Topics

کوہاٹ سے کس قدر مختلف ہے


                کاکڑہ ٹاؤن سے نکل کر گاڑی پہاڑی راستوں پر بار بار مڑتی تو جھولے کا سا تاثر ابھرتا۔ میں جھولے جھولتا باہر دیکھ رہا تھا۔ مجھے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ یہ سڑک یہ راستے میرے لئے اجنبی نہیں۔ میں ان سے مانوس ہوں۔ اتنے میں میرے مراد نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:

                ’’آپ کو تو کوہاٹ یاد آ رہا ہو گا۔‘‘

                اس بات کی خوبصورتی کا احساس تب ہو گا جب آپ کو یہ معلوم ہو کہ مرید کا سسرال کوہاٹ ہے اور پشاور سے کوہاٹ جانے کا راستہ درہ آدم خیل کے بعد ایک پہاڑی درے سے ہو کر گزرتا ہے اور مجھے یہ جگہ اسی لے مانوس لگ رہی تھی کہ یہ راستہ کوہاٹ کے اسی راستے سے مشابہت رکھتا تھا۔ وہی چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں سے ڈھکی پہاڑیاں۔ ویسے ہی پتھریلے پہاڑ۔

                میں نے ’’جی ہاں‘‘ کہہ کر بات کی لطافت کو محسوس کرتے ہوئے ممتاز علی صاحب کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہے تھے۔

                میں نے دوبارہ باہر نظر دوڑائی۔ گاڑی موڑ کاٹ رہی تھی اور ایسے زاویے پر تھی جہاں سے ہمارے پیچھے آنے والی گاڑیاں چھوٹی چھوٹی کھلونا گاڑیوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔ ہم بلندی پر تھے انہوں نے ابھی وہاں پہنچنا تھا جہاں ہم اپنے مراد کے ہمراہ تھے۔ میں نے پورے منظر کو دیکھا کالی سڑک، بھورے پہاڑ، سرمئی پتھر، سبز جھاڑیاں، زرد پتے، سفید گاڑیاں اور نیلا آسمان۔ پوری وادی میں سرخ رنگ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ میری نگاہیں سرخی کی تلاش میں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر پھر گئیں۔ ابھی میں اسی مخمصے میں تھا کہ میرے مراد کی آواز نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ میں نے آواز تو سنی مگر سمجھا کچھ نہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے حاجی صاحب اور ممتاز علی کی طرف دیکھا۔ حاجی صاحب نے جملہ دہرایا:

                ’’ابا کہہ رہے ہیں کہ مقصود صاحب تو تنقیدی نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘

                ابا نے جملہ مکمل کیا:

                ’’یہ کوہاٹ سے کس قدر مختلف ہے۔‘‘

                میرا سر ندامت سے جھک گیا۔ میرے مراد نے میرے انداز نظر پر کس قدر کڑی پکڑ فرمائی تھی کہ میں تنقیدی انداز نظر رکھتا ہوں یعنی جو حاصل ہے اس پر شکر نہیں اور جو سامنے نہیں اس کا شکوہ۔ مجھے خیال ہوا کہ میں شکر میں کوتاہی اور جو حاصل نہیں اس پر شکوے کا مجرم ہوں لیکن مراد کی شفقت کہ ’’کوہاٹ سے کس قدر مختلف ہے‘‘ کی اضافت لگا کر میرے جرم پر پردہ ڈال دیا۔ میں نے دل ہی دل میں اتنی بہت سی نعمتوں کے یکجا ہونے پر شکر کیا اور توبہ کے الفاظ تراشنے میں لگ گیا، اتنے میں گاڑی نے موڑ کاٹا، بالکل میرے سامنے ایک درخت تھا۔ اس درخت کے پتے ہی نہیں ٹہنیاں تک سرخ تھیں۔ وہ دور سے بھی اتنا نمایاں اور اتنا واضح تھا کہ اس کو نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔

                حاجی ادریس صاحب نے مرشد کریم کے کسی استفسار پر کہا:

                ’’شوکت مجید صاحب ڈپٹی سیکرٹری ہیں وہ سماہنی میں پکنک کے لئے ڈاک بنگہ لے کر دینا چاہ رہے تھے لیکن ہم نے سوچا کہ کھلی فضا میں ہی پکنک منائیں گے۔‘‘

                اس پر مرشد کریم نے فرمایا:

                ’’مراقبہ ہالز بھی تو سرکاری ڈاک بنگلے ہی ہیں اور ان کے انچارج کسی ڈی سی سے کم نہیں۔‘‘

                مجھے جملہ سوجھا اور میں نے کہہ دیا:’’ان کو اپنے گورنر کے آنے پر خوب بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے۔‘‘

                میرے مراد نے حاجی صاحب کو مخاطب کر کے کہا:

                ’’حاجی صاحب یہ گورنر خود کو کہہ رہے ہیں۔‘‘

                اب میرے ذہن میں گورنر میرے مراد کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا لیکن انہوں نے کس قدر خوبصورتی سے اس قسم کے عہدوں سے فقیر کو محفوظ و ماموں کرنے کی تلقین فرمائی۔

                ہماری گاڑی کچھ تیز تھی یا پچھلی گاڑیاں آہستہ، بہرحال ہم چوکی پہنچے تو حاجی صاحب نے ڈرائیور سے وہاں رک جانے کو کہا تا کہ پچھلی گاڑیاں وہاں پہنچ جائیں۔ دراصل وہاں سے سڑک کے دو راستے ہو رہے تھے اور ایسا نہ ہو کہ پیچھے آنے والے یہ تعین نہ کر سکیں کہ ہم کس راستے پر چلے گئے ہیں اور انہیں کوئی پریشانی ہو۔ ہم بھی ٹانگیں سیدھی کرنے کو نیچے اتر آئے۔ یہاں سبزے کا رنگ قدرے گہرا تھا۔ درخت بھی لمبے لمبے تھے۔ چھاؤں کا تاثر بہت سہانا لگا۔ میرے مراد نے حاجی صاحب سے کہا:

                ’’کسی ایسی جگہ چلیں جہاں چشمہ ہو۔‘‘

                حاجی صاحب نے سونا کہا یا پونہ کہ وہاں چشمہ ہو گا۔ میں اور ممتاز علی بچوں کی طرح کبھی ادھر جاتے کبھی ادھر۔ یوں لگتا تھا کہ ابھی باپ کی آواز آئے گی، ادھر مت جاؤ، گر جاؤ گے، میں اس آواز کے آنے سے پہلے پلٹ آیا۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔