Topics

روحانی تعلیم و تربیت

 

۱۹۱۳۔۱۹۱۴ : علی گڑھ قیام کے دوران دور اندیشی کی طرف میلان بڑھ گیا۔ داخلہ لینے کے بعد آپ  یونیورسٹی میں حاضری دینے کی بجاۓ  علی گڑھ کے ایک قبرستان کی مسجد کے حجرہ میں ایک خدا رسیدہ بزرگ المعروف مولانا کابلیؒ رہتے تھے ان کی خدمت میں صبح 9 -- 10 بجے سے رات کے 9 --10 تک رہتے اس کے بعد ترکمان دروازہ منے مرزا صاحب کے مکان اپنی قیام گاہ پر آجاتے -اس بارے میں نثار علی بخاری کا بیان ہےکہ:

" ایک مرتبہ میں قلندر بابا سے ملاقات کرنے کے لئے علی گڑھ آپ کی قیام گاہ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ آپ مولانا کابلیؒ   کے پاس روزانہ چلے جاتے ہیں اس وقت بھی وہیں ملیں گے چنانچہ مرزا صاحب نے ایک لڑکے کو رہنمائی کے لئے میرے ساتھ کردیا کہ مولانا  کابلیؒ کے پاس لے جاؤ...

 

 جب میں مولانا کابلیؒ کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو قلندر بابا اندر تشریف فرما تھے میری آواز سن کر والہانہ حجرے سے باہر آئے اور بڑے تپاک سے معانقہ کرکے مولانا کابلی کی خدمت میں حجرہ کے اندر لے گئے .. میں مولانا صاحب کے حضور مودبانہ سلام عرض کر کے  دوزانو بیٹھ گیا قلندر بابا نے میرا تعارف کرایا تھوڑی دیر کے بعد مولانا صاحب سے اجازت لے کر شہر میں آگئے میں نے  مولانا صاحب کی خدمت میں رہنے اور تعلیم سے بے اعتنائی کا سبب قلندر بابا سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ... "   بھائی ان اسکول کالجوں کی تعلیم میں کیا رکھا ہے میں تو مولانا صاحب سے کچھہ اور ہی علم حاصل کر رہا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ الله جل شانہ میرے ارادہ میں کامیابی عطا فرمائے "   --[1]

قلندر بابا کے والد صاحب کو جب یہ معلوم ہوا کہ قلندر بابا کا رجحان تعلیم حاصل کرنے کی بجاۓ درویشوں کی طرف ہے۔.. آپ کے والد صاحب نہایت نیک طبیعت اور خوش مزاج تھے۔

انہوں نے ایک مشفق باپ کی حیثیت سے فرمایا کہ :

 بیٹے اب ماشااللہ خود سمجھدار ہو .. اپنے مستقبل کی بابت خوب سمجھ سکتے ہو جو تم مناسب خیال کرو وہ کرو...

سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۱۶ میں مستقل طور پر بلند شہر واپس آگئے -اور ۱۹۱۶ میں ہی ۱۸ سال کی عمر میں بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں جاناشروع کیا۔ سیدمحمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے نانا تاج الدین ناگ پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ۹ سال تک دن رات مقیم رہے۔ نو سال کے عرصے کے دوران میں بابا تاج الدین ناگ پوری رحمۃ اللہ علیہ نے روحانی تربیت فرمائی۔

بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ۷۲۶ محرم ۱۳۴۴ ھ بمطابق ۱۷    اگست ۱۹۲۵ س دنیا سے پردہ فرمایا۔ وصال کے وقت قلندر بابا کی عمر ستائیس سال تھی ۔وصال سے پہلے انہوں  نے سیدمحمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد یہاں قیام نہ کرنا چناں چہ  نانا صاحب کے وصال کے بعد ناگپور آ ناجانا ترک کر دیا۔[2]


 



[1] سید نثار علی بخاری، کلام عارف(مرتبہ پروفیسر عظیمی ایف اے شیخ) کراچی سن ندارد ص۔۱۹۱۔۱۹۰

[2] کتابچہ روحانی تربیتی ورکشاپ، قلندد شعور فاونڈیشن کراچی، ۲۰۰۱، ص ۶

Topics


Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)

Yasir Zeeshan Azeemi

میں نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ کو بولتے سنا ہے۔

گفتہ اور گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

عظیم بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔