Topics
رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ ]۳۱[
رباعی شاعرانہ اصطلاح میں اس صنعت کا نام ہے ۔ جس کے چار
مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے۔ پہلے ، دوسرے
اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا لازمی ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو
کوئی عیب نہیں۔ رباعی کے موضوعات کا کوئی تعین نہیں ، اردو فارسی کے شعراء نے ہر
قسم کے خیال کو نظم کیا ہے۔
رباعی کے آخری دو مصرعوں بالخصوص چوتھے مصرعے پر پوری رباعی
کے حسن و اثر کا دارومدار ہے۔ رباعی کا ابتدائی نام ترانہ ہے۔ قدر بلگرامی بہ
حوالہ میزبان الا فکار و خزانہ عامر و لفظ ترانہ کا ماخذ قرار دیتے ہیں ۔ شمس
الدین محمد قیس رازی کے حوالے سے صاحب بحر الفصاحت لکھتے ہیں کہ ترانہ اس کو اس
لیے کہتے ہیں کہ ارباب موسیقی نے قزن پر اچھے اچھے راگ بنائے ہیں۔ عربی میں ایسے
اشعار کو قول بولتے ہیں۔ ]۳۲[
رباعی کے ہر مصرع کا پہلا رکن مفعولن یا مفعول ہوگا اور
آخری رکن میں فعل فاع یا فع ضرور آئے گا۔ مصرع کے درمیان بقیہ اوزان مفاعلن ،
مفاعیل، مفاعلین، فعول اور فاعلن میں سے کوئی دو آئیں گے۔ رباعی کے مصرعوں کے لیے
کل اوزان کی تعداد ۴۲ ہے۔ جن میں سے ۲۱ اوزان بحور کے خاندان اخرب سے ہیں ، جب کہ
باقی ۲۱ بحور کے خاندان اخرم سے ہیں۔
اوزان شجرہ ء اخرب
بحور اخرب کی پہچان یہ کہ وہ ہمیشہ رکن ” مفعول“ سے شروع
ہوتے ہیں۔
اخرب مقبوض مکفوف ]مفعول۔مفاعلن۔مفاعیل
فعل[
اخرب مقبوض مکفوف اہتم ]مفعول۔مفاعلن
مفاعیل فعول[
اخرب مقبوض ازل ]مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع[
اخرب مقبوض ابتر ]مفعول مفاعیلن
مفاعیلن فع[
اخرب مکفوف اہتم ]مفعول مفاعیل
مفاعیل فعول[
اخرب مکفوف مجبوب ]مفعول مفاعیل
مفاعیل فعل[
اخرب مکفوف ازل ]مفعول مفاعیل
مفاعیل فاع[
اخرب مکفوف ابتر ]مفعول مفاعیل
مفاعیلن فع[
اخرب مجبوب ]مفعول مفاعیلن
مفعول فعل[
اخرب اہتم ]مفعول مفاعیلن
مفعول فعل[
اخرب مختق ازل ]مفعول مفاعیلن
مفعولن فع[
اخرب مختق ابتر ]مفعول مفاعیلن
مفعولن فاع[
اوزان شجرہ اخرم
شجرہ اخرم کی تمام تکور ”مفعولن“ سے شروع ہوتی ہے۔
اخرم اخرب ازل ]مفعول فعول
مفاعیل فاع[
اخرم اخرب مکفوف مجبوب ]مفعولن مفعول
مفاعیل فعل[
اخرم اخرب مکففوف اھتم ]مفعولن مفعول
مفاعیل فعول[
اخرم مختق اخرب ابتر ]مفعول مفعولن مفاعیلن فع[
اخرم مختق اخرب اہتم ]مفعولن مفعولن
مفعول فعول[
اخرم مختق اخرب مجبوب ]مفعولن مفعولن
مفعول فعل[
اخرم مختق ازل ]مفعولن مفعولن
مفعولن فاع[
اخرم مختق ابتر ]مفعولن مفعولن
مفعولن فع[
اخرم اشتر مکفعوف اہتم ] مفعولن فاعلن
مفاعیلن فع[
اخرم اشتر مکفوف مجبوب ] مفعولن فاعلن
مفاعیل فعل[
اخرم اشتر ازل ]مفعولن فاعلن
مفاعیلن فاع[
اخرم اشتر ابتر ] مفعولن فاعلن
مفاعیلن فاع[
اردو کے دوسرے اصناف سخن قصیدہ ۔ مثنوی اور غزل کی طرح
رباعی بھی فارسی سے اردو میں آئی ہے۔ بہت دنوں تک فارسی کے زیر اثر اردو رباعی کی
جانب کوئی خاص توجہ نہیں کی گئی۔ پھر بھی اردو نظم کے تاریخی مطالعہ سے پتہ چلتا
ہے کہ اردو شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں بھی رباعیاں کہی جاتی تھیں۔ چناں چہ
اردو کے پہلے بادیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کے کلیات میں متعد رباعیاں موجود ہیں
اور چوں کہ قلی قطب شاہ سے پہلے کسی شاعر کا ایسا کلام دست یاب نہیں ہوا جو قلی
قطب شاہ سے اولیت کا سہرا چھین سکے۔ اسی
لیے اردو شاعری کے اسی باوا آدم کو اردو رباعی کا پہلا شاعر سمجھنا چاہیئے۔]۳۳[
اس
کی رباعیات میں اگرچہ تصوف ہے، مرثیے،نعت ، منقبت اور درس سبھی کچھ شامل ہے۔لیکن
اس کی وہی رباعیاں قابل توجہ ہے جن میں اس نے حسن و عشق کی واردات کو نظم کیا ہے
اور حسن میں اس کی اصل زندگی منعقد ہوتی ہے ۔مختصر یہ محمد علی قلی کےیہاں خمریہ،
نعتیہ، مدخیہ اور عشقیہ ہر رنگ کی روایات
ملتی ہیں۔ ان رباعیوں کی زبان زیادہ تر دکنی ہے۔کچھ رباعیاں کا سلاست و روانی
رکھتی ہیں۔
تذکروں
اور دواوین کی چھان بین کرنے سے اس عہد کے متعدد شعراء مثلاً حضرت دہلوی ،بہادر
علی حشت، عبد الحئی ،تاباں ،احسن اللہ میاں،
عزیزبھکاری اور میر محمد سوز وغیرہ کی
رباعیاں نظر سے گزری ہیں۔ جن میں عبدالحئی
تاباں اور احسن اللہ خان کی رباعیاں خاص
طور پر قابل ذکر ہیں ۔دیوان تاباں ،مرتبہ عبدالحق مطبوعات انجمن ترقی اردو 1935
میں جو رباعیاں شامل ہیں۔ سب کی سب عشقیہ
ہیں اور ان میں میر درد کی رباعیوں کا سا
تغزل پایا جاتا ہے۔ اس عہد میں صرف جرات کے یہاں قابل ذکر رباعیاں ملتی ہیں۔ کلیات
جرات مطبع کارنامہ لکھنو میں کوئی ایک سو بارہ یا تیرہ رباعیاں ہوں گی۔ ان کی
عشقیہ شاعری کی وہی خصوصیات نظر آتی ہیں۔
جو جرات کی غزل میں رچی ہوئی ہے۔گویا اس
دور میں صرف جرات رباعی نگار کی حیثیت سے سب سے بلند درجہ رکھتے ہیں۔
نظیر
اکبر آبادی کا شمار بھی اسی عہد میں کرنا چاہئے ان کے مجموعہ کلام مرتبہ عبدالباری
میں کل بائیس رباعیاں درج ہیں۔ جن میں اخلاق اور واعطانہ نہ مضامین کو نظم کیا ہے
۔عشق معاملات کا ذکر ان کے ہاں نہیں ہے۔ بل کہ روزمرہ کے اخلاقی درس دیے گئے ہیں
۔انیس ،دبیر، غالب ،مومن،اور ذوق وغیرہ کا عہد البتہ رباعی کے لیے مفید ثابت ہوا
۔غالب، ذوق ،مومن ،انیس اور دبیر جیسے باکمال شعراء نے جہاں غزل و قصیدہ اور مرثیہ
کو بام عروج پر پہنچایا وہاں رباعی جیسے بس افتادہ سخت کو بھی ترقی کی راہ پر لگا
دیا۔دہلی اورلکھنو دونوں ادبی مرکزوں میں رباعی کو فروغ نصیب ہوا اہل محلہ نے خاص
طور پر رباعی کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ حالی اور اکبر دونوں نے سعدی کی طرح
اخلاقیات کو شاعرانہ انداز سے رباعی کا
موضوع بنایا اور اس صنعت کو حسن و عشق لوازم واقعات کربلا و مدح اہل بیت کے مخصوص دائرے سے نکال کر زندگی کے
تمام پہلوؤں پر متحد کر دیا۔ صرف مولانا حالی نے زندگی کے جن بے شمار اخلاقی
پہلوؤں اصلاحی نکتوںاور تعمیری تجویزوں کو
رباعی میں جگہ دی۔ اکبر کی رباعیوں میں کا
لہجہ بھی حالی کی طرح یکسر ناصحانہ ہے۔ لیکن ان دونوں کا اپنا اپنا انفرادی انداز
بیان جدا ہے حالی نے جس کام کو انتہائی سنجیدگی
متانت اور خاموشی سے سرانجام دیا اکبر نے اسے طنز و ظرافت اور بعض وقت
قہقہہ کی مدد سے پورا کیا۔ اس عہد میں امیر مینائی اور پیارے صاحب رشید نے بھی
رباعیاں کہی ہیں۔ پیارے صاحب رشید رباعی کے لیے خاص طور پر ممتاز ہیں۔ زبان و بیان
کے اعتبار سے وہ اپنے استاد انیس کے مقلد ہیں۔ لیکن موضوع کے اعتبار سےوہ اپنی
انفرادی شان رکھتے ہیں۔ امیر مینائی کی رباعیاں زیادہ تر نعتیہ ہیں ۔غالب کے شاگرد
مہدی مجروح کا شمار بھی اسی دور میں کرنا مناسب ہے۔
ان
کے بعد رباعی کے نمایاں شاعر امجد حیدرآبادی ہیں ان کے موضوعات اگرچہ تصوف ،توحید،
عشق حقیقی اور عرفان سرمدی تک محدود ہیں۔ جو پہلے غزل کی طرف مائل ہوئے اور پھر
نظم کی طرف اور شاید حیدرآباد کے قیام کے زیر اثر رباعی کو اپنا لیا۔فکری تسلسل
وحدت خیال،زور بیان کے حامل ہیں اس لیے انہوں نے نظم کی طرح رباعی میں بھی جلد ہی
ایک ممیز جگہ پیدا کرلی۔جس طرح امجد موضوع اور مواد کے اعتبار سے سرمد کے قریب
ہیں۔
اس
طرح جو شخص اپنی رندانہ جسا رت کی وجہ سے عمرخیام کے قریب ہیں۔ جوش نے تصوف فلسفہ،
رموز فطرت ،اسرار حقیقت ،عرفان ذات ،شراب اور اس کے لوازم اور اس کے متعلق مقتضات
کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے۔ فراق کی رباعی نگاری کی عمر دوسرے ہم عصر
کے اور مقابلے میں بہت کم ہے پھر وہ بھی اپنی بصیرت اور اچھوتے اسلوب اور موضوع کی
نصرت کے سبب بہت جلد صفحہ اول کے اردو رباعی نگاروں میں شامل ہوگئے ۔خواجہ دل
محمد، شفیع شمیم ملیح آبادی ،حیدر دہلوی ،فارغ بخاری ،پروفیسر شور، سیف الدین سیف
، جگن ناتھ آزاد اور اقبال حسین شوقی اور
علامہ اقبال بھی بہ حیثیت راعی نگار عہد حاضر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اقبال
کے بعد افسوس اردو رباعی کا چلن بہت کم رہ گیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ترقی
پسند تحریک اور "جدیدیت "کی لہر میں جب نئے اردو شعرا نے شاعری میں
تجربات کیے اور آزاد نظم کا چلن عام ہوا تو اس سے کلاسیکی اصناف سخن پیچھے چلی
گئیں۔ نہ صرف ان کا رواج کم ہو گیا بلکہ ایک طرح سے ان سے نفرت بھی کی گئی۔اقبال
کے بعد رباعی گو شعرامیں جوش،فانئ،فراق،شمس الرحمٰن فاروقی اور صبا اکبرآبادی،
عبدالعزیز خالد اور صادقین کے نام نمایاں ہیں۔ احمد فراز نے بھی چند ایک رباعیاں
کہی ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی میں صوفیانہ ادب کی نشوونما شعر و نثر کے ذریعے سید
محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے زیادہ کی۔ آپ نے رباعی کے ذریعے سے کلاسیکی
روایت کو زندہ کیا، موضوعات کے ذریعے تصوف کی تحریک دی اور زبان کی نشوونما کی۔
یہ
روایات کتابی صورت میں منظر عام آنے سے پہلے روحانی ڈائجسٹ میں شائع کی جاتی تھیں۔
روحانی ڈائجسٹ اب تک ایک سو چھیاسی رباعیات شائع ہوئی ہیں جن میں سے مرشد کریم نے
اکسٹھ رباعیات کی تشریح فرمائی ہے۔ ان میں سے47 رباعیات کی ایک ہی تشریح فرمائی
ہے۔ جب کہ نور باعیات کی مرشد کریم نے 3 مختلف تشریحات فرمائی ہیں۔جب کہ 125 رباعیات ایسی ہیں جن کی تشریح موجود نہیں ہے ۔ رباعیات کی تفصیل اور جائزہ علم و عروض کے نکتہ نظر سے
پیش ہیں:
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔