Topics
محمد رسول اللہ ایک
بار مجلس میں تشریف فرما تھے ۔ ایک اونٹ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا
اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنا سر رکھدیا ۔ حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے فرمایا یہ اونٹ اپنے مالک کی شکایت کر رہا ہے ۔ حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے اونٹ کو اس کے مالک سے خرید لیا۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایک
انصاری کے باغ میں گئے تو ایک اونٹ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ کر رونے لگا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور
اس کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرا ۔ اونٹ نے میٹھی میٹھی نظروں سے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے مالک کی شکایت کی ۔ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اونٹ کا مالک کون ہے ۔ ایک انصاری نوجوان سامنے آیا ۔ اس
نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اونٹ میرا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
کیا تو
اس چوپائے کے بارے میں جس کا اللہ نے تجھے مالک بنایا ہے ۔ اللہ کو حاضر و ناظر
نہیں جانتا۔ تیرے اونت نے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور کام زیادہ
لیتا ہے۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام ایک
وادی سے گزر رہے تھے کہ یا رسول اللہ کہہ کر
کسی نے پکارا ۔ سیدنا علیہ والصلوۃ والسلام نے دیکھا کہ ایک ہرنی بندھی ہوئی ہے ۔
اس کے قریب بدو سویا ہوا ہے ۔ ہرنی بولی ، یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
اس بدو نے مجھے پکڑلیا ہے ۔ سامنے پہاڑ میں میرے دو بچے بھوکے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر
کےلئے مجھے آزاد کر دیں میں بچوں کو دودھ پلا کر واپس آ اجاو ں گی ۔ حضور علیہ
الصلوۃ والسلام نے اس کی رسی کھول دی ۔ ہرنی وعدے کے مطابق بچوں کو دودھ پلا کر
واپس آ گئی ۔ آپ اسے رسی سے باندھ رہے تھے کہ بدو بیدار ہو گیا ۔ اس نے عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہرنی میں خوشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
ہدیہ کرتا ہوں ۔ آپ نے بدو سے کہا اسے آزاد کر دے ۔
٭٭٭
ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آزاد
ہونے کے بعد ہرنی قلانچیں بھرتی ہوئی پہاڑ کے دامن میں اپنے بچوں کے پاس چلی گئی ۔
کائنات میں ہر فرد ، قدرت کا بنا
ہوا ایک کمپیوٹر ہے ۔ اور اس کمپیوٹر میں کہکشانی نظاموں سے متعلق تمام اطلاعات
فیڈ ہیں اور کمپیوٹر ڈسک کی طرح یہ اطلاعات ہر کمپیوٹر میں ذخیرہ ہیں ۔ کہکشانی
نظاموں میں جاری و ساری یہ اطلاعات ، لہروں کی دوش پر ہمہ وقت سفر کرتی رہتی ہیں ۔
ہر موجود شے کا دوسری موجود شے سے لہرون کے ذریعہ اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے
۔ سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ اتنی تیز
رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے ۔ زمانی اور مکانی فاصلے
لہروں کی گرفت میں رہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے ذہن میں جنات ، فرشتوں اور آسمانوں
اور زمین سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ نہ ہو تو ، انسان فرشتوں ، جنات ، درخت ،
پہاڑ ، سورج اور چاند کا تذکرہ نہیں کر سکتا ۔ کہکشانی نظام اور کائنات میں جتنی
بھی نوعیں اور نوعوں کے افراد کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔ اسی
طرح ہماری زندگی سے متعلق تمام خیالات لہروں کے ذریعے ہر مخلوق کو منتقل ہوتی رہتے
ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات اس قانون سے واقف نہ ہوں۔
خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے ۔ ہم کسی آدمی یا
کسی مخلوق کے فرد سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ:
مخلوق کے فرد کی لہریں، ہمارے اندر دور کرنے والی لہروں میں جذب ہو رہی ہیں۔
انسان کا لا شعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل رابطہ رکھتا ہے ۔ اس ربط کے
ذریعے انسان اپنا پیغام کائنات کے ہر ذرہ تک پہنچا سکتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے
آگا ہ ہو سکتا ہے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان اس قانون سے واقف ہو جائے کہ کائنات
کی تمام مخلوق کا خیالات کی لہروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق ہے ۔ خیال
اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ زندگی سے قریب کرتی ہے یا دنیاوی زندگی
سے دور کردیتی ہے۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام
کائناتی زندگی اور کائناتی سسٹم کے امین اور اس پورے سسٹم پر حاکم ہیں۔ اونٹ نے جب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی درد بھری کہانی سنائی تو رحمۃ اللعالمین نے اونٹ
کے مالک سے فرمایا ۔ اونٹ تیری شکایت کرتا ہے کہ تو اسے پیٹ بھر کر غذا نہیں دیتا۔
تبادلہ خیال کے اس قانون کے تحت
ہرنی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بپتا سنائی ۔ اس قصہ میں یہ بات بھی توجہ
طلب ہے کہ چوپائے جھوٹ نہیں بولتے اور ایفائے عہد کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔