Topics
حریت ، کراچی کے ایک قاری نے نہایت طنز و مزاح کے پیرائے میں راقم الحروف کے لکھے ہوئے تمام مضامین پر دشنام طرازی کے ساتھ اعتراض کیا تھا۔ اور یہ جواب جو کہ ‘‘ایک قاری کے خط کے جواب میں عرض ہے کہ ‘‘ کے عنوان سے مورخہ 7؍جولائی 1978ءکو’‘روحانی علاج’‘کےکالم میں شائع ہواتھا،راقم الحروف کےپیرومرشدحضورقلندربابا اولیاءؒ نے اس طرح لکھوایا ہے:
نوع انسانی کا طرز کلام جتنا محدود ہے اور اس کے اندر جتنی خامیاں ہیں، ہم ان پر غور نہیں کرتے۔ ممکن ہے ہماری نوع اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھتی ہو یا اس طرف توجہ کرتی ہو تو اس طرح جیسے کوئی خلا میں جھانکتا ہے اور جھانکنے کو فضول سمجھ کر نظر انداز کردیتاہے۔
مثال: ہم کبھی افسانوی زبان میں یا واقعاتی تذکروں میں کہتے ہیں کہ ہمارا گزر ایک بہت بڑے اور گھنے جنگل سے ہوا۔ اس جنگل میں سائے تھے اور تیز ہوا کی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ تاریک راتوں میں جب ہوا رُک جاتی تو جنگل بھیانک سناٹے اور موت کا نمونہ بن جاتا۔
آپ ان جملوں کو چند بار پڑھئے اور غور کیجئے کہ بیان کرنیوالے نے فی الواقع کوئی صحیح اور معین بات کہی ہے؟ یا قارئین کو صرف اندھیرے میں پھینک دیا ہے۔ بیان کرنے والے نے یہ بات بالکل نہیں بتائی کہ جنگل میں کون کون سے درخت تھے۔ ان کا قد و قامت، ان کارنگ و روپ، ان کے پھول پتیاں کس وضع کی تھیں اور ان درختوں سے ملحق کون کون سے پرندے ، کس قسم کے جانور اور ان کی شکل و صورت کیا تھی۔ زمین اور چھوٹے پودے اور زمین پر اُگی ہوئی گھاس، زمین کا اُتار چڑھاؤ، زمین پر بہنے والا پانی، نرم ریت اور سخت پتھریلے علاقوں کے نقش و نگار کیا تھے۔ اس جنگل میں کتنے آبشار، کتنے پہاڑ، کتنے ٹیلے اور کتنے ریگ زار تھے۔
قارئین کبھی یہ نہیں سوچتے کہ بات کس قدر بے سرو پا کہی گئی ہے حالانکہ وہ عبارت پڑھنے کے بعد کچھ نہیں سمجھتے بجز اس کے کہ جنگل کا ایک تصور ذہن میں بنا اور ذہن اس سے چمٹ کر سوگیا۔ اور صرف ایک سیکنڈ یا ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جاگ اُٹھا اس اُمید پر کہ آگے اور کیا پیش آیا، قصہ گو اور کیا کہے گا۔ قارئین اس مقام تک پہنچ کر مگن ہوجاتے ہیں اور افسانہ نویس یا مقرر کی تعریف کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کی بھول بھلّیاں علم کے تمام میدانوں میں عام ہیں۔ ان ہی بھول بھلیوں سے متعلق انسان نے کروڑ در کروڑ کتابیں لکھ ڈالیں، کھرب در کھرب تقریریں کرڈالیں اور سنکھ در سنکھ روز مرہ گفتگوؤں کی داغ بیل ڈالی ہے۔
اب ذرا سنتے جائیے، تاریخ انسانی کیا کہتی ہے؟ یہ وہ تاریخ ہے جو نوع انسانی کے تمام علوم کی نشاندہی کرتی ہے۔
ہزاروں سال پہلے کا دور
ماہ پرستی اور ستارہ پرستی کے دور میں کہا گیا کہ زمین ٹھہری ہوئی ہے، سورج گردش کرتا ہے۔ یہ بہت پرانا دور تھا ، ہزاروں سال پہلے کا دور۔ پھر ایک دور آیا۔ انجانی قوتوں سے ڈرا ہوا انسان کہنے لگا میری ساری گردشیں دیوتاؤں کی قوت سے سرزد ہوتی ہیں۔ اس دور کے انسان نے یہ بھی کہا کہ کہیں نہ کہیں روحوں کا مرکز ہے۔ اس ہی مرکز سے انسان کی قسمت وابستہ ہے ، ستاروں کی قسمت وابستہ ہے، پہاڑوں، درختوں، دریاؤں اور جانوروں کی قسمتیں وابستہ ہیں۔ ہوائیں اور روشنیاں بھی اسی مرکز ارواح سے ملتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ان روحوں کی شکل و صورت معین کی گئیں۔ دیوتاؤں کے مجسمے بنائے گئے۔ بت پرستی عام ہوتی چلی گئی۔ فیثاغورث اور تھیس کا زمانہ آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ستارے کیا ہیں؟ مادہ کیا ہے؟ یہ کائنات کیا ہے؟ مادی ذرات کا مجموعہ ہے۔ اب انسان کچھ فلسفیانہ اور طبعی طرزوں پر باتیں کرنے لگا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آدمی کی آنکھوں سے روشنیاں طلوع ہوکر چیزوں کو دیکھتی اور پہچانتی ہیں۔ تمام نوع انسان میں لاکھوں باتیں کرنے والے حکماء، فلسفی، ہیئت داں، طبیعاتی ماہرین وغیرہ پیدا ہوئے اور کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ ان میں اختلاف رائے تھا ................کیوں؟
اس لئے کہ حقیقت تک کوئی نہیں پہنچا۔ حقیقت صرف ایک ہوسکتی ہے۔ ہزاروں، لاکھوں نہیں ہوسکتیں۔ اگر یہ لوگ حقیقت سے واقف ہوجاتے تو اختلاف رائے ہر گز نہیں ہوتا۔
سورج مرکز ہے، زمین مرکز نہیں
اب سورج کی پرستش شروع ہوگئی۔ کوبرنیکسؔ آفتاب پرست تھا۔ اس نے کہا سورج مرکز ہے۔ زمین مرکز نہیں ہے۔ پیشتر بھی یہی بات کہی گئی تھی لیکن کوبرنیکس نے زیادہ زور دے کر ہیئت کو نقشہ بدل کر پیش کیا۔ آئزک نیوٹن کا زمانہ آیا۔ اس نے کہا کشش ثقل اور میکانکیت فطرت کا اسلوب ہے۔نیچر (فطرت، Nature) میں گراریوں کے ذریعے عمل ہورہا ہے۔ صدی گزرنے لگی تو اہل فن نے کہنا شروع کردیا کہ فطرت کے تمام مظاہر کمانیوں اور گراریوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ نیوٹن کے بعد دوسری صدی آئی تواس کے وضع کردہ جذب و کشش اور مقناطیسیت بھی بحث طلب امور بن گئے۔ بائیس سو برس پہلے ویمفر اطلیس نے جو بات کہی تھی کہ مادہ کا آخری ذرہ جزو لاتجزیٰ ہے، وہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ یہ بات پھر لوٹ آئی مگر امتداد زمانہ کے ہاتھوں یہ تھیوری (نظریہ، Theory) پامال ہوچکی تھی۔
سائنس دانوں نے کہا جوہری نظام قابل قبول ہے۔ مگر جوہری نظام کا آخری مرحلہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ جاننا ضروری ہے اور جوہر کو توڑنے کی جدوجہد شروع ہوگئی۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں انسان تمام میدانوں سے بھاگ نکلا۔ اس نے فیصلہ کردیا کہ ایتھر موجود نہیں ہے۔ یہ صرف پہلے لوگوں کا مفروضہ تھا۔ اس دور کے سائنس داں روح سے بیزار ہوہی چکے تھے۔ ان کا یہ خیال ہوا کہ کہیں ایتھر کی جگہ روح نہ آجائے۔ ان نظریات کو کہ آنکھوں کی روشنی باہر دیکھتی ہے وہ پہلے ہی نظر انداز کرچکے تھے ۔ نئے نظریات کی رو سے خارجی دنیا کی روشنی ہماری آنکھوں میں داخل ہوکر دماغی اسکرین پر شبیہیں اور علامتیں بناتی دکھائی دینے لگیں۔ بات سے بات نکلتی ہے۔
فرائڈ کا نظریہ
نفسیات دانوں نے باصرہ، لامسہ اور سامعہ کے مہیجوں کا سہارا لینا شروع کردیا۔ فرائڈ نے اپنے دور سے پہلے لوگوں کی کہی ہوئی باتوں پرتوسیعی تانا بانا تیار کیا۔ جو ڈارون کی ارتقائی زنجیروں سے ملا جلا پنجرہ بن گیا۔ اس پنجرے میں اسلاف سے منتقل شدہ لی بیؔ ڈو داخل ہوگیا جس کے اندر نوع انسان کے گناہوں کی تمام حسرتیں مجتمع تھیں۔ اسے بھی روح کا ڈر ہوا تو اس نے کہا، ‘‘ یہ صرف لاشعور ہے۔’‘
آئنسٹائن کے معاصر جب چند صدیوں کے معرکۃ الآراء اجتہاد پر تبصرہ کرنے لگے تو انہوں نے شعاعی مظاہر، مقناطیسی مظاہر اور حیاتی مظاہر کو الگ الگ کردیا............ اب جو ہر ٹوٹ چکا ہے اور آئنسٹائن کی وضع کردہ تھیوری زمان و مکان کے بارے میں پھیل چکی ہے۔ اس نے کہا کہ زمان و مکان کا الگ الگ تصور بالکل غلط ہے کیونکہ مکان میں ترچھا پن ہے۔
تشریح کی گئی کہ فطرت کا عمل جو کائنات میں جاری وساری ہے، روانی میں عمودی نہیں بلکہ اس میں ترچھا پن ہے۔ یہاں جذب و کشش، نظام سیارگان اور روشنی کی رفتار سب کی سب مشکوک ہوگئی۔ یہ دور اضافیت اور مقداریت کے نام سے موسوم ہوا۔
ذرا سوچئے! روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ مان لی جائے تو مکان میں ترچھا پن اور اس کی پیمائش کس طرح ممکن ہے۔ جب کہ ہم فاصلہ بالراست ناپتے ہیں یعنی عمودی لائن ڈال کر، نہ کہ نیم دائرہ بنا کر۔ آئنسٹائن اور آئنسٹائن جیسے اور لوگ، مابعد النفسیات اس کی حمایت نہیں کرتا۔
علم مابعد النفسیات
علم مابعد النفسیات اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارے طرز بیان میں قدم قدم پر اتنی خامیاں ہیں کہ ہم جوش میں سب کچھ کہتے چلے جاتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم کہا کرتے ہیں کہ ماضی کے نقوش ہیں۔ ہماری زمین کھربوں سال پرانی ہے اور کائنات کی عمر ممکن ہے سنکھوں سال سے بھی زیادہ ہو۔ ان الفاظ کے معانی کیا نکلتے ہیں اور ذرا سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
الفاظ کا مطلب بہت واضح ہے یعنی سنکھوں سال کا زمانہ منجمد ہوکر مکان (Space) کی صورت بن گیا۔ جس کو ہم کائنات کہتے ہیں۔ جب تک زمانہ منجمد نہیں ہوا تھا اس وقت تک نہ شاہد تھا نہ مشہود۔ یہ کہنے والا بھی نہیں تھا کہ یہ کائنات ہے اور نہ کائنات تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کو نہ ہم چھو سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور نہ باہر لیکن زمان (Time) یا لازمان کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔
سطور بالا سے یہ بات واشگاف ہوجاتی ہے کہ خواب ہو یا بیداری دونوں حالتوں میں ہم زمان کا محض تذکرہ کرتے ہیں۔ زمان حواس کی گرفت سے ماوراء ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ خواب کے حواس میں زمانیت کی طرح مکانیت نظر انداز نہیں ہوتی، محض شعوری اور لاشعوری تعین کی درجہ بندی ہے۔ شعور اگر زمان کی طرف متوجہ ہے یعنی شعور کا یقین یہ ہے کہ اب ایک لمحہ، دوسرا لمحہ اور گھنٹے گزر رہے ہیں تو یہ تعین زمان کی گرفت سخت تر کردے گا۔ لیکن اگر شعور زمان کے گزرنے یا نہ گزرنے کی طرف توجہ دے کہ لمحے گھنٹے گزر رہے ہیں تو یہ تعین زمان کے گزرنے یا نہ گزرنے کی طرف توجہ دے تو لمحے، گھنٹے، دن اور ہفتے کی زمانیت ایک آن میں سمٹ جاتی ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ زمان کو رفتار کی بنا پر سمجھا جاتا ہے۔ فی الواقع ہم کسی بھی شئے کو اس وقت نہیں دیکھ سکتے، نہ ہی چھو سکتے، نہ ہی محسوس کرسکتے جب تک زمانیت منجمد نہ ہوجائے۔ زمانیت کے انجماد کی رفتار سے مکانیت بھی لپٹتی اور سمٹتی رہتی ہے۔ اسکی مثال یہ ہے کہ ہم پچاس سال کی عمر میں ایک ایسی بات یاد کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ چار یا پانچ سال پیچھے ماضی میں پہنچتی ہے۔ ہمارے اوپر اس واقعے کی پوری کیفیات مرتب ہوجاتی ہیں۔ لمحوں، سیکنڈوں یامنٹوں کیلئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری عمر اس وقت پچاس سال ہے۔ اسی بات کو ہم نے زمانہ کا منجمد ہونا کہا ہے۔
جہاں تک حواس کو جاننے او ر سمجھنے کا تعلق ہے اسکے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ نوع انسان کا شعور ابھی ایک انگوٹھا چوستے بچے کی حیثیت کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک حواس کے بارے میں کوئی ایک رائے قائم ہی نہیں کی جاسکی۔
مابعد النفسیات اور نفسیات
مابعد النفسیات اور نفسیات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نفسیات داں یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ انہیں معلوم ہے کہ شعور اور حواس کا مخزن اور فارمولا کیا ہے، حواس کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے دو سال کا بچہ ماں باپ کے کہے ہوئے الفاظ دہرا دیتا ہے۔ مابعد النفسیات اور اس سے ملحقہ سب علوم اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ حواس اگر ہیں تو ان کی حقیقت کیا ہے۔ زمانیت مکانیت کی موجودگی اگر ہے تو اس کا شعورو حواس سے کیا تعلق ہے اور فی الواقع ان کا Source (ذریعہ) کیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔
ا نتساب
اُس نوجوان نسل کے نام
جو
ابدالِ حق، قلندر بابا اَولیَاء ؒ کی
‘‘ نسبت فیضان ‘‘
سے نوعِ ا نسانی کو سکون و راحت سے آشنا کرکے
اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے
ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
انسان اپنا ازلی شرف حاصل کر کے جنت
میں داخل ہوجائے گا۔
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیمٓ
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا