Topics
فرمایا:’’دولت پرستی بت پرستی ہے۔ شرک ہے۔ قومیں گناہوں کی وجہ سے نہیں، شرک
اور دولت پرستی کے سبب تباہ ہوتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں پر پکڑ لیں تو
اس طرح تو اس کے غفار الذنوب ہونے کی صفت زیر بحث آ جائے گی۔ دس ہزار سال لگتے ہیں
قوموں میں دولت پرستی آنے میں اور جب دولت پرستی آ جاتی ہے تو قومیں تباہ کر دی
جاتی ہیں۔‘‘
دریافت کیا:’’دولت پرستی سے کیوں کر بچا جائے۔ اس کو چھوڑا کیسے جائے؟‘‘
اس پر ارشاد فرمایا:
’’آپ اللہ پرستی شروع کر دیں باقی سب پرستیاں خود ہی چھوٹ جائیں گی۔‘‘
پھر ایک صاحب کا واقعہ سنایا۔ یہ صاحب کسی پیچیدہ مرض میں مبتلا ہو کر علاج کے
لئے آپ کے پاس آئے تھے۔ فرمایا:
’’میں نے ان کا علاج کرنے سے پہلے ان سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے؟ آپ کیا
سمجھتے ہیں کہ یہ مرض آپ کو کیوں ہوا؟ اس پر انہوں نے بتایا میری بیماری کی اصل
وجہ میرا گناہ ہے۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا۔’’آخر ہوا کیا؟‘‘
پہلے تو انہوں نے ٹالا مگر پھر بتایا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتے تھے اور اس
ادارے میں ملازم تھے جو غلاف کعبہ تیار کرنے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ
غلاف کعبہ میں استعمال ہونے والے سونے کی چوری کرتے تھے اور انہوں نے تولے نہیں
کلو کے حساب سے سونا چوری کیا۔ اس کی تفصیل انہوں نے یہ بتائی کہ وہاں سونا تاروں
کی شکل میں آتا تھا اور بنائی میں استعمال ہوتا تھا۔ وہ اس سونے کے تار نگل لیا
کرتے اور بعد میں اپنا فضلہ خشک کر کے اس کو جلا کر اس میں سے سونا حاصل کر لیا
کرتے تھے۔
فرمایا:’’انہوں نے بھی کیا طریقہ سوچا۔‘‘
نماز مغرب کے لئے اٹھے تو یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ رات کھانے کے بعد سیر
کے لئے نکل گئے۔ چاندنی رات کچھ عجیب طرح سے روشن لگ رہی تھی۔ رات کے وقت اتنی دور
تک منظر کم ہی اتنا کھلا اور روشن دیکھا ہے۔ ذہن میں مرشد کریم سے سنی ہوئی باتوں
کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ رات کو سونے کے لئے مراقبہ ہال کی چھت پر انتظام کیا گیا
تھا۔ چھت پر لیٹ کر چاند کو بادلوں کے بیچ تیرتے دیکھتے دیکھتے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری
تھی کہ ہوا تیز ہو گئی۔ بادل گہرے ہو گئے۔ بارش کے آثار دیکھ کر حاجی صاحب نے طے
کیا کہ ہم نیچے کمرے میں ہی سوئیں چنانچہ کھلی فضاؤں کو خیر باد کہہ کر نیچے اتر
آئے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔