Topics

رباعیات کا جہاں

 

]۴[ حضور بابا رحمتہ اللہ علیہ نے جب اپنے اندر پرورش پانے والے جب شعر پسندی اور شعر گوئی کے جھرمٹ میں رباعیات لکھنے کا ارادہ کیا تو طبعی کم طاقتی کے باوجود اس مشن کی تکمیل میں ہم ہ تن مصروف ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور بابا رحمتہ اللہ علیہ  پر الہامی انکشافات کا نزول  ہو رہا ہے اور رباعی پے رباعی صفحہ قرطاس پر گویا مچل مچل کر پھولوں کی طرح بکھر جانے کے لیے بے چین ہے۔اس طرح  آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پانچ سو سے زائد رباعیاں خود اپنے قلم سے بیاض پر رقم کر ڈالیں۔ لیکن پھر صحت  کے لیے رباعیات کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح آپ نے اس انتخاب سے تین سو سے زائد رباعیاں کم کر دیں اور صرف ۱۸۲ رباعیات باقی رہنے دیں۔ یہی ایک سو بیاسی ۱۸۲ رباعیات ہیں جو کتابی شکل میں سامنے آئیں۔

                رباعیات کی تصنیف و تالیف کے سلسلے میں اگر کوئی شہرت و دوام حاصل کر سکا ہے تو وہ عمر خیام کا ہے۔ مگر اس ضمن میں ان رباعیات کے اپنی اصل فنی اور فلسفیانہ کمالات سے کہیں زیادہ حصہ مغربی مترجمین یا مستشرقین کا ہے جنہوں نے عمر خیام کے خیالات اور احساسات کو اپنے الفاظ میں اور خیال کے روپ میں پیش کیا ہے۔

                اس ضمن میں سب سے زیادہ مشہور عام ایڈورڈ فٹز جیرالڈ Edward Fitzgerald  ہے۔ عمر خیام نے رباعیات فارسی میں کہی تھیں۔ اگرچہ اس کے رنگ میں دیگر فارسی دان شعرا ء نے رباعیات کہہ کر اصل رباعیات میں خلط ملط کر کے ان کی تعداد اور مبالغہ کی حد تک بڑھا دی ہے۔ اس کے باوجود ماننا پڑے گا کہ بعض ” غیر خیامی رباعیات “ اتنی کاوش اور عرق ریزی سے کہی گئی ہیں کہ اصل  خیامی رباعیات سے ان کو الگ کرنا نہایت دشوار ہے۔ رباعیات عمر خیام کا غالب رنگ یا فلسفیانہ کلام ”خمریات“ پر مشتمل ہے اور اسی میدان میں اس کے مصنف نے شہرت عام پائی ہے۔

                اس کی ایک رباعی کا ایک مصرع ”خوش باش دے کہ زندگانی این ست “ زبانِ زد خاص و عام ہے یوں پوری رباعی اسی کیف و مستی میں ڈوبی ہوئی ہے۔

                               

مے نوش کہ عمر جودانی این است                  خود حاصلت از دور جوانی این ست

                                ہنگام گل بادہ و یارں سر مست                                        خوش باش دے کہ زندگانی این ست

ترجمہ: شراب پی کر اسی سے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے ، عہد شباب کا حاصل بھی یہی ہے بہار کا موسم ، شراب کے دن اور یارن سر مست تو بھی کچھ دیر کھیل لے کہ زندگی اسی کو کہتے ہیں۔

رباعیات قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ میں بھی ”ساقی نامہ“ کا اچھا خاصا حصہ موجود ہے۔

حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔

                                اک جرعہ مئے ناب سے کیا پائے گا                 اتنی سی کمی سے فرق کیا آئے گا

                                ساقی مجھے اب مفت پلا کیا معلوم                    یہ سانس جو آگیا ہے پھر آئے گا

بولِ کلام سے بچنے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ اگر ہم مٹی کی مرکزی حیثیت کو ذہن نشین کرانے کے لیے حیات انسانی کی مختلف کیفیات کو پیش کر دیں تا کہ یہ معلوم ہوکیا جا سکے کہ حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی الہام بد اماں فکر و نظر سے مٹی کی حقیقت کے کون کون سے گوشے واشگاف کیے اور ہر لمحہ اور ہر آن پاؤں تلے روندی جانے والی مٹی کس علوئے مرتبہ اور نیر نگی نظارہ کی حاصل ہے اور یہ کس حد تک تخلیقی رازوں کی امین ہے۔

                انسان ]آدم[ اور فرشتہ کے درمیان فرق مراتب بھی شعراء کا موضوع رہا ہے۔ ذوق کو شکایت ہے کہ ان کی سرشت میں ملکوتی صفات تھے مگر انسان بنا کے ان کی مٹی خراب کر دی گئی!

جو ہر تو مجھ میں تھے ملکوتی صفات کے

انسان بنا کے کیوں مری مٹی خراب کی!

                غالب کو حسرت ہی رہی کہ اگر انہیں گردشِ دوراں کا شکار ہونا تھا تو بجائے انسان کے اگر جامِ مے بنادیے جاتے تو ان کی مٹی

خراب نہ ہوتی!

گردش میں رکھنا تھا تو بنانا تھا جامِ مئے

انسان بنا کے کیوں مری مٹی خراب کی

                حضور قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ نے ان مخصوص شاعرانہ ندرت خیالی کو اگرچہ رد تو نہیں کیا مگر اسے داد و تحسین سے بھی نہیں نوازا۔ کیوں کہ ایسی تمام باتیں یا خیالات اگرچہ بہ ظاہر شعر گوئی کے میدان میں شوخی بیان یا ندرت خیال کا درجہ رکھتے ہیں مگر ان کا منفی پہلو ان کے دل کو کبھی متاثر نہ کر سکا۔ آپ کی بنیادی فکر کا نمایاں بلکہ غالب ترین نکتہ مثبت [Positive] ہی رہا۔ اس سے ثابت ہتا ہے کہ اگر منفی صورت ِ حال کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے تو فکر میں تعمیری تاثر اُبھرتا ہے اور یہی صحت ذہن کی علامت ہے۔

یہاں پہ پیج 49 ٹائپ کرنا ہے

ماتھے پہ عیاں تھی روشنی کی محراب                               رخسار و لب جن کے تھے گہر نایاب

مٹی نے انہیں بدل دیا مٹی میں                                      کتنے ہوئے دفن آفتاب و مہتاب

ان رباعیات میں ”مٹی“ نیرنگی اور بو قلمونی ذہن انسانی پر کچھ اس طرح نقش برپا کرتی ہے کہ حسن نظارہ اور عبرت انگیزی دونوں اپنی طرف کھینچتے ہیں تو کمال و زوال کی یہی منظر کشی انسان کی بے بسی اور بے ثباتی کی یاد دہانی بھی کرتی ہے۔

اہرام، فراعین کامدفن ہیں آج                                    سیاحوں سے تحسین کا لیتے ہیں خراج

رفتار ِ زمین کی ٹھوکریں کھا کھا کر                    مل جائے گا کل تک ان کا مٹی میں مزاج

 

 

درس عبرت کا موقع:

جن قبروں میں ہیں شاہ و گدا ہم پہلو                              جن قبروں میں مٹی ہوئے چشم و ابرو

ان قبروں کا ہنر ذرہ لرزتا ہے عظیم                                جب فاختہ کہتی ہے کُو کُو                      کُو کُو

اسی رباعی میں حضرت قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ نے فاختہ کو جسے ادبی دنیا میں امن و آتشی کا پیامبر کہا جاتا ہے ، عبرت و حسرت کا ایسا مرقع [Medium] جس کا نغمہ پرور کُوکُو  سے شاہ و گدا کی قبریں بھی لرز جاتی ہیں۔ یہ خیال مشرقی ادب اور مزاج کا عکس یا علامت ہے۔ مگر اہل ِ مغرب کے نزدیک یہی بے ضرر پرند و شعلہ نفس اور فضا کولرز و براندام کر دینے والا دشت انگیزی کا آلہ کار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ خیالات انگریزی ادب کے بلند مقام شاعر اور محقق  T.S. Eliot  ٹی ایس ایلیٹ کے ہیں، ہمہ شما شاعروں اور انشا ء پردازوں کا کیا ذکر!

The dove Descending Breaks The Air With Flame Of  Incandescent Terror

ترجمہ: فاختہ نیچے کی جانب پرواز کرتے ہوئے ، اپنی شعلہ بار دہشت سے ہوا ]فضا[ کی لہروں کو پاش پاش کر دیتی ہے۔

اس رباعی کے توسط سے امن پسند فاختہ کے تقابلی مطالعہ سے مشرق و مغرب کے افکار و اذہان کی علمی و ادبی مزاج کی متضاد سمتوں میں سفر کرنے والی کہروں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ایک صاحب نظر ملکوتی صفات و مزاج کے مالک نباض  فطرت کی ذہنی عکاسی کا نقشہ قلب و نظر کو ٹھنڈک اور روشنی بہم پہنچاتا ہے تو دوسری طرف ایک مغربی مفکر کو ہر طرف دہشت و ہلاکت نظر آتی ہے ۔ اگر آپ حضور قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ کے اپنے مزاج طبعی اور نفاست کلام کا اندازہ لگانا چاہیں تو یہی ٹھنڈک اور فرحت بخشی آپ کے حسن سلوک اور خیال آفرینی کا طرہ امتیاز قرار دی جا سکتی ہے۔

صحیح طرز پر زندگانی بسر کرنے کا گُر بھی سیکھ لیجیئے کہ زندگی کو مٹی نہ ہونے دینے کا یہی مسرت بخش ذریعہ ہے !

 

اچھی ہے بُری دہر ، فریاد نہ کر                        جو کچھ گزر گیا ہے، اسے یاد نہ کر

دو چار نفس عمر ملی ہے تجھ کو                           دو چار نفس عمر کو برباد نہ کر

 

 


 

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔