Topics

صوت سرمدی کیا ہے؟


                فضا میں رات کی آوازیں پھیلتی چلی جا رہی تھیں۔ کہیں مینڈک ٹرا رہے تھے اور کہیں جھینگر بول رہے تھے۔ ہم اپنے مراد کے ہمراہ پشاور کے تاتارا پارک میں گھوم رہے تھے۔ مرشد کریم نے حیات آباد کے اس پارک کو پسند کیا اور فرمایا یہ مینڈک اور جھینگر دن میں نہیں بولتے بلکہ دن میں تو نظر بھی نہیں آتے۔ ان کی آوازیں رات کے حواس سے متعلق ہیں۔ جب حضورﷺ پر وحی آتی تھی تو وہ بھی پہلے گھنٹیوں اور جھینگروں کی آوازیں سنا کرتے تھے، جھینگر کی آواز تو خصوصاً رات کے حواس میں سے ہے۔

                مرید نے عرض کی:

                ’’حضور میرے کانوں میں تو یہ آواز دن رات گونجتی رہتی ہے۔‘‘

                فرمایا:’’آپ تو رہتے ہی ماورائی دنیا میں ہیں۔‘‘

                اس پر ایک بہت پرانا سوال امڈ کر سامنے آ گیا سو وہی عرض کیا گیا:

                ’’یہ صوت سرمدی کیا ہے؟‘‘

                فرمایا:’’اللہ کی آواز کو صوت سرمدی کہتے ہیں۔ جس نے ایک بار وہ آواز سن لی، وہ عمر بھر اسی چکر میں رہتا ہے کہ کسی طور اس کو دوبارہ سنے۔‘‘

                پھر کچھ توقف کے بعد فرمایا:

                ’’سننے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ دیکھنے والے زیادہ اور وہ خوش نصیب تو بہت ہی کم ہیں جو اس کو مسلسل سنتے رہتے ہیں۔‘‘

                صبح پشاور مراقبہ ہال پہنچا تو مراقبہ ہو چکا تھا۔ دیکھا کہ مرشد کریم نیاز صاحب کے ساتھ گیٹ پر ہی کھڑے ہیں۔ گیٹ سے باہر سینماؤں کی بڑی بڑی تصاویر دیکھ کر نیاز صاحب کو چھیڑتے ہوئے کہا:

                ’’نیاز بھائی! آپ کے ہاں لوگ کچھ زیادہ ہی صحت مند ہوتے ہیں۔‘‘

                ایک ساتھی رہ نہ سکے عرض کی:

                ’’یہ بڑا گوشت کھانے کے سبب ہے۔‘‘

                فرمایا:’’سبب ہے یا انجام؟‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔