Topics
شاہین صاحب کے گھر سے مراقبہ ہال کی طرف جاتے ہوئے گاڑی میں میاں صاحب نے کوئی
بات دریافت کی۔ اس پر فرمایا ’’ایک بار میں نے حضور قلندر بابا اولیاء سے دریافت کیا
کہ حضور اللہ میاں کو کون سا عمل سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ فرمایا میرا خیال تھا کہ
حضور قتل یا اسی قسم کے کسی دوسرے عمل کو ناپسندیدہ بتائیں گے مگر اس وقت مجھے بہت
حیرت ہوئی جب حضور نے فرمایا :
’’طلاق‘‘۔
یعنی طلاق دینا یا
طلاق لینا اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔
پھر میں نے دریافت کیا
کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل؟
فرمایا، میرا خیال
تھا کہ حضور عاجزی یا اسی قسم کے کسی اور عمل کا کہیں گے مگر انہوں نے فرمایا۔
’’خدمت خلق۔‘‘
میں نے دونوں باتوں پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ دونوں کا تعلق انسانوں کے آپس
کے تعلقات سے ہے۔ آپ تعلق ختم کریں، یہ بات ناپسندیدہ اور آپ تعلق بڑھائیں یہ
بات پسندیدہ۔ ابھی ہم یہی کچھ سوچ رہے تھے کہ آپ نے فرمایا۔
’’ذوقی شاہ نے جو یہ کہا ہے کہ کامل مرشد وہ ہوتا ہے جو مرید کو ہر مقام سے گزار
تو دے مگر دیکھنے کچھ نہ دے۔ اس کا کیا مطلب؟‘‘ میاں صاحب سے پوچھا مجھے پھر کہا
’’آپ بتائیں‘‘۔
میں نے اس اعزاز پر
کہ مجھ سے مرشد نے براہ راست کلام کیا ہے پھولتے ہاتھوں کو آپس میں دبا کر عرض کی:
’’ہم اس وقت اس سڑک پر
گزر رہے ہیں۔ باہر جو عمارات ہیں وہ ہمیں دکھائی بھی دے رہی ہیں مگر ہم انہیں دیکھ
نہیں رہے کیونکہ ہماری توجہ ان کی طرف نہیں آپ کی طرف ہے۔ ہم اس مقام سے آپ کے
ہمراہ گزر تو رہے ہیں مگر اسے دیکھ نہیں رہے۔ شاید یہی مفہوم ہو یا اس کے علاوہ۔‘‘
فرمایا۔’’ دراصل مرشد
کے ہمراہ آپ ایک مقام سے گزریں اور پھر بعد میں جب آپ وہاں خود جائیں گے تو آپ
کے شعور پر بوجھ نہیں بنے گا۔ ایک بچہ ہے وہ اپنے باپ کے ساتھ لندن جاتا ہے۔ پھر
جب وہ جوان ہو کر لندن جائے گا تو لندن اس کے لئے نیا نہیں ہو گا اس کے ذہن میں یہی
بات ہو گی کہ میں یہاں پہلے بھی آ چکا ہوں۔‘‘
اب حقیقت یہ ہے کہ ذوقی شاہ صاحب کے جملے کا بظاہر مطلب یہی تھا کہ مرید کو
مرشد کہیں رکنے نہ دے، کہیں اٹکنے نہ دے مگر اس کے اندر کے مفہوم کو کس طرح مراد
نے اپنے مریدوں پر واضح کیا یہ ان کے انداز تربیت کا اعجاز ہی تو کہلائے گا۔
رات گئے جب ہم مراقبہ ہال کے دروازے سے گزر کر اندر داخل ہوئے تو مراقبہ ہال
کے کھلے لان پر بچھی چاندنی نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا اور ہم اپنے مراد کو گھیرے
میں لے کر دیر تک بیٹھے ان سے باتیں کرتے رہے۔ انبیاء کے علوم کی باتیں۔ انبیاء کی
تعداد کے بارے میں۔ قرآن میں مذکور انبیاء کے تذکرے۔ ان تذکروں میں مذکور حکمتیں۔
سب ہی کچھ۔ کسی کو شاید ہی معلوم ہو رہا ہو کہ علم کس طرح اس کے اندر انڈیلا جا
رہا ہے۔ علم کے دھارے کا رخ ہمارے قلوب کی طرف تھا اور ہی سب غیر محسوس تھا۔ وہاں
سے ہٹنے کے بعد ہی معلوم ہونا تھا کہ ہم
نے کیا کچھ اخذ کیا، کیا کچھ سیکھا اور کیا کچھ ساتھ لے کر آئے اور کیا
کچھ وہیں گرا آئے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔