Topics

جلوہء جاناں


                ایک بار بات ہو رہی تھی۔ شریعت کے حوالے سے کہا کہ

                 ’’یہ سب بھی محدودیت ہے۔ آپ آخر جنت میں کیا کریں گے! وہاں اتنی لمبی زندگی ہے نہ ختم ہونے والی وہ کیسے گزاریں گے! یہ دماغ ساتھ جائے گا نہیں، وہاں کریں گے کیا؟ آخر کتنا سوئیں گے؟‘‘

                 مجید صاحب نے کہہ دیا ’’وہاں بھی آپ کی مجلس میں بیٹھیں گے۔ آپ کی باتیں سنیں گے۔‘‘

                سب ہنس دیئے۔

                 فرمایا۔’’آپ تو بہت حاضر جواب نکلے۔ لیکن میرا سوال اپنی جگہ۔ بھئی وہاں کی زندگی کے لئے بھی تو کوئی مصروفیت ہونا چاہئے۔‘‘

                 بعد میں مجید صاحب کی خوشی دیدنی تھی یوں لگتا تھا انہیں تو جنت ہی مل گئی ہو۔ مرشد سے بات ہو گئی۔ مرشد نے ان کو براہ راست مخاطب کر دیا تھا۔ وہ ایک اور ہی عالم میں تھے۔ جس بھائی سے مل رہے ہیں گلے لپٹا رہے ہیں۔ خوشی کے اظہار کا یہ بھی ایک انداز ہے۔

                کچھ اصحاب کو میں نے اپنے مراد کے عشق کا شکار پایا۔ اس عشق کا شکار ہونے والے عجیب تو خیر نہیں مگر کچھ بدلے بدلے سے لگتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو مرشد کے قریب رہنے کو کاروبار، بیوی بچوں، عزیز و اقارب، دوست رشتے دار سب پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس عشق و محبت کے میں نے اس سفر میں بہت سے رنگ دیکھے ہیں، کچھ ہلکے، کچھ گہرے اور کچھ کاٹ دینے والے۔

                ایک صاحب بہت عرصہ بعد نظر آئے ان سے پوچھا۔

                ’’ابا کو آئے اتنے دن ہو گئے، آپ نظر ہی نہیں آئے۔‘‘

                 وہ ہنس کر بولے۔

                ’’کیسے آؤں؟‘‘

                دریافت کیا۔’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

                کہنے لگے۔’’مجھ میں برداشت نہیں۔ میں تاب نہیں رکھتا۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں رہی۔‘‘

                ’’کیسی برداشت۔ کیسی تاب اور کیسی سکت؟‘‘ میں نے بہت حیرانی سے پوچھا۔

                فرمایا۔’’آپ صورت سے اتنے بھی سادہ نظر نہیں آتے۔‘‘

                جب کوئی ایسی بات کہہ دی جائے جو میری سمجھ سے باہر ہو اور اگلا توقع کر رہا ہو کہ میں بن کہے سمجھ لوں گا تو میں گڑبڑا کر رہ جاتا ہوں۔ سو اس وقت بھی یہی ہوا۔ میں ان کے چہرے پر تڑخنے کی آثار تو دیکھ رہا تھا مگر سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے محبوب کے قریب آ کر بھی یہ اتنے ٹوٹے ٹوٹے سے کیوں لگ رہے ہیں۔ عجیب سے لہجے میں فرمایا۔

                ’’میں اپنے محبوب کا جلوہ برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھ میں اپنے علاوہ دوسرے عاشقوں کو برداشت کرنے کی تاب نہیں۔ میں خود میں اتنی سکت نہیں پاتا کہ حضور کے روبرو کھڑا رہ سکوں۔ آپ لوگ تو نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ میں بارود ہوں، جو پھٹ جائے گا۔ آپ نہ جانے ان کے ارد گرد اتنے چاہنے والوں کا ہجوم کیوں کر برداشت کر لیتے ہیں۔ مجھ سے یہ سب نہیں سہا جاتا۔ میں تو لوگوں کو ان کی طرف تکتے دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی میرے کلیجے کو اپنی مٹھی میں لے کر مسل رہا ہو۔ یہاں تو میں رسم دنیا نبھانے کو آ جاتا ہوں۔ ورنہ میں تو اپنے علاوہ کسی کے ان کو دیکھنے تک کا روادار نہیں۔ مجھے تو آپ بھی برے لگتے ہیں۔‘‘

                اور یہ کہہ کر وہ مجھ سے دور ہٹ گئے۔ میں ان کی آنکھوں کے سرخی اور سوجن کا راز جان کر سناٹے میں رہ گیا۔ مجھے ان کے منہ سے اپنا برا لگنا سن کر خود پہ ناز سا ہوا۔

                میرے مراد کے گرد جمع ہونے والے لوگوں میں ان کے علاوہ ایک اور قسم کے لوگ بھی آتے ہیں۔ علم کی پیاس اور مرشد جیسا بننے کا لپکا ان کو دوسرے سے منفرد اور ممتاز بنا دیتا ہے۔ یہ ان کی باتوں میں ڈوب کر مفہوم کے موتی چنتے، ان کی توجہ سے اپنے وجود کو سیراب کرتے اور مرشد کریم کی خوشنودی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی صورتوں، عادتوں اور مزاجوں پہ ان کے مرشد کی گہری چھاپ نظر بھی آتی ہے اور محسوس بھی ہوتی ہے۔

                مرشد نے ہر طرح کے لوگوں کو ان کی ذہنی سکت، افتاد طبع، ذوق و شوق اور ضرورت کے مطابق سیراب کرنا ہوتا ہے۔ ان کی اپنی زندگی کے تمام تر معمولات میں اولیت لوگوں کے لئے کرنے والے کاموں کی ہے۔ براہ راست علاج معالجے، مشورے اور مسائل کے حل کے علاوہ ہر ماہ لاکھوں خطوط کا جواب لکھنا، لکھانا۔ روحانی ڈائجسٹ کے لئے مضامین لکھنا، رسالے کے امور کی نگرانی کرنا۔ اشاعتی ادارے کے معاملات، دواخانے میں ادویات کی تیاری کے مختلف مراحل پر جانچ اور پڑتال، مراقبہ ہالوں کے امور پر براہ راست ہدایات یہ سب کام ملکی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر کرنا اور پھر ان سب کاموں سے بڑھ کر اپنی روحانی اولاد کی تربیت کرنا، ان میں پیغمبرانہ طرز فکر منتقل کرنا، یہ سب کام کرنے کے لئے جتنی غیر معمولی اور ماورائی ہمت، طاقت اور توانائی چاہئے اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ کہیں تربیتی سیمینار منعقد ہو رہے ہیں تو کہیں ورکشاپس کا اہتمام ہے۔ کہیں بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کر کے سلسلے کے پیغام، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو پھیلایا جا رہا ہے۔ جب آپ کی توجہ اپنے مرشد کے کئے گئے کاموں کے حوالے سے ان کی قامت پر جاتی ہے تو ایک طرف تو آپ اس عظیم بندے سے تعلق پر نازاں ہوتے ہیں اور دوسری طرف ایک بہت ہی گہرا احساس آپ کے اندر اپنی بے مائیگی اور کمزوری کا پیدا ہوتا ہے۔ آپ خود کو ان کے سامنے اتنا چھوٹا اتنا کمتر اور اتنا عاجز محسوس کرتے ہیں کہ انہیں آپ پر پیار آجاتا ہے۔ وہ آپ کو کسی بھی طرح یہ باور نہیں ہونے دیتے کہ وہ کتنے بڑے، کتنے رفیع الشان ہیں۔ وہ اپنے مقام سے محض آپ کی دلجوئی کی خاطر اتر کر آپ کے قریب آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ سے بات کرتے ہیں۔ سرگوشی کرتے ہیں اور بعض اوقات تو چھیڑ چھاڑ بھی۔ ایک روز ارشاد فرمایا۔

                ’’یہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کا اعجاز ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی طرز فکر بہت جلد بدل جاتی ہے۔ طرز فکر میں تبدیلی سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اگر کسی کی طرز فکر میں چھ ماہ میں بھی تبدیلی نہیں آتی تو اسے چاہئے کہ وہ ہمیں چھوڑ دے۔ ہمارے یہاں نسبت بہت قوی ہے۔ یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچنے میں درمیانی واسطے کم ہیں اور پھر اس سلسلہ پہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خصوصی عنایت ہے۔ وہﷺ اس سلسلے کے معاملات کی براہ راست نگرانی فرماتے ہیں۔‘‘

٭٭٭٭٭

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔