Topics

نماز کے ہوتے ہوئے مراقبہ کی کیا ضرورت ہے


                اس تقریر دل پذیر کے بعد سوال جواب ہوئے۔ لوگوں نے مختلف سوال پوچھے۔  جس جس کے ذہن میں جہاں کوئی الجھن، کوئی رکاوٹ تھی، کسی بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری تھی یا بات کی وضاحت درکار تھی، اس نے سوال پوچھے۔ زیادہ تر سوال نماز کے متعلق پوچھے گئے۔ لوگوں کو الجھن یہ تھی کہ نماز کے ہوتے ہوئے مراقبہ کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر ایک ہی جواب کی تکرار کہ مراقبہ یکسوئی کو کہتے ہیں۔ آپ کو یکسوئی حاصل ہو گئی تو آپ مراقبے میں ہیں۔ آپ نماز پڑھیں، اگر یکسوئی ہے تو نماز ہی مراقبہ ہے۔ آپ کا دھیان بٹا ہوا ہو تو آپ کوئی کام نہیں کر سکتے۔ آپ کی توجہ کام پر مرکوز نہ ہو تو آپ وہ کام اول تو کر ہی نہیں سکتے اور اگر آپ خود کو ماہر مانتے ہوئے اس کو کر بھی لیں تو وہ ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی نہ کوئی کمی یا خامی رہ جائے گی۔ توجہ کا ایک نکتہ پر مرکوز ہونا ہی مراقبہ ہے۔ آپ اس کی الگ سے مشق اس لئے کرتے ہیں تا کہ کام کے دوران اس کی افادیت سے بہرہ مند ہو سکیں۔ آپ یہ مشق اس لئے نہیں کرتے کہ اصل کام کرنا ہی چھوڑ دیں۔ کچھ کو سمجھ آئی، کچھ کو نہیں۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں پڑی گرہیں معاشرے میں پھیلے عقائد کے طفیل اتنی کسی ہوئی ہوتی ہیں کہ ان کو کھلنے میں وقت لگتا ہے۔

                آپ نماز مغرب کے بعد انفرادی مسائل کے حل اور علاج معالجے میں مصروف ہو گئے۔ ہم آئے ہوئے لوگوں سے ملنے ملانے میں اور اراکین مراقبہ ہال رات کے کھانے کا انتظام کرنے میں۔

                رات کھانے کے بعد لوگ رخصت ہوتے چلے گئے۔ حاجی صاحب نے انتظام یہ فرمایا کہ ابا حضور کے ہمراہ چار پانچ افراد کو لے کر وہ میر پور میں ایک سیرگاہ چلے آئے۔ اس کا مقصد ان کے ذہن میں یہی رہا ہو گا کہ حضور مرشد کریم صبح سے مصروف رہے ہیں، کچھ چہل قدمی ہو جائے گی، کچھ سیر ہو جائے گی۔ اس ادا کو سب نے بہت سراہا۔ حاجی صاحب میں یہ خوبی ہے کہ وہ پس منظر میں رہتے ہوئے پیش منظر کو سنوارنے نکھارنے میں لگے رہتے ہیں۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔