Topics
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین محمد وعلی الہ و اصحابہ اجمعین۔
اما بعد
الا ان اولیاء اللّٰہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون۔
باری تعالیٰ نے آدم و حوا کو پیدا کیا۔ پھرنسل آدم پھیلا نے کے لئے زمین پر بھیج دیا۔ اس رب ذوالجلال کی مرضی اور منشا کے مطابق آدمی کی تخلیق کا سلسلہ برابر جاری ہے۔
جیسے جیسے آبادیاں اور گروہ بڑھتے گئے آدمی کی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ د ن، مہینے اور سال گزرتے گزرتے صدیاں اور قر ن بننے لگے۔ لوگوں کی ہدایت کے لئے نبیوں پر صحیفے آ نے لگے۔ جب یہ قبیلے اور قافلے زیادہ پھیل گئے تو توریت ، زبور، ا نجیل اور سب سے آخر میں قرآ ن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا اور خداو ندی ہدایت کا سلسلہ مکمل ہوگیا۔
د نیا میں اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آچکے ہیں۔پچیس تیس کی آمد اور خدمات کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے کی ہے اور ان کی مثالیں دی ہیں۔ سب سے آخری نبی ﷺ، دونوں جہاں کے سردار، ہادئ دین مبین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد، بعثت، خدمت، رہبری اور تکمیل ا نسانیت کے عمل پر دفتر کے دفتر لکھے جاچکے ہیں۔ لیکن وجد اور کیفیت اور معرفت اور روحانیت کی گلیوں کے باسی اپنی زبان سے یہی کہہ رہے ہیں۔
ہنوزنام تو گفتن کمال بے ادبی است
یہ کیا ہے؟
مقامِ ادب ہے۔ مقامِ عجز ہے۔ انکساری کا اظہار ہے۔ اپنی بندگی اور بندگی کی بے بسی کا اقرار ہے۔ ان لوگوں کے دلوں پر انتہائے محبت کا جذبہ سوار ہے۔ اس راہ میں گزرنا ہر کس و ناکس کے لئے ایک جرعۂ مئے ناب یقین و ایمان کے لئے مجسم گل و گلزار ہے۔ عشق کی ان پیچیدہ گھاٹیوں میں جو بھی جس کو گھمادے، پھرادے ، درحبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ دکھادے مرشد بزرگ آثار ہے اور جو عقیدت مند اپنی ارادت کا کشکول ان کے آگے رکھ کر پھر نہ ہلے، نہ ٹلے، لئے بغیر نہ رہے، چھینے بغیر سانس نہ لے، اپنی ہر آس کو اپنے مرشد کی ہر سانس پر تج نہ دے، اس کی ہر ادا اور صدا کو اپنے دل کی قبا میں ٹانک نہ لے اور یقین کی عبا میں ڈھانک نہ لے وہ کیسے باز رہ سکتا ہے۔
خدا کی وحدت کو جان لینا ، پہچان لینا، دیکھ لینا، سمجھ لینا، دیکھنے میں تو بہت آسان لگتا ہے لیکن سمجھنے اور حاصل کرنے کی دنیا میں سوئی کے ناکے میں سے اونٹ کو گزار لینا آسان ہے مگر الوہیت اور للّٰہیت کی اوگھٹ گھاٹیوں میں سے گزرنا، اور نہ صرف گزرنا بلکہ اپنے ذہن اور ایمان کو بھی سالم رکھنا، اقرار کو بھی بے قرار نہ ہونے دینا، ابلیسیت سے انکار کو کہیں قرار نہ لینے دینا ایک کٹھن منزل ہے۔ ایک مسافر جب سنسان، ویران جنگل سے گزرتا ہے تو اس پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ گھنے بن میں سے رات کی بھیانک تاریکی میں سفر کرتا ہے تو اس پر دہشت طاری ہوجاتی ہے ۔ لیکن عقیدت اور ارادت کے بحر ظلمات میں جب قدم رکھتا ہے تو خوف ، دہشت، حزن، یاس، درماندگی، اجنبیت اور قسم قسم کی حواس باختگیاں عجیب عجیب ڈراؤنی شکلوں میں آنے لگتی ہیں۔ اس عالم تیرہ و تار میں ایک مرشد عظیم ترین محسن بن کر بچہ کی طرح انگلی پکڑ کر ایسے خراماں خراماں لے جاتا ہے جیسے طفلِ گریختہ پا اپنی ماں کا دودھ پینے میں مگن ہے اور چوسنے کے ہر سانس کے ساتھ اس کو روحانی دسترخوان سے ایوان نعمت ملتے چلے جارہے ہیں جن کی گنتی کرنے سے وہ بے نیاز ہوچکا ہے۔ بس قدرت کی رحمت سے معانقہ کرنے میں مگن ہے۔
اللہ تعالیٰ واحد ہے، احد ہے، صمد ہے، لم یلد ہے، ولم یولد ہے۔ اس کی اسی وحدت اور وحدانیت کا ہر مذہب نے راگ الاپا ہے۔ زمین پر کسی ایسے مذہب کا وجود نہیں ہے جس نے حق تعالیٰ کی وحدانیت سے منہ موڑا ہو یا اس کے وجود سے انکار کیا ہو۔ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے اس احدیت، صمدیت، حقانیت اور وحدانیت کو سمجھانے اور سمجھنے کے لئے مختلف راستے اور طریقے اختیار کئے ہیں۔ عام فہم انداز میں توحید اور مسئلہ توحید، شریعت، طریقت، حقیقت او ر معرفت پر مشتمل ہے۔ رہبر جن و انسان، ہادی کون و مکان،ماحیِ ظل و بطلان، سرکار دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
اس عرفان نفس میں خواہشات اور شہوت کی معرفت نہیں ہے، بدن کی معرفت نہیں ہے، اپنے عزیز و اقارب کی پہچان نہیں ہے،اپنے ماں باپ کی پہچان نہیں ہے۔ اپنے شہر، گھر اور وطن کی پہچان نہیں ہے، ساری دنیا کے علم کی پہچان نہیں ہے بلکہ یہ پہچان کرنی اور سمجھنی ہے کہ قدرت نے تجھے کیوں پیدا کیا ہے؟ تیرے اندر اس نے کون سا جوہر واحد چھپا کر تجھے عدم سے وجود میں بھیجا ہے۔ مشیت نے اپنے ارادوں میں تیرے اندر کون کون سی ہوشمندیاں، دانائیاں اور پیشوائیاں سجا بنا کر رکھی ہیں۔ کیا تجھے محض تیری اپنی ہی اکلوتی ذات کے لئے پیداکیا ہے؟ اگر ایک بندہ اپنی اس کنہ ، اس لم، اس غرض اور پیدائش کی اس غایت تک پہنچ جائے کہ وہ خود اپنی ذات میں کیا کچھ ہے تو یہ سمجھ لو کہ اس بندہ نے خود کو پالیا، سمجھ لیا، مان لیا، پہچان لیا۔ اس وجدان کے میسر آتے ہی شان رب ذوالجلال پورے جاہ وجلال کے ساتھ کارفرما نظرآنے لگی۔
جب یقین عین الیقین اور حق الیقین تک آپہنچا تو تمام سفر مقصد مکمل ہوکر فہو المراد بن گیا۔ جب جزو نے کُل کا مقصد حکم پالیا تو وہ جزو کہاں رہا۔ اس مقام پرجا پہنچا جس کا اخفا میں رکھنا بیان کردینے سے زیادہ ارفع ہے۔
وحدت ربانی اور وحدانیت یزدانی کے بارے میں ارشاد باری ہے:
ترجمہ: اور تمہارا رب اکیلا رب ہے، کسی کی عبادت نہیں کرنا، سوائے اس کے وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور بندگی کسی کو نہیں مگر ایک معبود کو۔ البقرہ۔۱۶۳
اس کے سوا کسی کو بندگی نہیں، وہ زندہ ہے اور قائم رہنے والا ہے۔آلِ عمران ۔۲
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ علم توحید اس کے وجود سے جدا ہے اور اس کا وجود علم سے الگ۔ یعنی رب ذوالجلال علم کی حد سے باہر ہے یعنی اتنا وسیع ہے کہ کوئی علم اس کا احاطہ یا اندازہ نہیں کرسکتا۔
حضرت ابو بکر واسطیؒ کا قول ہے کہ راہ حق میں خلق نہیں اور راہ خلق میں حق نہیں یعنی یہ بندے جواس کے ادراک کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں، اس کی ذات بشریت کے ادراک سے زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے جس تک پہنچنا ناممکن ہے۔
ان آیات مبارکہ اور بزرگان کرامؒ کے اقوال سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ توحید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگ اسے سہل سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک پیالی میں گلاس نہیں سماسکتا، ایک گلاس میں مٹکا نہیں سماسکتا، ایک مٹکے میں ایک تالاب نہیں سما سکتا، ایک تالاب میں ایک سمندر نہیں سما سکتا، ایک سمندر میں سارے سمندر نہیں سما سکتے اسی طرح ایک بندہ کی ننھی سی عقل ، سمجھ، سوچ، فکر، فہم، ادراک، احساس،ایقان اور وجدان میں وہ ذاتِ واحد کیسے سماسکتی ہے جس کو ہم اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔
ایک مومن بننے کے لئے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور پھر اولیائے کرام ہدایت اور رہبری کا ذریعہ رہے ہیں۔ حضرت اویس قرنیؓ کے بعد سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ ، حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ ، حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہیؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، حضرت علاء الدین صابر کلیریؒ ، حضرت بو علی شاہ قلندرؒ ، حضرت صاحبزادہ شیخ احمد سرہندی فاروقی مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت حافظ عبدالرحمن جامی ملنگ بابا ؒ ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ ، حضرت سچل سرمستؒ ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور دوسرے ایسے تمام بزرگانِ کرام جو عوام کیلئے فیض عام اور مرجع انام رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں ان اولیاء کرام کی جسمانی، دینی، ملکی، ملی اور روحانی خدمات وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ روشن تر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ان بزرگوں کا روحانی مشن مذہب اور ملت اور عقیدہ کی حد بندیوں سے بلند ہے۔ ہر مذہب اور ملت کے لوگ اپنی اپنی ضرورتیں لے کر حاضری دیتے ہیں اور جب تک انہیں کامیابی کا اشارہ نہ مل جائے وہ جانے کا نام نہیں لیتے۔ ان بزرگوں کو اس دنیا سے جدا ہوئے اگرچہ کئی صدیاں گزر گئی ہیں لیکن ان کے مزارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دفن بھی نہیں ہوئے ہیں۔
قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دیئے سے دیا جلاتی رہتی ہے معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ آخر یہ قطب، غوث، ولی،ابدال، صوفی، مجذوب اور قلندر سب کیا ہیں۔ یہ قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو روحانی روشنی کی مشعل کو لے کر چلتے رہتے ہیں۔ اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا انعکاس دیتے ہیں۔ اور جس کو اپنے اس فیض سے مالا مال کرتے ہیں اس کا دست حق پرست معرفت اور باب معرفت کے مرکز اور شہر حضرت مولا علی مشکل کشا ؓ سے ملا دیتے ہیں جو دربارِ رسالت ؐ میں اس عقیدت کو پیش کرنے اور نذر گزارنے میں ہمہ وقت مصروفِ نیاز ہیں۔
صرف تاریخ کے اوراق نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر ان بزرگوں کی ایسی ایسی داستانیں اور چشم دید باتیں اب تک زندہ اور محفوظ ہیں جن کی دعاؤں سے مردوں کو زندگی، بیماروں کو شفا، بھوکوں کو غذا، دکھیوں کو عطا، غریبوں کو زر، بے حال لوگوں کو بال و پر ، بے سہارا اور بے کس لوگوں کو اولاد اور مال و متاع کے انعامات ملتے رہتے ہیں۔
قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک اللہ کی سنت کا جاری رہنا ضروری ہے۔ چوں کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺ پر پیغمبری ختم ہوچکی ہے، اس لئے فیضانِ نبوت کو جاری و ساری رکھنے کیلئے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اولیاء اللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا جن کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے:
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں۔ (سورۃ یونس۔ آیت 62)
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آسمانِ علم و آگاہی میں ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہیں جن کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
‘‘ میں اپنے بعد اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد چھوڑ کر جارہا ہوں۔’‘
عالم روحانیت کے اسرارو رموز سے منور ''لوح و قلم'' اور جام معرفت سے لبریز ''رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ '' میں سے چند اقتباسات کے ساتھ ساتھ بابا صاحبؒ کی تعلیمات، ارشادات و ملفوظات اور کشف و کرامات کو یکجا کردیا گیا ہے ۔ تاکہ ہر طبقے اور ہر خیال کے اربابِ علم و ادب اور اہلِ نظر حضرت بابا صاحبؒ کی تعلیمات سے فیضیاب ہوسکیں۔
نورانی لوگوں کی باتیں بھی روشن اور منور ہوتی ہیں۔ زندگی میں ان کے ساتھ ایک لمحے کا تقرب سو سالہ طاعت بے ریا سے افضل ہے اور عالم قدس میں چلے جانے کے بعد ان کی یاد ہزار سالہ طاعتِ بے ریا سے اعلیٰ اور افضل ہے کہ ایسے مقربِ بارگاہ بندوں کے تذکرے سے آدمی کا انگ انگ اللہ تعالیٰ کی قربت کے تصور سے رنگین ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہے:
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! گذشتہ رسولوں کے واقعات اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کو سکون حاصل ہو اور آپﷺ کا قلب قوی ہوجائے۔ سورہ ھود۔۱۲۰
لازوال ہستی اپنی قدرت کا فیضان جاری و ساری رکھنے کے لیے ایسے بندے تخلیق کرتی رہتی ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے ہیں۔ خالقِ حقیقی سے تعلق قائم کرنا اور آدم زاد کو اس سے متعارف کرانا ان کا مشن ہوتا ہے۔
آئیے! ہم دل دارِ دل نواز کی باتیں کریں.............
اس لئے کہ انسان دوستی کا تقاضہ ہے کہ انسانیت نواز، پاکیزہ کردار، عارف حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی آواز کی لہریں زیر نظر کتاب '' تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ '' کے صفحات پر بکھیر دی جائیں، اس طرح کہ ایک مرقعہ تصویر سامنے آجائے۔
ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ کی زندگی کے حالات ، کشف و کرامات ، اسرار و رموز کی خوشبو سے معطر ملفوظات و ارشادات عالیہ پر اب تک جو کچھ روحانی ڈائجسٹ میں لکھا جاچکا ہے، کتابی صورت میں پیش کیا جارہاہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ بحرِ معرفت کا درِ نایاب اور شمع ہدایت ہے۔
کتاب ‘‘ تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ ‘‘ کی ترتیب و تدوین کے لئے ادارہ روحانی ڈائجسٹ نے فرزند روحانی جناب محمد یونس عظیمی کی سربراہی میں ایک پینل (Panel) قائم کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ عزیز گرامی قدر محمد یونس عظیمی سلمہٰ نے اس کام کو نہایت سلیقہ کے ساتھ پورا کیا اور الحمدللہ مرشد کریم ، ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ کے حالات زندگی پر یہ پہلی کتاب طباعت سے آراستہ ہوئی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دیں کہ ہم بابا صاحبؒ کے مشن کو ساری دنیا میں جاری و ساری کردیں تاکہ انسان اپنا ازلی شرف دوبارہ حاصل کر کے رحمت و عافیت اور سکون و راحت کی زندگی میں قدم رکھ سکے۔
دعا گو
خواجہ شمس الدین عظیمی
27 اکتوبر 1982 عیسوی
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔
ا نتساب
اُس نوجوان نسل کے نام
جو
ابدالِ حق، قلندر بابا اَولیَاء ؒ کی
‘‘ نسبت فیضان ‘‘
سے نوعِ ا نسانی کو سکون و راحت سے آشنا کرکے
اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے
ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
انسان اپنا ازلی شرف حاصل کر کے جنت
میں داخل ہوجائے گا۔
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیمٓ
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا