Topics

قلندر بابا اولیاءرحمۃ اللہ علیہ کے نام خط اور آپ کا جواب


  عبدالقیوم عظیمی صاحب نے 1963ء میں ڈھاکہ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے  حضور قلندر بابا اولیاؒء کی خدمت میں یکے بعد دیگرے دو خط ارسال کئے - ان دونوں خطوط کا جواب حضور بابا صاحبؒ نے ایک ہی خط میں ارشاد فرمایا -  یہ خط اس حوالہ سے انتہائی اہم ہے کہ اس میں حضور قلندر بابا اولیاء نے قرآن ی آیات کی تفسیر کے ذریعہ سے اہم ترین نکات بیان کیے ہیں۔

 

مکتوب بنام حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ

رفیع الشان ، صاحب جمال ، پیر و مرشد یا سیدی ، ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء !

بندہ خدمت بابرکت میں سجدہء غلامی پیش کرتا ہے - 

السلام علیکم و رحمتہ الله و برکاتہ 

عرض خدمت عالی یہ ہے کہ آج کل میں صبح دس پندرہ منٹ کلام پاک کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں اور اس پر کچھ غور بھی کرنے کی کوشش کرتا ہوں - اس طرح دو باتیں ایسی سامنے آئی ہیں جو کہ تشریح طلب ہیں - ان پر غور کرنے سے کچھ سمجھ نہیں آسکی - برائے کرم ان پر روشنی ڈال کر مشکور فرمائیں تاکہ بات ذہن میں آسکے -

( 1 ) ... الله تعالیٰ نے کلام پاک میں اکثر نماز کے قائم کرنے پر زور دیا ہے پھر کئی جگہ یہ بھی حکم دیا ہے کہ میری بندگی کرو - رکوع کرو - اور سجدے کرو - پھر الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صبح و شام میرے نام کی تسبیح پڑھو -

اب ذہن میں جو سوالات ہیں وہ یہ ہیں کہ ہمارے سامنے نماز کا جو نقشہ ہے یا جو ہم کو ذہن نشین کرایا گیا ہے یہ وہ ہے جو کہ آج کل نماز پڑھی جارہی ہے - اس عمل میں رکوع ، سجدہ اور تسبیح پڑھنا سب کچھ شامل ہے - جب سب عمل اس ایک ہی نماز میں شامل ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر الگ الگ عمل کے لئے حکم دیا ؟ -

 اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ جو حکم دے رہے ہیں وہ اس موجودہ طرز عمل سے ضرور مختلف ہوگا - ( موجودہ طرز عمل سے میری مراد نماز سے ہے جو کہ ہم پڑھتے ہیں ) -

اگر وہ حکم اسی نماز سے متعلق ہے تو پھر اس کو مختف جگہوں پر مختلف احکامات کی شکل میں نازل کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی - صرف نماز کے متعلق ہی حکم کافی تھا - 

ذہن اس کی کوئی تسلی بخش توجیہہ پیش نہیں کرسکا - اس لئے مؤدبانہ التماس ہے کہ اس پر روشنی ڈالیں - اس مسئلے نے عرصہ سے میرے ذہن میں انتشاری کیفیت پیدا کر رکھی ہے -

( 2 ) .... پارہ نمبر دس ، سورہ التوبہ ، آیت نمبر 36 –

 اس میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں ...

" مہینوں کی گنتی الله کے پاس بارہ مہینے ہیں - الله کے حکم میں جس دن پیدا کیئے آسمان و زمین ان میں چار ہیں  ادب کے یہی ہے سیدھا دین سو اس میں ظلم نہ کرو اپنے اوپر اور لڑو مشرکوں سے ہر حال جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے ہر حال - اور جانو کہ الله ساتھ ہے ڈر والوں کے - "

برائے کرم اس آیت کی مفصل تشریح فرمادیں - الله تعالیٰ جو فرماتے ہیں کہ،

" الله کے حکم میں جس دن پیدا کئیے آسمان و زمین ان میں چار ہیں ادب کے "

اس کا کیا مفہوم ہے ؟ اس کی کچھ سمجھ نہیں آسکی کہ الله تعالیٰ کا ارشاد کن مہینوں کی طرف ہے اور الله تعالیٰ کیا فرماتے ہیں ، کن ادب والے مہینوں کا ذکر ہے ؟  ان میں کیا افضلیت ہے ؟

 

                                        عبدالقیوم عظیمی

 ڈھاکہ .. 1963-9- 19

 

جواب۔من جانب حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ

 

1D ،1/7  ناظم آباد - کراچی نمبر- 18

مورخہ 13 اکتوبر 1963

بردار بجان برابر 

السلام علیکم  

 

ہم لوگ آپ کے لئے دست بدعا ہیں - آپ کا مرسلہ منی آرڈر مبلغ پچاس روپے کا وصول ہوگیا - اطلاعاً عرض ہے - میں نے آپ کے دونوں خطوط نمبر 55 اور56  مرشد کریم  حضور قلندر بابا اولیاؒء کو پڑھ کر سنائے - حضرت نے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا من و عن تحریر کر رہا ہوں - 

 کوئی فکر نہ کیجئے انشاء الله صحت از خود ٹھیک ہوجائے گی - چند روز علی الصبح معمولی گرم پانی میں ہلکا نمک ڈال کر غرارے کرلیا کریں - بالکل نہار منہ ، غراروں کے ایک گھنٹہ کے بعد یا کم از کم آدھے گھنٹہ کے بعد ناشتہ اور چائے وغیرہ نوش کریں

 بعض اوقات جسم میں کیمیاوی تبدیلیاں ہوتی ہیں - یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ کیمیاوی تبدیلیاں یا روشنیوں میں تبدیلیاں ایک ہی بات ہے - گویا جسمانی تبدیلیاں کیمیاوی تبدیلیاں کہلاتی ہیں - اور روح میں تبدیلیاں روشنیوں کی تبدیلیاں سمجھی جاتی ہیں ۔
 بات ایک ہی ہے - معانی میں کوئی فرق نہیں صرف طرز بیان کا فرق ہے - جب ہم محسوسیت کی زبان میں بات کرتے ہیں تو جسم کہتے ہیں - دراصل کوئی محسوس اور غیر مرئی محسوس ایک ہی چیز ہے - بالکل اسی طرح جس طرح روح اور جسم ایک ہی چیز ہے ...

 

 جب حواس عمل کرتے ہیں تو محسوس دنیا زیر بحث آتی ہے اور جب ورائے کائنات کی قوت جس کو ذات بھی کہتے ہیں عمل کرتی ہے تو ذہن اور فکر ، خیال وغیرہ وغیرہ کام کرنے والے سمجھے جاتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ روح دو دائروں میں کام کرتی ہے –

ٹھوس اور محسوس طرز پر –

 غیر مرئی اور غیر محسوس طرز پر –

 چنانچہ ہم ایک کو محسوس دنیا اور دوسری کو غیر محسوس دنیا سمجھتے ہیں - ساتھ ہی غیر محسوس دنیا ہمارے نزدیک ناقابل اعتبار ہے - حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے ۔ دونوں قابل اعتماد بھی ہیں اور ناقابل اعتماد بھی - جہاں تک ہماری فکر صحیح کام کرتی ہے یعنی ہم فکر سے صحیح کام لیتے ہیں وہاں تک دونوں قبل اعتماد ہیں - انحصار ہماری اپنی غلط یا صحیح طرز فکر پر ہے - قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے انسان کو یہی بات سکھائی ہے - اسی چیز کی وضاحت کی ہے - اور یہی تعلیم دی ہے۔ وحی کا منشاء یہ ہے کہ انسان صحیح طرز فکر اختیار کرنے کے لائق ہوجائے –

 آپ نے مراقبہ کی ایک کیفیت میں مختلف آوازوں کا تذکرہ کیا ہے - دراصل یہ آوازیں آنے والے طوفانوں کی تھیں ۔کیمیاوی اور روحانی روشنیوں کی خاص تحریکات کی وجہ سے آپ کی سماعت نے ورائے صوت آوازوں کو سننا شروع کردیا - اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی آوازیں آنے لگیں - طبیعت میں لاشعوری طور پر ان آوازوں سےSENSATION پیدا ہوگیا - بالکل اس طرح جس طرح طوفان کو سامنے دیکھ کر SENSATION  پیدا ہوجاتا ہے ۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ جس SENSATION  کا انسان عادی نہیں ہوتا وہ اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے - اثر چند دن رہتا ہے پھر زائل ہوجاتا ہے - یہی آپ کے ساتھ کئی مرتبہ ہوا ہے - انشاء الله اس کا کوئی نقصان آپ کو نہیں پہنچتا - رفتہ رفتہ عادت پڑجائے گی ۔پھر کوئی اثر نہیں ہوگا - نیز ورائے صوت آواز سنتے سنتے طبیعت دیکھنے بھی لگتی ہے - اور وہ منظر سامنے بھی آجاتا ہے - اسی حالت کا نام شہود ہے ۔ جب ان چیزوں پر عبور حاصل ہوجاتا ہے تو ارادہ کے ساتھ عمل ہونے لگتا ہے یعنی جس طرف توجہ مبذول ہوجاتی ہے اس سمت میں مستقبل کے حالات ، مستقبل کے مشاہدات آوازوں اور نگاہوں کے ذریعہ ذہن میں داخل ہونے لگتے ہیں - یہی کشف ہے ۔پھر ذات یا طبیعت جس چیز کو ناپسند کرتی ہے اس کو اپنی گرفت میں لے کر بدل ڈالتی ہے اور آنے والے مظاہر میں اسی قسم کی تبدیلیاں ہوجاتی ہیں - ذات اس لئے ردوبدل کرسکتی ہے کہ وسیع تر دائرہ میں عمل کرتی ہے۔ اسی دائرہ میں جس میں قدرت عمل کرتی ہے - الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے انسان میں اپنی روح پھونکی وہ اسی صلاحیت کی طرف اشارہ ہے ۔

جب یہ کیمیاوی یا شعاعی تبدیلیاں ہوتی ہیں تو طبیعت یک بیک ان کی عادی نہیں ہوتی - رفتہ رفتہ یہ چیزیں معمول بنتی ہیں - کچھ دن کے لئے ورائے حواس کا غلبہ ہوجاتا ہے - پھر یہ غلبہ کم ہوجاتا ہے ۔ جب تک رد عمل برقرار رہتا ہے طبیعت اس کو نہیں دہراتی - پھر جب رد عمل ہوچکتا ہے تو دہرانے لگتی ہے اور ردعمل کے دوران طبیعت اور چیزوں سے گریز کرنے لگتی ہے اور تساہل پسندی کی طرف رجحان ہونے لگتا ہے . معمولات میں فرق آجاتا ہے - کوشش کرکے معمولات کو برقرار رکھنا چاہئے - الله تعالیٰ خود حفاظت کرتے ہیں - کوئی پریشن ہونے کی بات نہیں - سارے معمولات بحال ہوجائیں گے اور پہلی سی چستی اور مستعدی پیدا ہوجائے گی - ردعمل محض وقتی ہوا کرتا ہے ۔

ورائے حواس کی طرف جب میلان ہوتا ہے تو ہر وہ چیز زیادہ قریب ہوجاتی ہے جو ورائے حواس کی سطح سے تعلق رکھتی ہو - معصوم بچوں کے چہروں میں ورائے حواس کا عمل لاشعوری طور پر نظر آتا ہے - اس لئے طبیعت اس طرف کھنچتی ہے ۔

 

پارہ سیقول رکوع نمبر6  کی پہلی آیت: لیس البر ان تولو وجوھکمسے شروع ہوتی ہے - الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مشرق کی طرف منہ کرنا یا مغرب کی طرف منہ کرنا نیکی نہیں ہے -یہاں غور طلب ہے کہ الله تعالیٰ مشرق کی طرف منہ کرنا یا مغرب کی طرف منہ کرنا تو کہتے ہیں اور صرف ایک لفظ  صلوٰة استعمال نہیں کرتے - حالانکہ لفظ صلوٰة استعمال کرنا بہت سادہ اور مختصر طریقہ تھا - وجہ یہ ہے کہ اس طرز عمل کو الله تعالیٰ صلوٰة قرار نہیں دیتے۔دوسرے موقع پر بالکل اسی طرح فرماتے ہیں:"رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ، سجدہ کرو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ "  

وہاں بھی نہیں فرماتے کہ صلوٰة کرو صلوٰة کرنے والوں کے ساتھ ، جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ رکوع اور سجود کو بھی الله تعالیٰ صلوٰة قرار نہیں دیتے ہیں - اب یہ سمجھنا لازم آگیا کہ صبح شام تسبیح کرنا ، رکوع و سجود کرنا یا مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا ہی صلوٰة نہیں ہے بلکہ صلوٰة پوری طرز زندگی کا نام ہے ۔ ایسا طرز زندگی جو قرآن کے مطابق ہو کیونکہ صلوٰة کے ساتھ الله تعالیٰ نے ہر جگہ قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا ہے –

قائم کرو صلوٰة ،  قائم کرو صلوٰة ، قائم کرو صلوٰة - کہیں نہں فرمایا کہ پڑھو صلوٰة یا ادا کرو صلوٰة - البتہ اسی طرز زندگی میں صبح شام الله تعالیٰ کے نام کی تسبیح کرنا بھی شامل ہے ۔اگر کوئی صاحب چاہیں تو دن رات میں کئی مرتبہ اللہ کے نام کی تسبیح کریں بشرطیکہ صلوٰة کے سارے اجزاء کی تکمیل کرلی ہو اور صلوٰة کی ساری ذمہ داریاں پوری کردی ہوں جو پوری زندگی کو محیط ہوں ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تسبیح کو رکوع ، سجود اور قیام تین حالتوں پر تقسیم کردیا ہے - یعنی میرے سامنے کھڑے ہو - اور میری عظمت کا اعتراف کرو - جھک جاؤ اور میری عظمت کا اعتراف کرو - سجدہ کرو اور میری عظمت کا اعتراف کرو - لیکن یہ صلوٰة کا صرف ایک جزو ہے ۔

سورہ التوبہ آیت نمبر 36 کو سمجھنے کے لئے چند باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں - یہ باتیں قرآن سے باہر نہیں ہیں - قرآن میں ان کا تذکرہ موجود ہے - جہاں کہیں جس چیز کا تذکرہ آیا ہے الله تعالیٰ نے اس کے اوپر روشنی ڈالی ہے - قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ارض و سماء دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔

سورہ الحجر آیت نمبر 10  سے 23  تک مطالعہ کیجئے –

 الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لوگوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ جب کوئی ہمارا قاصد ان کے پاس پیام لے کر جاتا ہے تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں ...

 ان لوگوں کی بے یقینی کا تو یہ عالم ہے کہ اگر ہم آسمانوں کے دروازے کھول دیں اور ان کو چڑھنے کے لئے زینہ مل جائے پھر یہ سارے دن چڑھتے رہیں مگر یہی کہے جائیں گے کہ ہماری نگاہ پر جادو کردیا ہے - ہم تو نظر بندی میں مبتلا ہوگئے ہیں ...

 حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے آسمانوں کے الگ الگ حصے کردیئے ہیں اور ان کو مختلف طرزوں پر آباد کیا ہے البتہ اس آباد کاری کو نظر والے ہی دیکھ سکتے ہیں اور جو شیطان مردود بے یقین ہیں ان کی نگاہ سے ان آبادیوں کو مخفی کردیا ہے -  یہ ان بستیوں کو دیکھ نہیں سکتے لیکن جو لوگ چور دروازوں سے ان آسمانوں میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ...

ہم نے زمین کو  TENSOR CALCULUS  بنایا ہے یعنی غبارے کی طرح اس کے اندر ہوا بھر دی ہے ایسی ہوا جو محسوسیت کی حد سے باہر ہے اور اس کے اندر کشش ثقل GRAVITY پیدا کردی ہے یعنی مختلف اور معین پریشر ڈال دیا ہے ۔چنانچہ اسی پریشر کی مناسبت سے ہم نے زمین کی حدود میں متعین اور مختلف روئیدگیاں پیدا کردی ہیں ( روئیدگیوں سے مراد نباتات ، جمادات ، حیوانات ہیں ) ساتھ ہی ساتھ معین روئیدگیاں ایک دوسرے کے لئے معاش ہیں ۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ معاش تم نہیں دیتے ہو ہم دیتے ہیں - اس لئے کہ معاش کے ذرائع ہم نے پیدا کئے - ہمارے ہی پاس ہر چیز کے خزانے ہیں جن کی تقسیم کا طریقہ ہم ہی جانتے ہیں ۔یہ طرزیں بہت ہیں جن کو تم بھی محسوس کرسکتے ہو مثلاً ان ہواؤں کو تم محسوس کرتے ہو جن میں LIFE STREAM  ہے یعنی ماء جو ہم آسمانوں سے نازل کرتے ہیں - یہ وہی ماء ہے جو تمہارے لئے حیات بنتا ہے - تمہارے پاس اس LIFE STREAM یعنی ماء کا کا کوئی خزانہ نہیں ہے - ہم اسی LIFE STREAM  کو دے کر زندہ کردیتے ہیں اور جب واپس لیتے ہیں تو آدمی مرجاتا ہے ۔ اور ہم ہی ہیں جو ان معاملات میں تمہاری سرپرستی کرتے ہیں - تمہارے کاموں کو پورا کرتے ہیں اور تمہاری چیزوں کو سرانجام تک پہنچاتے ہیں ۔

مذکورہ آیات کی روشنی میں آسمانوں اور زمین کے وقفوں میں الله تعالیٰ نے معین طرزوں کی تقسیم کی ہے - انہی وقفوں کی حسب ذیل وضاحت کی ہے - 

سورہ التوبہ آیت نمبر36 - ہم نے زمین آسمان بناتے وقت ہی ان کے اندر بارہ مہینوں کی ترتیب رکھ دی تھی - یعنی ردوبدل ریکارڈ کردیا ہے جو ہمارے ہی قبضے میں ہے - کوئی دوسرا ان میں گھٹا کر یا بڑھا کر آثار و احوال میں تبدیلی نہیں کرسکتا - یہی مستقل طرزیں ہیں - گویا الله کی غیر مبدّل سنّت - جو قائم اور جاری ہے ۔انہی مہینوں میں وہ چار مہینے ہیں جو آثار و احوال کی مناسبت سے قابل لحاظ ہیں - پہلا مہینہ اور آخر مہینہ - اور دو درمیان کے مہینے شعبان اور رمضان - ان چار مہینوں کے آثار و احوال یہ ہیں کہ شعبان اور رمضان میں پورے سال کے انتظامات کی PLANNING  کی جاتی ہے۔ ذوالحجہ اور محرم میں اس PLANNING  کی جانچ پڑتال ہوتی ہے - ان ہی آیات میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گھٹانے بڑھانے والوں کی بات مت مانو - یہ لوگ جو ہر چوتھے سال کو بارہ مہینے کی بجائے تیرہ مہینے کا سال کردیتے ہیں ناقابل اعتماد ہے - ان کے طرز عمل کا اتباع مت کرو - یہ تم سے تعاون نہیں کرتے تم ان سے تعاون نہ کرو - اگر تم ان کے ایسے اقدامات کا ساتھ دو گے جو تمہارے لئے مضر ہیں تو اپنے اوپر ظلم کرو گے –

اس خط کے بعد آپ کا دوسرا خط  8 اکتوبر 1963 کا تحریر کردہ موصول ہو گیا۔ خوابوں کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

 کائنات میں ہر چیز کی ذات ہے اور وہی حقیقی ہے - خواہ وہ ذرہ میں ہو یا انسان میں - اس کی دو طرزیں ہیں - ایک طرز فکر محسوسیت کے دائرہ میں عمل کرتی ہے اور دوسری ورائے محسوسیت میں یا حقیقت میں عمل کرتی ہے - حقیقت میں جو عمل ہے وہی فعال ہے - وہی تخلیق کرتا ہے - اس کی تخلیقات کس قدر ہیں اس کی تفصیلات تمام قرآن پاک میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں - جب قرآن پاک پڑھیں تو تھوڑا سا پڑھیں اور بہت غور و فکر کے ساتھ پڑھیں یعنی زیادہ سے زیادہ وقت لگا کر - کبھی یہ خیال نہ کریں کہ جو کچھ معانی علم لدنی سے ناواقف علماء حضرات نے لکھ دیئے ہیں وہ کافی اور وافر ہیں - وہ اکثر قیاسی ہیں - چونکہ قیاسی ہیں اس لئے غلط ہیں - اگر صحیح ہیں تو ناکافی ہیں -

 زیادہ تر عربی کے الفاظ جو اردو میں بڑی حد تک مانوس ہیں آپ انہی کی حدود میں اور انہی کی گہرائی میں غور کرنے کی عادت ڈالیں تو علماء حضرات کے کیئے ہوئے معانی پر انحصار کرنا نہیں پڑے گا –

اب محسوسیت کا مسئلہ باقی رہا - یہ زوائد میں سے ہے - اس کی تشریح مختصراً اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جس صلاحیت کو آپ بیدار  کرلیں اور جتنا کرلیں اتنا کام کرتی ہے - جو شخص انجینئر ہونا چاہے ہوجاتا ہے اور جس درجہ کا ہونا چاہے ہوجاتا ہے - اگر بہت کوشش کرے تو بہت اچھا ہوجائے گا نہیں تو معمولی فنکار رہ جائے گا - اس طرح آدمی اپنی صلاحیتوں کی حقیقت اور مکمل کارکردگی سے بےخبر رہتا ہے - وہ اپنی ذات کا کوئی جائزہ نہیں لے سکتا - یہ نہیں جان سکتا کہ اس کی ذات کہاں تک محیط ہے - یہ انسان کی سب سے بڑی محرومی ہے کہ اس نے محسوسیت کو میڈیم بنا رکھا ہے - اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے استعمال کرے اور جتنا زیادہ چاہے استعمال کرے - البتہ یہ بہت بڑا سقم ہے کہ وہ اس پر ہی اپنی ذات کو منحصر کردے - جب ذات کو محسوسیت پرمنحصر کر دیا جائے گا تو ذات بالکل معطل ہوجائے گی اور انسان محسوسیت کے ہاتھوں کھلونا بن جائے گا - اب محسوسیت کھلونے کو توڑ دے یا محفوظ رکھے یہ اس کی مرضی ہے - فی الواقع غلامی کو ساری دنیا برا سمجھتی ہے لیکن تمام نوع انسانی نے محسوسیت کی غلامی کا طوق فخریہ اپنے گلے میں پہن رکھا ہے - خواب اور خیال سے فائدہ نہ اٹھانے کا اصل سبب یہی ہے – بات یہ ہے کہ خواب ورائے  محسوسیت سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اسے محسوسیت ناپسند کرتی ہے اور جب یہ انسان کی زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح بیداری کا عمل داخل ہوتا ہے تو محسوسیت ہر طرح کی رکاوٹ ڈالنے لگتی ہے - اور ہر دروازہ میں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے تاکہ ورائے محسوسیت عملی زندگی میں داخل نہ ہوسکے - انسان  محسوسیت کے ذریعے ہی کسی چیز کو دیکھتا ، سنتا ، سمجھتا ہے - چنانچہ جب ورائے محسوسیت کے ذریعہ کوئی چیز زندگی میں داخل ہونا چاہتی ہے تو محسوسیت اس چیز کی صورت مسخ کردیتی ہے - پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان اس کے قریب جانے کی بجائے اس سے دور بھاگتا ہے اور وہ چیز کامن سینس  نہیں رہتی بلکہ پراپر سینس  بن جاتی ہے - کامن سینس کا مطلب یہ ہے کہ سب انسان اس کو دیکھیں ، چھوئیں اور یکساں طریقہ پر سمجھیں - اور پراپر سینس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اس کو دیکھ رہا ہے ، سمجھ رہا ہے ، چھو رہا ہے اور دوسرا شریک عمل نہیں ہے - یہاں سے ورائے محسوسیت کی قیمت ختم ہوگئی - اس لئے کہ نوع قیمت نہیں لگاتی - فرد قیمت لگاتا ہے - فرد کا قیمت لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا - اس کے علاوہ یہ بھی ہوا کہ فرد کی نگاہ میں بھی  محسوسیت نے ورائے محسوسیت کی شکلیں مسخ کرکے پیش کیں تاکہ وہ سمجھے کہ یہ بات واقعاتی نہیں تھی فضول تھی - اس پر اعتماد نہ کرے اور فائدہ نہ اٹھا سکے –

 اندازہ لگایئے جو خواب انسان دیکھتا ہے اور جو خیال انسان کے ذہن میں آتا ہے وہ کس قدر مسخ اور کتنا بگڑا ہوا ہوتا ہے - جس گمشدہ نوجوان کے بارے میں آپ نے معلوم کیا ہے ، وہ یورپ میں ہے ، زندہ ہے لیکن اس کے مالی حالات اچھے نہیں - غالباً وہ اگلے سال تک وطن واپس آجائے گا -اس نے گھر سے جس طرح کی لاتعلقی اختیار کرنا چاہی تھی وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا - یہی اسباب اس کو وطن واپس لے آئیں گے - آپ اتنی ہی بات ان حضرات کو بتادیں – 


                               
 درجہ بدرجہ سب کو سلام و دعا -

                              قلندر حسن اخریٰ محمّد عظیم برخیا –

 

  مرشد کریم حضور حسن اخریٰ محمّد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء ابدال حق خیریت سے ہیں اور آپ کے لئے دعا فرماتے ہیں -

بہ قلم : خواجہ  شمس الدین عظیمی 

 63 - 10 - 13


بخدمت جناب عبدالقیوم عظیمی صاحب 

مولوی بازار - ڈھاکہ - ( مشرقی پاکستان )

مکتوب گرامی: اسی طرح آپ  کے ایک خط کا نمونہ جو آپ  نے حُریت کراچی کے قاری کے جواب میں لکھوایا اور ۷ جولائی ۱۹۷۸ کو روحانی علاج کے کالم میں شایع ہوا تھا: خط کا متن پیش ہے۔

نوع انسانی کا طرز کلام جتنا محدود ہے اور اس کے اندر جتنی خامیاں ہیں ، ہم ان پرغور نہیں کرتے - ممکن ہے ہماری نوع اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھتی ہو یا اس طرف توجہ کرتی ہو تو اس طرح جیسے کوئی خلا میں جھانکتا ہے اور جھانکنے کو فضول سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے - مثال : ہم کبھی افسانوی زبان میں یا واقعاتی تذکروں میں کہتے ہیں کہ ہمارا گزر ایک بہت بڑے اور گھنے جنگل سے ہوا - اس جنگل میں سائے تھے اور تیز ہوا کی چیخیں سنائی دیتی تھیں - تاریک راتوں میں جب ہوا رک جاتی تو جنگل بھیانک سناٹے اور موت کا نمونہ بن جاتا - آپ ان جملوں کو چند بار پڑھیئے اور غور کیجئے کہ بیان کرنے والے نے فی الواقع کوئی صحیح اور معین بات کہی ہے ؟ یا قارئین کو صرف اندھیرے میں پھینک دیا ہے - بیان کرنے والے نے یہ بات بالکل نہیں بتائی کہ جنگل میں کون کون سے درخت تھے - ان کا قد و قامت ، ان کا رنگ و روپ ، ان کے پھول پتیاں کس وضع کی تھیں اور ان درختوں سے ملحق کون کون سے پرندے ، کس قسم کے جانور اور ان کی شکل و صورت کیا تھی - زمین اور چھوٹے پودے اور زمین پر اگی ہوئی گھاس ، زمین کا اتار چڑھاؤ ، زمین پر بہنے والا پانی ، نرم ریت اور سخت پتھریلے علاقوں کے نقش و نگار کیا تھے -  اس جنگل میں کتنے آبشار ، کتنے پہاڑ ، کتنے ٹیلے اور کتنے ریگ زار تھے -

قارئین کبھی یہ نہیں سوچتے کہ بات کس قدر بے سروپا کہی گئی ہے حالانکہ وہ عبارت پڑھنے کے بعد کچھ نہیں سمجھتے بجز اس کے کہ جنگل کا ایک تصور ذہن میں بنا اور ذہن اس سے چمٹ کر سوگیا - اور صرف ایک سیکنڈ یا ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جاگ اٹھا اس امید پر کہ آگے اور کیا پیش آیا ، قصہ گو اور کیا کہے گا - قارئین اس مقام تک پہنچ کر مگن ہوجاتے ہیں اور افسانہ نویس یا مقرر کی تعریف کرنے لگتے ہیں - اس قسم کی بھول بھلیاں علم کے تمام میدانوں میں عام ہیں -  انہیں بھول بھلیوں سے متعلق انسان نے کروڑ در کروڑ کتابیں لکھ ڈالیں ، کھرب در کھرب تقریریں کر ڈالیں اور سنکھ در سنکھ روزمرہ گفتگوؤں کی داغ بیل ڈالی ہے - اب ذرا سنتے جائیے ،  تاریخ انسانی کیا کہتی ہے ؟ یہ وہ تاریخ ہے جو نوع انسانی کے تمام علوم کی نشاندہی کرتی ہے -

ہزاروں سال پہلے کا دور :

 ماہ پرستی اور ستارہ پرستی کے دور میں کہا گیا کہ زمین ٹھہری ہوئی ہے ، سورج گردش کرتا ہے - یہ بہت پرانا دور تھا ، ہزاروں سال پہلے کا دور - پھر ایک دور آیا - انجانی قوتوں سے ڈرا ہوا انسان کہنے لگا میری ساری گردشیں دیوتاؤں کی قوت سے سرزد ہوتی ہیں - اس دور کے انسان نے یہ بھی کہا کہ کہیں نہ کہیں روحوں کا مرکز ہے - اس ہی مرکز سے انسان کی قسمت وابستہ ہے ، ستاروں کی قسمت وابستہ ہے ، پہاڑوں ، درختوں ، دریاؤں اور جانوروں کی قسمتیں وابستہ ہیں -  ہوائیں اور روشنیاں بھی اسی مرکز ارواح سے ملتی ہیں - رفتہ رفتہ ان روحوں کی شکل و صورت معین کی گئیں - دیوتاؤں کے مجسمے بنائے گئے - بت پرستی عام ہوتی چلی گئی ۔فیثا غورث اور تھیس کا زمانہ آیا تو انہوں نے کہا یہ ستارے  کیا ہیں ؟ مادہ کیا ہے ؟ یہ کائنات کیا ہے ؟ مادی ذرات کا مجموعہ ہے - اب انسان کچھ فلسفیانہ اور طبعی طرزوں پر باتیں کرنے لگا - ان کا خیال یہ تھا کہ آدمی کی آنکھوں سے روشنیاں طلوع ہوکر چیزوں کو دیکھتی اور پہچانتی ہیں - تمام نوع انسان میں لاکھوں باتیں کرنے والے حکماء ، فلسفی ، ہیئت داں ، طبیعاتی ماہرین وغیرہ پیدا ہوئے اور کچھ نہ کچھ کہتے رہے - ان میں اختلاف رائے تھا کیوں ؟

اس لئے کہ حقیقت تک کوئی نہیں پہنچا - حقیقت صرف ایک ہوسکتی ہے - ہزاروں ، لاکھوں نہیں ہوسکتیں - اگر یہ لوگ حقیقت سے واقف ہوجاتے تو اختلاف رائے ہرگز نہیں ہوتا -

سورج مرکز ہے ، زمین مرکز نہیں ...   

اب سورج کی پرستش شروع ہوگئی - کوپر نیکس آفتاب پرست تھا - اس نے کہا سورج مرکز ہے - زمین مرکز نہیں ہے - پیشتر بھی یہ بات کہی گئی تھی لیکن کوپر نیکس نے زیادہ زور دے کر ہیئت کو نقشہ بدل کر پیش کیا - آئزک نیوٹن کا زمانہ آیا - اس نے کہا کشش ثقل اور میکانکیت فطرت کا اسلوب ہے - نیچر ( Nature  فطرت ) میں گراریوں کے ذریعے عمل ہورہا ہے - صدی  گزرنے لگی تو اہل فن نے کہنا شروع کردیا کہ فطرت کے تمام مظاہر کمانیوں اور گراریوں پر عمل پیرا نہیں ہیں - نیوٹن کے بعد دوسری صدی آئی تو اس کے وضع کردہ جذب و کشش اور مقناطیسیت بھی بحث طلب امور بن گئے ۔ بائیس سو برس پہلے  دیمقراطیس ( Democritus ) نے جو بات کہی تھی کہ مادہ کا آخری ذرہ جزو لاتجزیٰ ہے ، وہ ٹوٹ نہیں سکتا - یہ بات پھر لوٹ آئی مگر امتداد زمانہ کے ہاتھوں یہ تھیوری ( Theory، نظریہ ) پامال ہوچکی تھی - سائنس دانوں نے کہا جوہری نظام قابل قبول ہے - مگر جوہری نظام کا آخری مرحلہ کیا ہوسکتا ہے ؟ یہ جاننا ضروری ہے اور جوہر کو توڑنے کی جدوجہد شروع ہوگئی -

 فرائڈ کا نظریہ:

 نفسیات دانوں نے باصرہ ، لامسہ اور سامعہ کے مہیجوں کا سہارا لینا شروع کردیا - فرائڈ نے اپنے دور سے پہلے لوگوں کی کہی ہوئی باتوں پر توسیعی تانا بانا تیار کیا - جو ڈارون کی ارتقائی زنجیروں سے ملا جلا پنجرہ بن گیا - اس پنجرہ میں اسلاف سے منتقل شدہ لی بی ڈو داخل ہوگیا جس کے اندر نوع انسان کے گناہوں کی تمام حسرتیں مجتمع تھیں - اسے بھی روح کا ڈر ہوا تو اس نے کہا :

" یہ صرف لاشعور ہے "-

آئنسٹائن کے معاصر جب چند صدیوں کے  معرکتہ الآراء اجتہاد پر تبصرہ کرنے لگے تو انہوں نے شعاعی مظاہر ، مقناطیسی مظاہر اور حیاتی مظاہر کو الگ الگ کردیا اب جوہر ٹوٹ چکا ہے اور آئنسٹائن کی وضع کردہ تھیوری زمان و مکان کے بارے میں پھیل چکی ہے - اس نے کہا کہ زمان و مکان کا الگ الگ تصور بالکل غلط ہے کیونکہ مکان میں ترچھا پن ہے - تشریح کی گئی کہ فطرت کا عمل جو کائنات میں جاری و ساری ہے ، روانی میں عمودی نہیں بلکہ اس میں ترچھا پن ہے - یہاں جذب و کشش ، نظام سیارگان اور روشنی کی رفتار سب کی سب مشکوک ہوگئی - یہ دور اضافیت اور مقداریت کے نام سے موسوم ہوا -  ذرا سوچیئے روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ مان لی جائے تو مکان میں ترچھا پن اور اس کی پیمائش کس طرح ممکن ہے جب کہ ہم فاصلہ بالراست ناپتے ہیں یعنی عمودی لائن ڈال کر ، نہ کہ نیم دائرہ بنا کر - آئنسٹائن اورآئنسٹائن جیسے اور لوگ ، مابعد النفسیات اس کی حمایت نہیں کرتا -   

علم مابعد النفسیات :

   علم ما بعد النفسیات اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارے طرز بیان میں قدم قدم پر اتنی خامیاں ہیں کہ ہم جوش میں سب کچھ کہتے چلے جاتے ہیں  اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں: ہم کہا کرتے ہیں کہ ماضی کے نقوش ہیں - ہماری زمین کھربوں سال پرانی ہے اور کائنات کی عمر ممکن ہے سنکھوں سال سے بھی زیادہ  ہو - ان الفاظ کے معانی کیا نکلتے ہیں اور ذرا سمجھنے کی کوشش کیجئے۔الفاظ کا مطلب بہت واضح ہے یعنی سنکھوں سال کا زمانہ منجمد ہوکر مکان (Space) کی صورت بن گیا - جس کو ہم کائنات کہتے ہیں - جب تک زمانہ منجمد نہیں ہوا تھا اس وقت تک نہ شاہد تھا نہ مشہود - یہ کہنے والا بھی نہیں تھا کہ یہ کائنات ہے اور نہ کائنات تھی -

یہ وہی زمانہ ہے جس کو نہ ہم چھو سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور نہ باہر لیکن زمان (Time) یا لازمان کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کرسکتے -

سطور بالا سے یہ بات واشگاف ہوجاتی ہے کہ خواب ہو یا بیداری دونوں حالتوں میں ہم زمان کا محض تذکرہ کرتے ہیں - زمان حواس کی گرفت سے ماوراء ہے - آپ کا یہ سوال کہ خواب کے حواس میں زمانیت کی طرح مکانیت نظر انداز نہیں ہوتی ، محض شعوری اور لاشعوری تعین کی درجہ بندی ہے - شعور اگر زمان کی طرف متوجہ ہے یعنی شعور کا یقین یہ ہے کہ اب ایک لمحہ ، دوسرا لمحہ اور گھنٹے گزر رہے ہیں تو یہ تعین زمان کی گرفت سخت تر کردے گا - لیکن اگر شعور زمان کے گزرنے یہ نہ گزرنے کی طرف توجہ دے کہ لمحے گھنٹے گزر رہے ہیں تو یہ تعین زمان کے گزرنے یا نہ گزرنے کی طرف توجہ دے تو لمحے ، گھنٹے ، دن اور ہفتے کی زمانیت ایک آن میں سمٹ جاتی ہے -

عرض یہ کرنا ہے کہ زمان کو رفتار کی بنا پر سمجھا جاتا ہے - فی الواقع ہم کسی بھی شے کو اس وقت تک نہیں دیکھ سکتے ، نہ ہی چھو سکتے ، نہ ہی محسوس کرسکتے جب تک زمانیت منجمد نہ ہوجائے - زمانیت کے انجماد کی رفتار سے مکانیت بھی لپٹتی اور سمٹتی رہتی ہے - اس کی مثال یہ ہے کہ ہم پچاس سال کی عمر میں ایک ایسی بات یاد کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ چار یا پانچ سال پیچھے ماضی میں پہنچتی ہے - ہمارے اوپر اس واقعے کی پوری کیفیات مرتب ہوجاتی ہیں - لمحوں ، سیکنڈوں یا منٹوں کے لئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری عمر اس وقت پچاس سال ہے - اسی بات کو ہم نے زمانہ کا منجمد ہونا کہا ہے -

ما بعدا لنفسیات اور نفسیات

مابعد النفسیات  اور نفسیات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نفسیات داں یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ انہیں معلوم ہے کہ شعور اور حواس کا مخزن اور فارمولا کیا ہے ، حواس کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے دو سال کا بچہ ماں باپ کے کہے ہوئے الفاظ دہرا دیتا ہے -مابعد النفسیات اور اس سے ملحقہ سب علوم اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ حواس اگر ہیں تو ان کی حقیقت کیا ہے - زمانیت مکانیت کی موجودگی اگر ہے تو اس کا شعور و حواس سے کیا تعلق ہے اور فی الواقع ان کا Source ( ذریعہ ) کیا ہے -   "

 

 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔