Topics
غزوہ حنین کے موقع
پر شیبہ بن عثمان نے ( جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے ) حضورعلیہ الصلوة
والسلام کو تنہا دیکھا تو انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے والد اور
چچا یاد آئے ، شیبہ نے سوچا آج انتقام کا اچھا موقع ہے ۔ انہوں نے دائیں طرف سے
حضورعلیہ الصلوة والسلام پر حملہ کرنا چاہا تو دیکھا کہ حضورؐ کی دائیں جانب حضرت
عباس ؓ کھڑے ہیں ۔ بائیں طرف سے حملے کا ارادہ کیا تو قریب پہنچنے پر ابو سفیان ؓ
بن حارث بن عبدالمطلب کو بائیں طرف دیکھا۔ وہ پیچھے ہٹ آئے اور پشت سے تلوار چلانے
کا ارادہ کیا تو بھڑکتی آگ کے شعلے درمیان میں حائل ہو گئے ، آنکھیں چندھیا گئیں ۔
وہ ڈر گئے کہ آگ انہیں اندھا کر دے گی ۔ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر الٹے پاﺅں پیچھے کی طرف بھاگے۔
حضورعلیہ الصلوة والسلام نہایت سکون اور اطمینا ن سے کھڑے شیبہ کی یہ تمام حرکات
دیکھ رہے تھے ۔ جب وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر الٹے پاﺅں پیچھے کی طرف
بھاگے تو حضورؐ نے انہیں بلایا ۔ اے شیبہ ! اے شیبہ !" میرے قریب آؤ" اور ساتھ ہی
حضور ؐ نے دُعا کی ۔" اے اللہ شیبہ سے
شیطان کو دور فرما دے ۔ شیبہ بن عثمان نے
حضورؐ کی طرف دیکھا تو ان کی دنیا بدل گئی
اور انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز اور پیارے ہو گئے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔