Topics
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
اور بات پر آں ٹھہر گئی۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ
جس نے سبق یاد کر لیا اس کو ہی چھٹی نہ ملے۔ میرے اندر کے میں نے جواباً کہا۔ ہاں
ہے تو۔ اس پر ہم دونوں میں بات شروع ہو گئی۔ بہت باتیں ہوئیں۔ میں نے بھی بہت سر
لڑایا۔ اس نے بھی بہت زور مارا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس قسم کی دھاندلی
ہے کہ جو نمانڑا سبق یاد کر لے اسی کو چھٹی نہ ملے۔ یعنی یہ سبق یاد نہ کرنے کی
تلقین کر رہے ہیں لیکن جب توجہ مکتب عشق کے دستور پر جاتی تو اور الجھن ہوتی کہ
عشق سے باز کرنا تو بہرحال مقصد و مدعا نہ ہو گا۔ بالآخر اگلی نشست پر بیٹھے
استاذ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بجائے بات کا جواب دینے الٹا مجھ ہی سے پوچھ لیا۔
’’آپ کہاں تک سمجھے؟‘‘
میں چونکا تو کیا آپ
میرے اندر کی گفتگو دوسروں کو بھی سنوانا چاہتے ہیں۔ بہرحال عرض کی:
’’عشق میں علم کی نفی
کر دینا لازم ہے لہٰذا جو سبق یاد ہو گا وہ علم بننے کے سبب مکتب عشق کے دستور کے
مطابق اب نفی کا پابند ہو گیا۔ اب جو کچھ پڑھا اس کی نفی ہو جائے تو بندہ کورے کا
کورا رہ گیا اور اسے پھر سے پڑھنا لازم آ گیا۔‘‘
میں آپ کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ آپ نے رخ بدل کر چہرہ ہماری
جانب کیا اور فرمایا۔
’’اس شعر میں مکتب عشق سے مراد خانقاہی نظام ہے۔ جب مرید کو مراد کا ذہن اور طرز
فکر حاصل ہو جاتا ہے تو گویا سبق یاد ہو گیا۔ یہاں دستور سے مراد طرز فکر ہے۔ اب
وہ کسی اور کام کا کہاں رہا۔ وہ تو اپنے مرشد کے کام سے لگ گیا۔ وہ ایک بھنور میں
داخل ہو گیا جس سے نہ وہ خود باہر نکلنا چاہتا ہے اور نہ نکل سکتا ہے۔ آپ ایک
تالاب میں کنکر پھینکیں۔ لہریں پھیلیں گی تو آخر کہاں تک۔ اسی تالاب کے اندر ہی
ان کا جینا اور مرنا ہے۔ وہیں فنا ہو جائیں گی۔ جیسے تالاب میں اٹھنے والی لہر
کناروں سے ٹکرا کر واپس تالاب میں پلٹ جاتی ہے اسی طرح مرید کی ہر سوچ ہر فعل اور
ہر عمل ایک لہر کی طرح اپنے تالاب کے کناروں سے ٹکرا کر واپس پلٹتی رہتی ہے۔‘‘
میرے اندر کے مقصود کو ایک لولی پوپ مل گیا اور اسے چوسنے لگا اور اسی میں مگن
ہوتا چلا گیا۔ گاڑی چلے جا رہی تھی۔ خیالات کی رفتار جو گاڑی کی رفتار سے ہم آہنگ
ہوا کرتی ہے، آج معدوم تھی۔ میں ایک ہی خیال کا جھولا جھولنے میں لگا ہوا تھا۔ جس
کو سبق یاد ہو گیا اس کو چھٹی کر کے کیا کرنا ہے۔
ایک بار بچپن میں میرا بازو ٹوٹ گیا۔ ہسپتال میں پلستر چڑھانے سے پیشتر سفید
لباس میں سفید ٹوپی پہنے مشن ہسپتال کی نرس نے ماسک میرے منہ پر رکھتے ہوئے مجھے
تسلی دی اور گنتی سنانے کو کہا۔ گنتی آٹھ نو کے بعد بارہ پندرہ سولہ اٹھارہ ہوئی
تو مجھے یوں لگا جیسے گھومنے والے جھولے پر چک پھیریاں لے رہا ہوں۔ جھولا تیز سے تیز
تر ہوتا چلا جا رہا تھا، وہاں جھولے سے نیچے ایک بچہ کھڑا تیز سیٹی جیسی آواز
نکال رہا تھا۔ جب میں گھومتا ہوا اس کے پاس سے گزرتا تو وہ آواز تیز ہو جاتی اور
میرے دور ہٹنے کے ساتھ ساتھ وہ آواز مدہم ہو جاتی۔ پھر تیز ہوتی اور پھر مدہم ہوتی۔
یہ آواز سنتے سنتے میں جب ہوش میں آیا تو میرا ٹوٹا ہوا بازو جڑ چکا تھا اور اس
پر پلستر ہو چکا تھا۔ بالکل کچھ ایسی ہی کیفیت میں، میں یہ آواز سنتے سنتے، جس کو
سبق یاد ہو گیا، اس کو چھٹی کر کے کیا کرنا، جب ہوش میں آیا تو گاڑی ایک چھوٹی سی
مسجد کے پاس مغرب کی نماز کے لئے رکی ہوئی تھی۔ میرے مراد، حاجی ادریس اور ممتاز
علی صاحب کے ہمراہ تنگ راستے والی مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔
میں مسجد کی طرف لپکا۔ جب میں مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ موزے اتار رہے ہیں۔
سفید رنگ کے تولیے کی بر والے موزوں سے پیر باہر آئے تو اس ملگجے سے اندھیرے میں
بھی مجھے اپنے مراد کے پاؤں گورے گورے سے لگے۔ انہوں نے وضو کیا۔ ہم وضو کرنے بیٹھے
تو انہوں نے نماز آغاز کر دی۔ ہم تینوں نے بھی نماز ادا کی۔ دوران نماز مجھے
احساس ہوا کہ مسجد میں برقی رو نہیں ہے اور ایک لالٹین کی روشنی اجالا کئے ہوئے یا
اندھیروں کو دور رکھے ہوئے ہے۔ اندھیروں کو دور رکھنا اتنا مشکل بھی نہیں شرط صرف
دیا جلانے کی ہے۔ میں نے اپنے آگے کھڑے لائٹ ہاؤس کو دیکھا اور سوچا۔
لوڈشیڈنگ نے کینڈل لائٹ نماز ادا کروا دی۔ عقب میں پڑی لالٹین کے باعث ہمارے
سامنے ہمارے سائے ہمارے رکوع و سجود کے سبب گھٹ بڑھ رہے تھے۔ میں اپنے گھٹتے بڑھتے
سایوں کو دیکھ رہا تھا۔ شام کے جھٹپٹے میں مسجد کے اندر ایک عجیب سا ماحول در آیا۔
پر اسرار سا۔ پر اسراریت کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ شاہ عبدالعزیز کی مسجد میں
جن کا ایک بچہ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ہاتھ لمبا کر کے چراغ گل کر دیتا ہے۔ کیا میرا
سایہ لمبا ہو کر میرے مراد کے سائے میں جذب ہو سکتا ہے۔ خیال میں آیا اس کے لئے
ضروری ہے کہ تم مرشد کے پیچھے ایسی جگہ کھڑے ہو جاؤ جہاں سے تمہارا سایہ ان کے سایے
سے جا ملے، شرط صرف پیچھے کھڑے ہونے کی ہے اور یہ بات سمجھنے کے بعد عمل کرنے سے
تعلق رکھتی ہے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔