Topics
حاجی صاحب نے کہا کہ اب کھانا لگا دیا جائے۔ ہم باورچی خانے سے باہر آئے۔ ابا
کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ اندر سے کسی کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔ دروازے
کے قریب ہوئے تو اندازہ ہوا کہ کوئی اونچی آواز سے پڑھ رہا ہے۔ جھانک کر دیکھا تو
مرشد کریم تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور ایک بھائی روحانی ڈائجسٹ سے کوئی مضمون
پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ مضمون کسی بکرے کے بارے میں تھا جس کو انسانی شعور مل جاتا ہے
اور وہ انسانوں ہی کی طرح سوچتا ہے۔ مضمون سن کر مرشد کریم نے کہا:
’’بھئی! اچھا لکھا ہے۔‘‘
حاجی صاحب نے کھانے کی بابت اطلاع دی کہ دسترخوان پر انتظار ہو رہا ہے۔ آپ
اٹھ کر چل دیئے۔ کمرے کی ایک کھڑکی سے مراقبہ ہال کا گیٹ اور باہر کا لان نظر آ
رہا تھا اور ایک خوبصورت منظر سامنے تھا۔ ساتھ ہی ہال کمرے میں کھانے کے لئے
دسترخوان بچھا ہوا تھا۔
کھانے کے دوران خاموشی ہی رہی۔ کھانے کے بعد حضور اٹھ کر ہاتھ دھونے چلے گئے۔
پھر آرام کرنے اپنے کمرے میں۔ ہم سب وہیں دراز ہو گئے۔ ذہن میں سرور اور خمار کے
تاثر کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ آج مجھے پشاور سے نکلے
کتنے دن ہو گئے۔ نہ تو بیوی بچوں کی یاد آ رہی ہے اور نہ ہی کاروبار کا خیال ستا
رہا ہے۔ کوئی وسوسہ، کوئی منفی خیال، کچھ بھی تو نہیں۔ میں کیا ممتاز علی صاحب کی
بھی یہی حالت تھی۔ وہ مجھے یاد دلاتے بھی کہ آپ کا تو اپنا کاروبار ہے ہمارا تو
ملازمت کا معاملہ ہے مگر ذہن میں کوئی خدشہ کوئی اندیشہ ابھرتا ہی نہیں تھا۔ ایک
بار حضور مرشد کریم ہی نے فرمایا تھا کہ انہوں نے اپنے مرشد حضور قلندر بابا اولیاء
سے اللہ والوں کی پہچان کی بابت سوال کیا تھا تو اس کے جواب میں حضور قلندر بابا اولیاء
نے ان سے ارشاد فرمایا تھا:
’’آپ پندرہ منٹ اس کے پاس بیٹھیں، اگر ان پندرہ میں سے بارہ منٹ تک آپ کو دنیا
کا خیال نہ ستائے، وسوسے اور پریشانی کا دھیان نہ آئے تو سمجھ لیں کہ وہ بندہ
اللہ والا ہے ورنہ نہیں۔‘‘
اس کی توجیح اور تشریح میں میرے مراد نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بندہ اتنا یک
سُو ہوتا ہے کہ جب آپ اس کے قریب جاتے ہیں تو آپ بھی یک سُُو ہو جاتے ہیں اور میں
اس بات کو کچھ یوں سمجھا تھا کہ یک سوئی سے آپ کے اندر ایک مقناطیسی میدان پیدا
ہو جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا ذہن اس میدان میں داخل ہوتا ہے تو اس مقناطیسی طاقت کے
زیر اثر وہ بھی یک سو ہو جاتا ہے اور یہ یک سوئی کا ہی تو اعجاز ہے کہ بندے پر
سکون کی بارش ہوتی ہے۔ کوئی وسوسہ، کوئی اندیشہ، کوئی پریشانی، کوئی انتشار اور
کوئی خلفشار اس بندے کو پریشان نہیں کر سکتا۔
شام کو عصر کے بعد دھوپ ڈھلنے پر لان میں نشست ہوئی۔ مرشد کریم نے گذشتہ روز ہی
کی طرح مختلف لوگوں سے کتاب میں سے پڑھوایا۔ اس کے بعد بیگم سعیدہ اور ادریس صاحبہ
سے عورتوں کے علاج معالجے اور انہیں مراقبہ کروانے کی بابت کہا۔ یہ اعزاز ان کو
حاصل ہونا تھا کہ وہ وہاں پہ خواتین کے مراقبہ ہال کی انچارج بنیں۔ آج صبح ہی حاجی
ادریس صاحب ہمیں رلیفلیکسولوجی کے حوالے سے علاج معالجے میں نئی تحقیقات کی روشنی
میں اپنی معلومات سے مستفید فرما رہے تھے۔ اس دوران میں انہوں نے اپنے علاقے کے
لوگوں کے ذہنوں میں محدودیت اور ضرورت سے زیادہ تنگ نظری کا گلہ کیا کہ کس طرح
وہاں کے لوگ خواتین میں روحانی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ نماز میں کوتاہی یا سستی پر
کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ ان سے ان کی عمر دریافت کی اور جب انہوں نے بتایا کہ وہ
پچاس سال کے ہو چکے ہیں تو یقین نہ آیا۔ میرے اندازے کے مطابق ان کی عمر چالیس سے
کسی طور پر زیادہ نہ تھی۔ ان کی صحت مندی اور جوانی کا راز مراقبے کے علاوہ یوگا کی
وہ ورزشیں بھی رہی تھیں جو وہ اپنی جوانی میں کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ
جرمنی میں رہے۔ وہاں کتنا عرصہ گزار کر اس پہاڑ کو کاٹنے اس ملک میں آئے۔ اس پہاڑ
سے ان کا اشارہ مراقبہ ہال والی پہاڑی کو کاٹنے کی طرف تھا۔ فرہاد کی طرح جوئے شیر
لانے کو وہ کوئی اور پہاڑ کاٹ رہے تھے یا فقیری کے پہاڑ سے نبرد آزمائی کا کہہ
رہے تھے یا ان کے پیش نظر کوئی اور پہاڑ تھا، میں نے وضاحت نہ چاہی کہ زندگی بھی
تو ایک پہاڑ ہی کی مانند ہے۔ لوگ اس کی سیر کرنے آتے ہیں اور گزارنے والا اس کو
کاٹ رہا ہوتا ہے۔
زیادہ تر لوگوں کے سوال نماز کی بابت تھے۔ ایک سوال یہ ہوا کہ نماز کے بعد
مراقبہ کی کیا ضرورت؟ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا:
’’مراقبہ کا مطلب ہے سوچ بچار۔ غور و فکر۔ کسی درخت کی بابت سوچنا بھی مراقبہ
ہے۔ آپ نماز میں اللہ اکبر کہہ کر۔ خدا کی بڑائی مان کر اللہ پر جتنا بھی غور و
فکر کریں گے وہی مراقبہ ہے۔ نماز بھی درحقیقت مراقبہ ہی ہے۔ روزہ بھی مراقبہ ہے۔
روزہ کی جزا خود اللہ ہے اور اللہ کی طرف ذہنی طور پر شعوری اور لاشعوری طور پر
متوجہ رہنا ہی مراقبہ ہے۔ آپ جتنا زیادہ گہرائی میں جائیں گے جتنا زیادہ آپ Concentrationکریں گے اتنا ہی آپ اللہ کے قریب ہو جائیں گے۔ جب کوئی آدمی مادی جسم کے خول
سے بے نیاز ہو کر غور و فکر کرتا ہے تو وہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے۔ روح کا
کوئی نام نہیں ہوتا۔ روح کو تلاش کرنا ہی مراقبہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
ارشاد ’’مومن کو مرتبہ احسان حاصل ہوتا ہے‘‘ میں نمازی کے مراقبے ہی کی جانب اشارہ
ہے۔ انہوں نے ہمیں اسی مراقبے کی کیفیت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ بندہ جو مومن
ہوتا ہے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی طرف متوجہ رہتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔