Topics
]۲[ قلندر بابا اولیا ء جب کسی موضوع پر تبصرہ فرماتے تو ایسا معلوم
ہوتا کہ جیسے ان کا ذہن ایک دریائے نا پیدا کنار اور ذخیرہ انوار ہے اور یہ انوار
الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر بابا صاحب رھمتہ اللہ علیہ کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں،
حاضرین مجلس ان کی گفتگو سے مبہوت ہو جاتے۔
اولیائے
کرام اور عارف باللہ کشف اور الہام سے وابستہ ہوتے ہیں۔ مراقبے کے ذریعے کشف اور
الہام کی طرزیں ان کے ذہنوں میں اتنی مستحکم ہو جاتی ہیں کہ وہ مظاہر کے پس پردہ
کام کرنے والے حقائق سمجھنے لگتے ہیں اور ان کا ذہن مشیت الہیہ کے اسرار و رموز کو
بہ راست دیکھتا اور سمجھتا ہے اور پھر وہ قدرت کے راز دار بن جاتے ہیں۔ ان روحانی
مدارج کے دوران ایک مر حلہ ایسا آتا ہے کہ ان حضرات کا ذہن، ان کی زندگی اور زندگی
کا ایک ایک عمل مشیت اور رضائے الٰہیہ کے تابع ہو جاتا ہے۔
مرشد
و مکرم، منبع رشد و ہدایت ، شیک طریقت، عالم علم لدنی ، ابدال حق حضرت سید محمد
عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ کی ذات گرامی علم و عرفان کا
ایسا سمندر ہے جس کے کنارے نور نبوت سے ملتے ہیں۔ آپ کی ہستی ایک ایسا ہیرا ہے جس
کی تراش و خراش خاتم النبین حضور علیہ الصلوۃ وسلام کے فیض و کرم سے عمل میں آئی
ہے۔ آپ کی شخصیت ایک ایسا آفتاب ہے جس کی
ضیاء پاشی نور الٰہی اور نور نبوت کے فیضان سے قائم دائم ہے۔
جن
لوگوں نے بابا صاحب کو دیکھا ہے اور رموزِ حکمت سے لبریز ان کے ارشادات سنے ہیں ان
پر یہ حقیقت روشن ہے کہ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ قدرت کے معاملے میں کتنا دخل
رکھتے ہیں۔ اکثر اوقات گفتگو کے دوران وہ ایسے بنیادی نکات بیان کر جاتے تھے۔ جو
براہ راست قوانین قدرت کی گہرائیوں سے متعلق ہیں اور جنہیں سن کر سننے والے کے ذہن
میں کائنات میں جاری و ساری اصول و قوانین کا نقشہ آجاتا تھا۔
قلندر
بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ جب کسی موضوع پر تبصرہ فرمایا کرتے تو ایسا معلوم ہوتا
جیسے ان کا ذہن ایک دریائے ناپیدا کنار اور ذخیرہ انوار ہے اور انوار الفاظ کے
سانچے میں ڈھل کر بابا صاحب کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں۔ حاضرین مجلس اکثر ان کی
گفت گو سے مبہوت ہوجاتے تھے اور یہ کہا
کرتے تھے کہ نظامت کائنات سے متعلق قدرت کے قواعد و ضوابط اور ان پر عملدرامد کے
قانون کو عام فہم زبان میں اس طرح بیان کرنا بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ جیسے عالم
علمِ لدنی ہی کا وصف ہو سکتا ہے۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ارشادات اور
ملفوظات پیش کرنے کا مقصد اور منشا یہ ہے کہ قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے
ذہن ، ان کی طرز ِ فکر اور ان کی تعلیمات سے عوام متعارف ہو جائیں اور ان کے سامنے
یہ بات آجائے کہ اولیا ء اللہ کی طرزِ فکر کیا ہوتی ہے۔ وہ کس طرح سوچتے ہیں اور
ان کے روز و شب کس طرح گزرتے ہیں۔
ایک
نشست میں بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے زمانیت اور مکانیت کی حقیقی طرزوں پر
روحانی نقطہ نظر سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
ہر
تخلیق دو رخوں کی شکل و صورت میں وجود رکھتی ہے۔ چناں چہ زندگی کے بھی دو رخ ہیں
ایک
وسیع تر رخ ] لاشعور[ اور دوسرا محدود تر رخ ]شعور[
زندگی
کا وسیع تر پہلو ]لاشعور[زمان ہے جس کی حدود ازل تا ابد ہیں اور محدود تر پہلو ]شعور[
مکان
ہے جو دراصل زمان ]لاشعور[ کا تقسیم شدہ جزو ہے۔ سوال یہ ہے کہ زمان فی الحقیقت
ہے
کیا؟ اور زمان کی تقسیم یعنی مکانیت کیا ہے؟ اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟
فرمایا:
” عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ زمانہ گزرتا رہتا ہے حالاں کہ فی الحقیقت زمان ریکارڈ ]ماضی[ ہے۔ حال اورمستقبل علاحدہ وجود نہیں رکھتے بلکہ ماضی کے ہی اجزاء ہیں۔ حضور علیہ الصلواۃ وسلام نے فرمایا : ” جو کچھ ہونےوالا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہو گیا۔“
یہاں تک گفتگو کے بعد بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث
کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
ایک
کتاب ہے جو کہ لکھی جا چکی ہے یعنی ماضی ]ریکارڈ[ ہے۔ اب اس کتاب کو پڑھنے کی طرزیں مختلف ہیں۔
اگر کتاب شروع سے ترتیب و تسلسل سے پڑھی جائے یعنی ایک لفظ پھر دوسرا، ایک سطر، پھر دوسری سطر،ایک صفحہ پھر دوسرا صفحہ پھر تیسرا صفحہ علی ہذاالقیاس اس طرح پوری کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ مطالعے کی یہ طرز وہ ہے جو بیداری ]شعور[ میں کام کرتی ہے۔ انسان کا شعوری تجربہ یہ ہے کہ ایک دن گزرتا ہے پھردوسرا، ایک ہفتہ گزرتا ہے پھر دوسرا۔ اسی طرح ماہ و سال اور صدیاں اسی ترتیب اور اسی طرز سے یعنی ایک کے بعد ایک کر کے گزرتی رہتی ہیں۔ منگل کے بعد جمعرات کا دن، اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ بدھ کا دن نہیں گزر جاتا۔ اسی طرح شوال کا مہینہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ رمضان اور اس سے پہلے کے مہینے نہیں گزر جاتے۔ یہی طرز انسان کی شعوری طرز ]بیداری[ ہے۔ اسی طرز کو روحانیت میں زمان متواتر یا زمان مسلسل[Serial Time] کہتے ہیں۔
اس کے بعد خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
ماضی اور مستقبل : مطالعہ کی دوسری طرز وہ ہے جو خواب میں کام کرتی ہے۔ ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ ابھی لندن میں ہے اور ایک لمحے بعد دیکھتا ہے کہ وہ کراچی میں ہے۔ یہ بات ذہن کی اس کیفیت سے متعلق ہے جس کا نام غیر متواتر زمان Non-Serial Time لاشعور ہے۔ غیر متواتر زمان ]لاشعور[ دراصل کتاب کے مطالعہ کرنے کی وہ طرز ہے جس میں زمان متواتر کی ترتیب حذف ہو جاتی ہے۔ خواب میں انسان کے ذہن کی رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے اور جو کچھ خواب میں نظر آتا ہے وہ زیادہ تر مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق ہوتا ہے۔
بعض
اوقات خوابوں کے ذریعے انسان کو ان حادثات سے محفوظ رہنے کے لیے اشارات ملتے ہیں
جو مستقبل میں پیش آنے والے ہوتے ہیں اور ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کر کے ان
حادثات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ جیسے بعض اوقات ایسی اطلاعات فراہم ہوتی ہیں جو
مستقبل سے متعلق ہوں جیسے یوسف علیہ اسلام کا خواب کہ سات سال کھیتی باڑی اچھی ہوگی
اور سات سال زمین پر غلہ نہ اُگے گا۔ اس قسم کے بہت سے واقعات لوگوں کےساتھ پیش
آتے رہتے ہیں۔ ان سب کی توجہیہ یہ ہے کہ ذہن ایک لمحے کے لیے زمان متواتر ]شعور[سے نکل کر غیر
متواتر زمان ]لاشعور[ کی حدود میں داخل ہو جاتا
ہے اور آنے والے واقعہ کو محسوس کر لیتا ہے۔ لیکن یہ چیز غیر ارادی طور پر وقوع
پذیر ہوتی ہے۔ اگر اس واردات پر مراقبہ کے ذریعے غلبہ حاصل کر کے ارادے کے ساتھ
وابستہ کر لیا جائے تو بیداری کی حالت میں بھی آئندہ پیش آنے والے واقعات کا
مطالعہ اور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ ]متواتر زمان کی حدود میں[ جو کل ہوگا ۔ وہ ]غیر متواتر زمانے کی حدود میں[ آج بھی موجود ہے اور کل ]ماضی میں[ میں بھی موجود
تھا۔
یہاں
یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ زمانہ صرف ماضی ]ریکارڈ[ ہے۔ حال اور مستقبل صرف
کتاب کے مطالعے کے طرزوں میں اختلاف سے وجود میں آتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ
ایک شخص سینما میں فلم دیکھ رہا ہے۔ فلم کے مناظر ایک ترتیب کے ساتھ اس کی نظروں
کے سامنے آ رہے ہیں۔
جو
منظر آنکھوں کے سامنے ہے اسے وہ حال [Present]سے اور گزرے ہوئے منظر کو ماضی [Past] سے اور آنے
والے منظر کو مستقبل [Future] سے تعبیر کرتا ہے۔ حالاں کہ ساری فلم ماضی ہے۔ لیکن چوں کہ ماضی
اور مستقبل شعوری طور پر انسان کے سامنے نہیں ہوتے اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ زمانہ
گزر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سارا زمانہ ماضی کی فلم ہے۔ فرق صرف زمانہ کا مطالعہ
کرنے کی طرزوں میں ہے۔پہلی طرز اپنے اندر ایک ترتیب رکھتی ہے۔ یہ طرز زمان متواتر
ہے۔ دوسری طرز میں لمحات یکے بعد دیگرے واقع نہیں ہوتے بلکہ یکایک ذہن ایک لمحے سے
جست کر کے کئی لمحے بعد کے زمانہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ طرز زمان غیر متواتر ہے۔
میں کہہ چکا ہوں کہ ازل سے ابد تک کا زمانہ ماضی ]ریکارڈ[ ہے اور جو لمحہ اس سارے زمانے کا احاطہ کرتا ہے اس کو اہل روحانیت
لمحہ حقیقی یا زمان حقیقی [Real Time] کہتے ہیں۔ اسی زمانہ کا تذکرہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی
حدیث میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہو گیا
۔ یعنی زمانیت ]لمحہ حقیقی[کی حدود میں ہر چیز مکمل طور پر ہو چکی ہے ” جو کچھ ہو رہا
ہے وہ ماضی کا حصہ ہے۔“
قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے رنگا
رنگ صفات اور کشف و الہامات کا خزانہ بنایا ہے۔ تجلیات کے سمندر میں سے نور میں
دھلے ہوئے موتیوں سے آپ بھی فیض یاب ہوں:
بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:-
”بعض
چیزیں ایسی ہیں جن کو انسان غیر حقیقی کہہ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور واہمہ
یا خواب و خیال
کہہ
کر نظر انداز کر دیتا ہے حالاں کہ کائنات میں کوئی شے فاضل اور غیر حقیقی نہیں ہے۔
ہر خیال اور ہر
واہمہ
کے پس پردہ کوئی نہ کوئی کائناتی حقیقت ضرور کارفرما ہوتی ہے۔“
وہم کیا ہے؟
خیال کہاں سے آتا ہے؟ یہ بات غور طلب ہے۔ اگر ہم ان سوالات
کو نظر انداز کر دیں تو کثیر حقائق مخفی رہ جائیں گے اور حقائق کی زنجیر جس کی سو
فیصد اس مسئلے کے سمجھنے پر منحصر ہیں انجانی رہ جائیں گی۔ جب ذہن میں کوئی خیال
آتا ہے تو اس کا کوئی کائناتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل
ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی۔ یہ
حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہوسکتی۔ اس کا تعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو
کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت کہتے ہیں۔ مثلاً جب ہوا کا جھونکا آتا
ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کرہ ہوائی میں کہیں کوئی تغیر واقع ہوا ہے۔ اس ہی
طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وارد ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ
انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا خود ذہن انسانی تلاش پر
ہے۔ ذہن انسانی کی دو سطح ہیں ایک سطح وہ ہے
جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائنات حرکت سے ملاتی ہے یعنی یہ حرکت فرد کے
ارادوں اور محسوسات کو فرد کے ذہن تک لاتی ہے۔
ذہن
کی دونوں سطحیں دو قسم کے حواس تخلیق کرتی ہیں۔ اگر ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس
کہیں تو دوسری سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔ دراصل مثبت حواس ایک معنی
میں حواس کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے اس تقسیم کے حصے اعضائے جسمانی ہیں چناں چہ ہماری جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے ایک ہی
وقت میں آنکھ کسی ایک شبیہہ کو دیکھتی ہے اور کان کسی آواز کو سنتا ہے۔ ہاتھ کسی
تیسری شے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں اور پیر کسی چوتھی چیز کی پیمائش کرتے ہیں۔ زبان
کسی پانچویں شے کے ذائقہ میں اور ناک کسی اور چیز کے سونگھنے میں مشغول رہتی ہے
اور دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے خیالات آرہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت
حواس کی کارفرمائی ہے۔ لیکن اس کے برعکس منفی حواس میں جو تحریکات ہوتی ہیں ا ن کا
تعلق انسان کے ارادے سے نہیں ہوتا۔
مثلاً
خواب میں باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں ، اعضائے جسمانی کے
سکوت سے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک ہی نقطہ ذہنی میں ہے ۔
خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہے وہی حرکت بیداری میں
جسمانی اعضاء کے اندر تقسیم ہو جاتی ہے۔ تقسیم ہونے سے ہم ان حواس کو منفی کا نام
دے سکتے ہیں ۔ لیکن جسمانی اعضاء میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا درست
ہوگا۔ یہ بات قابل ِ غورہے کہ منفی اور مثبت دونوں حواس ایک ہی سطح میں متمکن نہیں رہ
سکتے۔ ان کا قیام ذہن کی دونوں سطحوں میں تسلیم کرنا پڑے گا۔ تصوف کی اصطلاح میں
منفی سطح کا نام نسمہ مفرد اور مثبت سطح کا نام نسمہ مرکب لیا جاتا ہے۔ نسمہ مرکب
ایسی حرکت کا نام ہے جو تواتر کے ساتھ واقع ہوتی ہے یعنی ایک لمحہ، دوسرا لمحہ،
تیسرا لمحہ اور اس طرح لمحہ بہ لمحہ حرکت ہوتی رہتی ہے۔اس حرکت کی مکانیت لمحات
ہیں جس میں ایک ترتیب پائی جاتی ہے جو مکانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ہر لمحہ ایک مکان
ہے گویا تمام مکانیت لمحات کی قید میں ہے ۔ لمحات کچھ ایسی بندش کرتے ہیں جس کے
اندر مکانیت خود کو محبوس پاتی ہے اور لمحات کے دور میں گردش اور کائناتی شعور میں
خود کو حاضر رکھنے پر مجبور ہے۔ اصل لمحات اللہ تعالیٰ کے علم میں حاضر ہیں اور جس
علم کا یہ عنوان ہے کائنات اس ہی علم کی تفصیل اور مظہر ہے۔
اللہ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے
کہ میں نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے۔ چناں چہ تخلیق کے یہی دو رخ ہیں۔
تخلیق کا ایک رخ خود لمحات ہیں یعنی لمحات کا باطن یا شعور یک رنگ ہے اور دوسرا رخ
لمحات کا ظاہر یا شعور کل رنگ ہے۔ ایک طرف لمحات کی گرفت میں کائنات ہے اور دوسری
طرف لمحات کی گرفت میں کائنات کے افراد ہیں۔ لمحات بیک وقت دو سطحوں میں حرکت کرتے
ہیں۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہر شے میں الگ الگ واقع ہوتی ہے۔یہ حرکت
اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو شے کو اس کی منفرد ہستی کے دائرے میں موجود رکھتا ہے۔
دوسری طرح کی حرکت کائنات کی تمام اشیاء میں بہ یک وقت جاری و ساری ہے ۔ یہ حرکت
اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو کائنات کی تمام اشیاء کو ایک دائرے میں حاضر رکھتا
ہے۔ لمحات کی ایک سطح میں کائناتی افراد الگ الگ موجود ہیں یعنی افراد کا شعور جدا
جدا ہے۔ لمحات کی دوسری سطح میں کائنات کے تمام افراد کا شعور ایک ہی نقطہ پر
مرکوز ہے۔ اس طرح لمحات کی دونوں سطحیں دو شعور ہیں۔ ایک سطح انفرادی شعور ہے اور
دوسری سطح اجتماعی شعور ہے۔ عام اصطلاح میں مرکزی شعور کو ہی لاشعور کہا جاتا ہے۔
عرفان
نفس، معرفت الٰہیہ کا دروازہ انسان پر کھول دیتا ہے اور عرفان نفس کے حصول کے
سلسلے میں اہلِ روحانیت کو جن مدارج سے گزرنا پڑتا ہے ان میں سے پہلا درجہ ”لا“ ہے
یعنی سب سے پہلے انسان کو روایتی معلومات اور شعوری علم کی نفی کرنی پرٹی ہے اور
پھر اس کے بعد روحانیت کے اسی راستے پر چلتے ہوئے انسان ایسے درجے پر پہنچ جاتا ہے
جہاں اس پر اپنی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔ یعنی نفس عرفان حاصل ہو جاتا ہے ۔ اس کے
لیے سالک کو ایک معینہ اور مقررہ راستے پر سفر کرنے کے لیے شیخ یا مرشد کی رہنمائی
لازمی ہے۔ذیل میں اسی مضمون سے متعلق شیخ طریقت مخزن علم و آگاہی ، قلندر بابا
اولیا رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد رقم کیا جا رہا ہے۔
صحیح بات سمجھنے کے لیے جو کچھ ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود
ہے اس کو آئندہ کے لیے بالکل بھلا دیا جائے۔ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ انسان
کیا ہے؟ انسان صرف خیالات کی لہریں ایک ترتیب میں جمع ہو جانے کا نام ہے اس کے
علاوہ کچھ نہیں۔ ایک دریا بہہ رہا ہے اس کا پانی جب تک دونوں کناروں کے بیچ میں
بہتا رہتا ہے اس وقت تک انسانی احساس کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ پانی کی لہروں میں
کیا کیا چیزیں بہتی چلی جارہی ہیں۔ ایک
حالت میں دریا کے اندر طوفان اجاتا ہے پانی کناروں سے باہر اچھلنے لگتا ہے اب
انسانی احساس کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ کچھ خیالات پراگندہ قسم کے ابتر ، بے ترتیب
اور تقریباً بے معنی یورش کرتے چلے آرہے ہیں۔ انسان ان تمام خیالات کے معنی سمجھنے
کی کوشش نہیں کرتا بلکہ گزرتا رہتا ہے۔ گزرنے کی وجہ خاص طور سے یہ ہوتی ہے کہ وہ
ان خیالات میں ترتیب قائم نہیں کر سکتا۔ خیالات کی دوسری قسم ایک اور بھی ہے وہ
قسم یہ ہے کہ انسانی احساس، دریا کے پانی میں بہتی ہوئی چند چیزیں اٹھاتا رہتا ہے
اور ان کو ایک خاص پیرائے میں مرتب کر لیتا ہے۔ اس ترتیب سے جو مفہوم نکلتا ہے اس
کو وہ اپنی تصنیف قرار دیتا ہے ۔ یہی وہ کام ہے جس کو دنیا کے ذہین و ذی ہوش انسان
کسی خاص علم کا نا م دیتے ہیں۔
خیالات
کی قسموں سے بحث کرنا یہاں مقصود نہیں ہے اس لیے ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
انسان کے اندر دو قسم کے خیالات کام کر رہے ہیں ۔ نمبر ایک وہ خیالات جو دریا کے
طوفانی ہونے سے کناروں سے باہر اچھل جاتے ہیں۔۔ نمبر دو ، وہ خیالات جن کو انسانی
شعور اپنی مطلب برآری کے لیے انتخاب کرتا ہے۔ دریا کا ماخذ کیا ہے دریا میں طوفان
کیوں آتا ہے۔انسانی شعور بہتی ہوئی چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ چیزیں جو اس کے ہاتھ
آتی رہتی ہیں کیوں اٹھاتا رہتا ہے؟
انسانی
سائنس کے علوم اب تک اس بات سے واقف نہیں ہو سکے ہیں حالاں کہ جو سوالات اوپر کیے
گئے ہیں ان کے جوابات آسمانی صحائف میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جب انسان دو حصوں میں
تقسیم ہو گیا تو اس کو دو یونٹ کی حیثیت دی جائے گی۔ ایک یونٹ وسیع تر یونٹ ہے اور
اسی یونٹ کی رسائی دریا کے مخرج تک ہے۔ دوسرا یونٹ محدود تر ہے اس یونٹ کا تمام
کارنامہ ماضی کے متعلق جاننا اور ماضی کو حافطے میں رکھنا ہے۔ یہی یونٹ انسانی
شعور کی ساری حدود کا احاطہ کرتا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ
علیہ نے لاشعور کو وسیع تر یونٹ اور شعور کو محدود تر یونٹ کا نام دیا ہے اور یہ
بتایا ہے کہ لاشعور کی رسائی دریا کے ماخذ تک ہے یہی وہ منبع اور ماخذ ہے جہاں سے
ہر لمحہ اور ہر آن پوری کائنات کو زندگی کی تحریکات ملتی ہیں۔ اسی منبع کی بنیاد [Base] امر ربانی ہے۔
کن فیکون : ایک بار کن فیکون کی وضاحت کرتے ہوئے حضور قلندر بابا
اولیاء رحمتہ علیہ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے کہا: ہو جا وہ ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ماضی میں چلی گئی نہ ہی یہ مطلب ہے کہ وہ چیز ہو رہی ہے اور نہ مکمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز نافذ العمل ہے اور مکمل ہے۔ یعنی مکمل صورت میں نافذالعمل ہے وضاحت اس کی یہ ہوئی کہ وہ چیز لازمانیت میں مکمل ہو چکی ہے
اور
زمانیت میں نافذ العمل ہے۔
گفت گو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
صرف
ایک سیکنڈ ہے جو حقیقی ہے اور اس ایک سیکنڈ کی تقسیم سے ازل تا ابد تک وجود صادر
ہوا ہے۔ یعنی وہی
ایک
حقیقی سیکنڈ ]وقفے کا چھوٹے سے چھوٹا یونٹ[ تقسیم ہو کر وقت کے لامتناہی
یونٹوں میں رونما ہو رہا ہے۔
اس ایک سیکنڈ کے تکوینی مراحل کا اظہار اس عمل پر مبنی ہے
کہ اس کی تقسیم لامتناہی یونٹوں کی شکل و
صورت اختیار کر لے۔ اس شکل و صورت کا نام مظاہر کائنات یا
عالم ناسوت و جبروت و لاہوت ہے۔
دوسری نشست کے دوران کن فیکون پر تکوینی نقطہ نظر سے روشنی
ڈالتے ہوئے فرمایا:
” کن
کے چار تکوینی شعبے ہیں۔ پہلا شعبہ ابدء ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ظہور
موجودات کے
کوئی
اسباب و وسائل موجود نہیں تھے لیکن موجودات بغیر اسباب و وسائل کے مرتب اور مکمل
ہوگئے۔
یہ
تکوین کا پہلا شعبہ ہے۔ تکوین کا دوسرا شعبہ خلق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ
موجودات کی
شکل و صورت میں ظاہر ہوا اس میں حرکت و سکون کی
طرزیں رونما ہو گئیں اور زندگی کے مراحل یکے
بعد
دیگرے وقوع میں آنا شروع ہو گئے۔ یعنی موجودات کے افعال زندگی کا آغاز ہو گیا ۔
تکوین کا تیسرا
شعبہ
تدبیر ہے۔ یہ موجودات کے اعمال ِ زندگی کی ترتیب اور محل وقوع کے ابواب پر مشتمل
ہے۔
حکمت تکوین کا چوتھا شعبہ تدلیٰ ہے۔ تدلیٰ کا مطلب حکمت تکوین
کا وہ شعبہ ہے جس کے ذریعہ قضا و قدر
کے نظم و ضبط کی کڑیاں اور فیصلے مدون ہوتے ہیں۔ انسان کو
بہ حیثیت خلیفہ علم اسماء ] علم قلم[ کی
حکمت تکوین کے اسرار و رموز اس لیے عطا کیے گئے کہ وہ نظامت
کائنات کے امور میں نائب کے
فرائض پورے کر سکے۔“
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔