Topics
حضور علیہ الصلوۃ
والسلام غزوہ حنین سے واپس آ رہے تھے ۔ راستے میں نماز کا وقت آ گیا ۔ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم حسب دستور ٹھہر گئے ۔ موذن نے اذان دی ۔ ابو مخدورہ اپنے چند
دوستوں کے ساتھ قریب موجود تھے ۔ اذان سن کر انہوں نے استہزا کے طور پر چلا چلا کر
اذان کی نقل اتارنی شروع کی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آدمی بھیج کر ان سب
کو بلوایا ۔ جب وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے لائے گئے تو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان سب سے باری باری اذان کہلوائی ۔ ابو مخدورہ خوش الحان تھے اور ان
کی آواز بھی سب سے بلند تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا اور باقی
سب کو جانے کی اجازت دے دی ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو مخدورہ کو
اپنے سامنے بٹھا لیا اور پیشانی سے چہرے تک ہاتھ پھیرتے ہوئے سینے تک لائے اور
سینے سے پیٹ ، کلیجے اور ناف تک ہاتھ پھیرا ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
دعا فرمائی: اللہ تعالی تجھے برکت عطا فرمائے اور تجھ پر
اپنا فضل و کرم کرے ۔ جاو حرم شریف میں اذان دو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔