Topics
اس بار جب میں پشاور سے جامعہ عظیمیہ مراقبہ ہال لاہور پہنچا تو میرا ایک بہت
اچھا دوست عباس مرزا میرے ہمراہ تھا۔ عباس مرزا سے میرے تعلق کی شروعات کالج کے
زمانے میں ہوئیں اور چوتھائی صدی پر پھیلے ہوئے ان لمحات میں جب ہم اکٹھے رہے ہم
دونوں نے بہت کچھ آپس میں شیئر کیا۔ وہ چونکہ خود بہت اچھا انسان ہے اس لئے وہ
مجھے بھی ایسا ہی سمجھتا ہے اور میں اس کے مغالطے کو درست کرنے کا فی الحال کوئی
ارادہ نہیں رکھتا۔
ہم کمرے میں داخل ہوئے تو میرا مراد سامنے پڑے تخت پوش پر گاؤ تکیے سے ٹیک
لگائے اپنے سر پر رکھے، داہنے ہاتھ کو بائیں سے تھامے کچھ کہہ رہے تھے۔ دروازہ
کھلنے اور ہمارے مخل ہونے پر جز بز ہونے کی بجائے چہرے پر مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
ادھ کھلی آنکھیں پوری کھل کر اپنی حالت پر واپس آ گئیں۔ یہ بات ہمارے لئے قریب
آنے کا اجازت نامہ اور کمرے میں دروازے کی جانب پشت کئے بیٹھے ہوؤں کے لئے کمرے میں
ہماری آمد کی اطلاع ثابت ہوئی۔ وہاں بیٹھے لوگوں نے گفتگو رکنے پر ہمیں دیکھنا
شروع کیا۔
یہ میرا بارہا کا تجربہ ہے کہ جب بھی میں نے اپنے مراد کو کچھ عرصہ بعد دیکھا،
ان سے پہلی ملاقات کا سا لطف اور تاثر مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس وقت مجھے
کچھ اور نظر نہیں آتا۔ کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔ کمرہ، کمرے میں بیٹھے لوگ،
وہاں پڑی اشیاء سب ہی کچھ معدوم ہو گیا۔ میں جس دروازے سے گزر کر کمرے میں داخل
ہوا۔ وہ دروازہ، پیروں تلے آنے والی دری، میرے مراد کے سامنے پڑے چائے کے برتن
غرضیکہ سبھی کچھ لپک کر میرے مراد کی اوٹ میں چلے جاتے ہیں۔ اب صرف مرشد کریم میرے
سامنے ہیں یا شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اب اس ایک لمحے کے جاودانی حصے میں
صرف اپنے مرشد کے حضور حاضر ہوں۔
وہ سر سے بازو ہٹاتے ہیں۔ تخت پر سیدھے ہوتے ہیں۔ پاؤں تخت سے نیچے رکھتے ہیں۔
فرش پر سیدھے کھڑے ہوتے ہیں اور بانہیں پھیلا دیتے ہیں۔ ان پھیلی ہوئی بانہوں میں
ممتا کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ اس کرنٹ سے جو مقناطیسی قوت پیدا ہو رہی ہے وہ کئی ماؤں
کے پیار کی کشش پر بھاری ہے۔ میں بے خود و بے اختیار ہو کر بے محابہ ان کے سینے میں
جا گھستا ہوں۔ یہ بے اختیاری نہ ہو تو آدمی تو وہیں باہر ہی ٹھٹھر کر رہ جائے۔
لوگ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں تو بدن میں ایک سنسنی سی ایک کیف سا دوڑ جانے کا تذکرہ
کرتے ہیں۔ ان کے نرم نرم ہاتھوں کے گداز کا ذکر ہوتے میں نے کئی بار سنا ہے اور یہاں
تو میں ان کے پیار کی مقناطیسی کشش سے ان کے سینے سے چپکا کھڑا تھا۔ اس لمحے میرے
احساس میں ایک سناٹا چھا گیا تھا۔ مجھے کسی بات کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ اپنے قدموں
پہ قائم رہنے کا بھی نہیں۔ میرے پیچھے کھڑا میرا پرانا دوست، کمرے میں موجود میاں
صاحب، اکرم شہابی صاحب اور دوسرے احباب سب احساس و ادراک کی سرحدوں سے کہیں بہت ہی
دور جا چکے تھے۔ مجھے اپنا سانس لینا اور اپنا ہونا تک بھولا ہوا تھا۔ میرا وجود
وہاں تھا ہی کب۔ وہاں تو میں رہا ہی نہ تھا۔ صرف میرا مراد تھا۔ اس کے چھتنار سائے
کا احساس تھا۔ میں ان کے گھنیرے سائے میں مدغم ہو کر غائب ہو چکا تھا۔
ایک بار مرشد کریم نے ہمیں بتایا تھا کہ روحانی لوگوں سے گلے مل کر جو سکون
ملتا ہے وہ کہیں اور مل ہی نہیں سکتا۔ جو ایک بار اس لطف اور کیف سے آشنا ہو جاتا
ہے پھر وہ ساری زندگی اسی سکون، اسی لطف، اسی کیف و انبساط کی تلاش میں رہتا ہے۔
آپ چھوٹے بچے کو گلے لگائیں آپ کو باقاعدہ سکوں آور لہریں اپنے اندر منتقل ہوتی
محسوس ہوتی ہیں۔ یہ ٹھہرے ہوئے لمحات اور ٹھٹھرے ہوئے اجسام کا نہیں، ٹھہراؤ اور
سکون کا تذکرہ ہے۔ اس کیف آور سکون اور ٹھہراؤ کا عملی تجربہ مجھے اس وقت ہوتا ہے
جب میں خود ان کے گلے لگتا ہوں۔
اس گلے لگنے اور لگانے میں جو فرق ہے اس کی طرف میں پہلی بار اس وقت متوجہ ہوا
تھا جب میرے مراد نے عرس کے موقع پر خانقاہ حضور قلندر بابا اولیاء سے باہر قدم
نکالا تو عقیدت مندوں کے ہجوم کا ایک ریلا ان سے گلے ملنے، ان سے بغل گیر ہونے اور
اپنے آپ کو ان سے تبرکا! مس کرنے کو اس بری طرح ٹوٹ پڑا کہ حضور کے کچلے جانے کا
اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس ریلے کو قابو کر کے منتظمین نے جب لائن لگوا کر لوگوں
کو ان سے گلے ملنے کا موقع دیا تو لوگ اس زور و شور سے عقیدت کا اظہار کرنے کو گلے
ملنے اور گلے لگنے لگے کہ حضور ہانپ ہانپ گئے۔ اس وقت خالد نیاز نے تبصرہ کیا تھا
’’یہ گلے ملنا یا گلے پڑنا‘‘۔
میں نے اس وقت جذبات کے امڈتے طوفان کو سہارا بنا کر گلے ملنے بلکہ گلے پڑنے
سے اجتناب کا عہد کیا اور طے کیا کہ آئندہ کے لئے منتظر رہا کروں گا کہ کب آپ
شفقت فرماتے ہوئے مجھے خود اپنے گلے لگائیں گے۔ سینے سے لگائے ہوئے جب آپ نے مجھ
سے خیر و عافیت کا پوچھا تو میں گویا واپس اس جہان رسوم و قیود میں اتار دیا گیا۔
گلے لگ کر ہٹتا ہوں تو خود میں ایک عجیب تبدیلی دیکھتا ہوں۔ میرے کندھے جھک جاتے ہیں۔
نگاہیں چہروں کی بجائے زمین پر پیروں کو دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ طبیعت میں گداز
اور مزاج میں گداختگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہاتھ ناف کے سامنے آ کر ایک دوسرے سے لپٹ
لپٹ جاتے ہیں۔ میں بنتا ہوں تو قدم بھاری ہو جاتے ہیں، میں بوجھل قدموں سے پیچھے
ہٹتا ہوں، عباس مرزا آگے بڑھ کر گلے لگتا ہے۔ میرا مراد اس کو ’’آپ کیسے ہیں
پروفیسر صاحب‘‘ کہہ کر جہاں اپنی زبردست یادداشت کا اظہار کرتے ہیں وہاں اسے اپنائیت
کا ایک احساس بھی عطا کرتے ہیں۔ طبیعت میں اتنی حلاوت اور آسودگی آ چکی ہوتی ہے
کہ میں ان کے عباس مرزا کو گلے لگانے پر خود میں احساس ممنونیت ابھرتے دیکھتا ہوں۔
اسی جذبہ ممنونیت سے سرشار ہم نیچے بچھی فرشی چاندنی پر بیٹھ جاتے ہیں۔
میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب میزبانی کے آداب سے خوب واقف اور ان کے اظہار کو
بہت بے باک ہیں۔ وہ چائے بنا کر پیالیاں ہماری طرف بڑھاتے ہیں، حضور اپنے مرشد
گرامی حضور قلندر بابا اولیاء کی رباعی
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہئے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
سنا کر ہماری تواضع کرتے ہیں۔ جذبات کی اتھل پتھل میں، میں آگہی کو ان کے
روبرو حاضر کرنے میں ناکام ہی رہتا ہوں۔ شاید عباس مرزا کے شاعر ہونے کے حوالے سے یہ
اس کی تواضح تھی، اس میں میرا حصہ اتنا نہ تھا۔ گفتگو کا سرا وہیں سے جوڑا جاتا ہے
جہاں پر ہماری آمد بلکہ مخل ہونے سے پیشتر بات ہو رہی تھی۔ آپ بتا رہے تھے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔