Topics
اپنے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء کا ایک واقعہ سنایا کہ حضور رات بھر
جاگتے اور تکوینی کاموں میں مصروف رہتے۔ صبح اذان کے بعد میں ان کو چائے پیش کیا
کرتا۔ ایک بار جب میں چائے لے کر حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور کے چہرے سے مسرت پھوٹی
پڑ رہی ہے۔ میں نے عرض کی:
’’حضور آج آپ بہت خوش ہیں۔‘‘
فرمایا:’’خواجہ صاحب آپ سمجھیں گے بھی یا نہیں۔ رات اللہ سے ملاقات ہوئی مجھے
گلے لگا کر کر کہا کہ میری جان تو کہاں ہے؟‘‘
مرید کے ذہن میں تجسس لہرایا۔ اس نے سوال کیا:
’’حضور قلندر بابا اولیاء نے یہ کیوں فرمایا کہ آپ سمجھیں گے بھی یا نہیں؟‘‘
جواب میں ارشاد ہوا:
’’بھئی! یہ الہامی انداز کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار قرآن میں فرمایا ہے
’’وما ادرک‘‘ کسی بات کو سمجھانے اور متوجہ کرنے کے لئے ہی تو کہا جاتا ہے کہ ’’تم
کیا سمجھے؟ تم سمجھو گے نہیں۔‘‘اس آیت کی وجہ تسمیہ بھی صاف ہوئی۔
مرید نے دوسرا سوال عرض کیا:
’’اور حضور سے یہ کیوں کہا کہ تو کہاں ہے؟‘‘
یعنی کیا اللہ کو یہ معلوم نہ تھا کہ حضور کہاں ہیں؟ اس پر میری سوچوں کی حدوں
سے ماورا سطح رکھنے والے مراد نے انتہائی سادگی اور بھولپن کے انداز میں وضاحت کی:
’’یہ پیار کا طرز تخاطب ہے۔ جب آپ کسی عزیز دوست سے ملتے ہیں۔ خواہ کچھ ہی دیر
پہلے اس سے مل چکے ہوں آپ کہہ گزرتے ہیں، ’’اماں یار کہاں ہو تم؟‘‘
مرید نے اپنے ذہن میں ان دوستوں کو یاد کیا۔ جن کے لئے خود اس نے یہ جملہ کہا
تھا اور حیران ہوا کہ یہ صحبت یار کی طلب ہی تو تھی جو یہ جملہ کہلواتی ہے۔
نور حسن جان صاحب بھی ملاقات کے لئے آئے تھے۔ باتوں کے دوران میں انہوں نے نیاز
صاحب کی چارسدہ پوسٹنگ ہونے کی بات کی اور کہا کہ آپ دعا کریں کہ نیاز صاحب کی
پوسٹنگ واپس پشاور ہو جائے۔ اس سے یہاں کے کاموں میں مدد ملے گی۔ سن کر ایک لحظہ
توقف کیا اور پھر ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے کہ ایک آدمی جگہ خالی کرتا ہے تو
اس کی جگہ چالیس آدمی اس جگہ کو پر کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک الگ بات
ہے کہ اس کی جگہ پہلے سے بہتر آدمی آتا ہے یا نہیں۔ یہ قانون ہے۔‘‘
فرمایا:’’نیاز بھائی کو آرام ملے گا اور یہاں کے لڑکوں کو خود کام کرنا پڑے
گا تو ان کی تربیت ہو گی۔‘‘
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔