حاصل نہیں ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ تو ترقی نہیں کر سکتا۔
چنانچہ ابن صیاد کی
طرف کسی بھی صاحب استداراج کو اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ علم استداراج اور
علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم
نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کر اللہ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔
علم نبوت کے زیر اثر
کوئی خارق عادت نبی سے صادر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اورجب کوئی خارق عادت
ولی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر
ہوتی ہے ۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے اثرات
بدلنے سے خود بہ خود ضائع ہو جاتا ہے ۔
استدراج کے زیر اثر
جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔