Topics

ہجرت کی رات


 

                ہجرت کی رات جبکہ ایک تہائی رات گزری تھی ۔ قریش کے مسلح نوجوانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس انتظار میں رہے کہ حضورؐ سو جائیں تو ان کا کام تمام کر دیں۔ اس وقت حضورؐ کے پاس کچھ امانتیں تھیں ۔ آپؐ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا ،  اے علی ! تم میری چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو جا ، صبح امانتیں واپس کر کے تم بھی مدینہ چلے آنا  ۔ رسول اکرم ؐنے خاک کی ایک مٹھی لی اور سورہ یٰسین کی یہ آیت پڑھی ۔

ترجمہ :       ” اور بنائی ہم نے ان کے آگے دیوار اور ان کے پیچھے دیوار، پھر اوپر سے ڈھانک دیا ، سو ان کو نہیں سوجھتا ۔“ ( یٰسین ۔۹)

                آیت پڑھتے ہوئے خاک کی مٹھی کفار مکہ کے شمشیر بدست نوجوانوں کی طرف پھینک دی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھو ں پر پردہ ڈال دیا اور وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے ۔حضورؐ ان کے درمیان سے گزر گئے ۔ مشہور ہے کہ ہجرت کی شب جب پیچھا کرنے والے غارِ ثور کے قریب آ گئے تو دفعتاً ببول کا درخت اُگا اور اس کی شاخوں نے پھیل کر غار کو ڈھانپ دیا۔ ساتھ ہی دو کبوتر آئے اور درخت پر گھونسلہ بنا کر انڈے دے دئیے اور غار کے منہ کے آگے مکڑی نے جالا بن دیا۔

                مکڑی(عنکبوت) اپنا گھر تاروں سے بناتی ہے۔ ہر تار ، چار باریک تاروں کا مجموعہ ہوتا ہے اور ہر باریک تار ہزار تاروں سے تیار ہوتا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر جالے کا ہر تار چار ہزار تاروں سے بنتا ہے۔ مکڑی کے جسم میں چار ہزار باریک نالیاں ہیں ۔ ہر نالی سے ایک تار نکلتا ہے ۔ نالیوں سے ذرا آگے چار سوراخ ہوتے ہیں۔ ہر سوراخ میں ایک ہزار تار داخل ہو کر ایک تار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ دُم کے آخر میں صرف ایک نالی ہوتی ہے جس میں سے یہ چار تار گزر کر ایک دھاگہ بن جاتے ہیں۔

                مکڑی چھت کے شہتیروں سے گوند نکال کر تاروں پر لگاتی ہے۔ اور پھر ان تاروں سے اتنا مضبوط گھر بناتی ہے کہ ضعیف اور کمزور ترین گھر ہونے کے باوجود طوفان اور تند آندھیوں میں بھی نہیں ٹوٹتا۔

                مکڑی کا جالا مسدس شکل کا ہوتا ہے ۔ جس کا ہر ضلع نصف قطر کے برابر ہوتا ہے ۔ مکڑی جالا بنتے وقت ہر تار پر پانچ چھ مرتبہ آتی جاتی ہے اور ہر بار ایک نئے تار کا اضافہ کرتی ہے ۔ اس طرح جالے کا ہر تار اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے کہ مکڑی سے آٹھ گنا زیادہ وزن تھام سکتا ہے ۔ مکڑی چھ ماہ تک بھوکی رہ سکتی ہے۔ اس کی آٹھ آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ ایک وقت میں دو ہزار انڈے دیتی ہے ۔ جنہیں ملائم اور سنہرے تاروں میں لپیٹ کر رکھتی ہے ۔ مکڑی ضروریات کے مطابق مختلف رنگ کے تار نکال سکتی ہے ۔ ہر تار ریشم کے تار سے نو گنا کم باریک ہوتا ہے۔

                قرآن حکیم میں عنکبوت کا ذکر ہے :

ترجمہ :   جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے تعلقات جوڑ لیتے ہیں وہ اس مکڑی کی طرح ہیں جو ( مکھیوں کے شکار کے لئے ) جالا تن لیتی ہے کاش انہیں معلوم ہوتا کہ مکڑی کا گھر دنیا میں کمزور ترین گھر ہے “۔( عنکبوت۔ ۱۲)

 

                بظاہر بے وقعت اور معمولی نظر آنے والی اشیاءکی تکوین میں قدرت نے عقل و دانش ، قوت تخلیق اور کمال صناعی کا حیرت آفرین مظاہرہ کیا ہے ۔ قرآن میں یہ بھی ہے :

 

ترجمہ : ہم یہ مثال لوگوں کی خاطر بیان کر رہے ہیں اور انہیں صرف ارباب علم ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ ( عنکبوت ۔ ۴۳)

                قرآن پاک میں ہے ، ” ہم نے زمین پر آدم کو اپنی نیابت کے اختیارات دئیے “ یعنی زمین پر آدم اس طرح حاکم ہے کہ وہ زمین میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے اور اس تصرف کی بنیاد پر زمین اور زمین میں موجود تمام اشیاءاور مخلوقات اس بات کی پابند ہیں کہ آدم کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ سیدنا علیہ الصلوة والسلام کا ہجرت کے وقت ایک مٹھی مٹی دم کر کے پھینکنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حضورؐ پاک کو مٹی یعنی زمین کے تمام عناصر پر پورا پورا تصرف حاصل تھا۔ جب حضورؐ نے مٹھی مٹی پھینکی اور اللہ کے ارشاد کے مطابق دشمنوں کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تو اس کا مطب یہ ہوا کہ مٹی کے عناصر سے جتنی بھی تخلیقات عمل میں آتی ہیں وہ سب متحرک ہو گئیں ۔

                غار ثور میں جانے کے بعد یہ ضروری تھا کہ سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام پر دشمن کی نظرنہ پڑے اور وہ دین حق کی تبلیغ کے لئے بحفاظت مدینہ منورہ پہنچ جائیں ۔ چونکہ زمین پر موجود ہر تخلیق میں مٹی اور مٹی کے عناصر کا عمل دخل ہے اس لئے مٹی کے وہ عناصر جو کیکر کا درخت اُگاتے ہیں اور جن سے کبوتر پیدا ہوتا ہے متحرک ہو گئے۔

                آدم ؑ کو اللہ نے جب نیابت اور خلافت عطا کی اور یہ فرمایا کہ ہم نے آدم ؑ کو اپنی تخلیقی صفات کے تمام علوم سکھا دئیے تو اس کا مفہوم یہ ہوا کہ آدم بحیثیت نائب اور خلیفہ کے تخلیقی اختیارات استعمال کر کے تصرف کر سکتا ہے ۔ سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام چونکہ باعث تخلیق کائنات ہیں اور علم الا سماءکے امین ہیں ۔ اس لئے زمین پر کیکر کے درخت اور کبوتر کے انڈوں کی تخلیق عمل میں آگئی ۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔