Topics
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کا ایک خط جو آپ نے ایک صاحب کے استفسارات کے جواب میں تحریر کروایا تھا۔
(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادر عزیز سلمہٰ اللہ تعالیٰ سے بہت دعا۔
حسب ذیل عبارت تمہارے تحریر کردہ سوالات کے جواب میں لکھی جارہی ہے۔ بظاہر سوالات بالکل مختصر اورآسان ہیں لیکن ان کا جواب زیادہ غور طلب ہے اور تفصیل چاہتا ہے۔ اگر پوری باتیں سمجھنے میں دقت پیش آئے تو باربار پڑھ کے اور غور کرکے الفاظ کا مفہوم اچھی طرح ذہن نشین کرلینا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا صرف کاغذ پر لکھا رہنا کافی نہیں ہے۔ ان کا حافظہ میں نقش کرنا ضروری ہے۔
لوح محفوظ سے ایک نور آتا ہے وہ اس طرح پھیلتا ہے کہ ساری کائنات اس کی گرفت میں ہوتی ہے۔ اس کے پھیلنے کی طرزیں کسی ایک سمت میں نہیں ہوتیں بلکہ ہر سمت میں ہوتی ہیں۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ اس نور کے پھیلنے کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اب تم سمت نہ ہونے کا مطلب سمجھ لو کہ سمت نہ ہونا کیا چیز ہے اور نور کا تمام سمتوں میں پھیلنا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ ساری باتیں قرآن پاک میں بالتصریح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان ارشادات کو متشابہات کہہ کر نظر انداز کردیاگیا ہے۔ تحریر میں زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ صرف ایک مثال دے کر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں ۔ اس مثال پر غور کرو۔
چند خلاباز خلا میں جاچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 100 میل سے زیادہ بلندی پر ایک تو بالکل بے وزنی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین یا تو بالکل گول یا تقریباً گول نظر آتی ہے۔ ایک نے کہا ہے کہ گیند نما نظر آتی ہے۔ تم نے خود بھی مشاہدہ میں دیکھا ہے کہ پپیتہ کی صورت ہے۔ اب صحیح صورت حال سمجھنا چاہو تو یہ نظر آئے گا یا یہ محسوس ہوگا یا یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ ساڑھے تین ارب انسان اور چلنے پھرنے والے چوپائے سب کے سب ٹانگوں کے بل زمین سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہر انسان یہ کہتا ہے کہ میں زمین پر پیروں کے بل چل رہا ہوں۔ سمجھ لوکہ وہ کتنی غلط بات کہہ رہا ہے۔ جب سے نوع انسانی آباد ہے، وہ تمام لوگ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی ہے یہی کہتے ہیں۔ یہی سمجھتے ہیں۔ غور کروکہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے سکتا ہے۔ لٹکنے کی حالت تو بالکل جبری ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ میں چل رہا ہوں سراسر غلط ہے۔ جبری حالت میں اسکا ارادہ بے معنی ہے۔ اسلئے کہ اس کی اپنی کوئی حرکت ممکن نہیں ۔ یہ بات تو قرین قیاس ہے کہ جن تاروں میں اسکے پیر بندھے ہوئے ہیں وہ تار حرکت کرتے ہوں اور ان کے ساتھ پیر بھی حرکت کرتے ہوں۔ ان تاروں سے انسان کے ارادے کا کیا تعلق جب کہ انسان کو ان تاروں کا کوئی علم ہی نہیں۔ باوجود اتنی صریح غلطیوں کے وہ دعوے کرتا ہے کہ میرا سربلندی کی طرف ہے، اور میرے پیر پستی کی طرف اور میں چلتا پھرتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بنوا بنا لیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بنوا حقیقت ہے۔
دراصل نہ کوئی سمت ہے، نہ انسان حرکت کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ہاں صرف نیت کرسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی نیت ہی میں لاشمار دعوے جمع کرلئے۔ انسان کے باقی تمام دعووں کا اس ہی دعوے پر قیاس کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے۔ جگہ جگہ فرمایا ہے ‘‘تم نہیں سمجھتے ایسا ہے، ایسا ہے اور تم نہیں دیکھتے ۔’‘ ایک جگہ فرمایا ہے ‘‘ تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جم رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو قرآن پاک میں غیب فرمایا ہے وہ انسان کا غیب ہے ، اللہ کا غیب نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ اللہ کے لئے غیب نہیں ہے تو اللہ کے لئے حضور ہے۔ جو اللہ کا حضور ہے وہ حقیقت ہے جو انسان پر منکشف نہیں ہے۔ اس لئے جو اسکا مشاہدہ ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ اس ہی لئے غلط ہے۔ بدیں سبب ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے۔ اب ساری حقیقت علم حضوری ہے۔ یہ علم حضوری اللہ کی طرف سے ملتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ قرآن پاک میں اس کی بھی وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ‘‘جس نے ہمارے لئے جہد کیا ہے ، ہم اس پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔’‘(العنکبوت۔آیت69)
قرآن پاک میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں:
ملکۂ سبا کے قصے میں ہے جب سلیمانؑ نے کہا اپنے درباریوں سے کہ تم میں سے کون اس کا تخت جلدی لاسکتا ہے تو جنات میں سے ایک نے کہا کہ جتنی دیر میں آپ دربار برخاست کریں، میں تخت حاضر کردوں گا۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ایک دوسرے شخص نے کہا پلک جھپکنے بھی نہ پائے گی کہ تخت یہاں موجود ہوگا............ اور تخت آگیا۔ (النمل ۔آیت40)
اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی خصوصیت بتائی ہے کہ وہ کتاب کا علم رکھتا تھا۔ جتنے صحائف آسمانی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو کتاب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان میں قرآن بھی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ علم موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے اور بار بار قرآن کو کتاب کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جو قرآن نہیں سمجھتے وہ جو بھی چاہیں کہیں۔ ان کی زبان کون پکڑ سکتا ہے لیکن قرآن خود ان کی تردید کرتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم عربی پڑھو اور قرآن کو قرآن کے الفاظ میں سمجھو۔ بغیر کسی تاویل اور بغیر کسی اثر کے بالکل غیر جانب دار ہوکر، اس تصور سے کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں۔ جہاں تک سمجھنے کا سوال ہے ، اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے کہ میں نے تمہارے لئے قرآن کاسمجھنا آسان کردیا ہے۔ ہے کوئی سمجھنے والا؟ یہ صلائے عام ہے۔ سورہ قمر میں چار مرتبہ یہ بات کہی گئی ہے۔
آمدم برسر مطلب۔ تم یہ بات سمجھ گئے ہوگے کہ سمت کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ انسان کی اپنی مفروضہ اور قیاس کردہ ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے علم حضوری کے علاوہ کوئی علم موجود نہیں ہے۔ انسان کا حافظہ اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ علم حضوری کی کسی ایک طرز کو بھی اپنے اندر محفوظ کرلے۔ چنانچہ لوح محفوظ سے پھیلنے والا نور انسان کو اطلاعات فراہم کرتا ہے تو اپنی غرض اور مطلب برآری کے نقطۂ نظر سے کام لے کر ان اطلاعات ۹۹۹ فی ہزار تو رد کردیتا ہے۔ ایک فی ہزار کو مسخ کرکے توڑ مروڑ کے حافظہ میں رکھ لیتا ہے۔ یہی مسخ شدہ اور بگڑے ہوئے خدوخال، اس کے تجربات کا، مشاہدات کا، عادات اور حرکات کا سانچہ بن جاتے ہیں۔ اب جتنی اطلاعات وہ اخذ کرتا ہے، ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ ہے انسان کا تمام کارنامہ اور اس کی معین کردہ اور فرض کردہ سمتیں، فارمولے اور اصول۔ اس ہی خرافات کے بارے میں وہ بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے میرا تجربہ ، یہ ہے مشاہدہ، یہ ہے علم طبیعی۔
تمہارے ذہن میں یہ بات تو آگئی کہ جو نور پوری کائنات میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں جو کائنات کے ذرہ ذرہ کو ملتی ہیں۔ ان اطلاعات میں چکھنا، سونگھنا، سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، خیال کرنا، وہم وگمان وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر شعبہ ، ہر حرکت، ہر کیفیت کامل طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ان کو صحیح حالت میں وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ انسان ہر طرز میں، ہر معاملہ میں، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو......... مسخ کرنیوالی اس کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ جہاں مصلحت نہیں ہے، وہاں استغنیٰ ہے، غیر جانبداری ہے اور اللہ کا شعار ہے۔ اب جو حرکت ہوتی ہے وہ پوری کائنات پر محیط ہے اور پوری کائنات میں عمل کرتی ہے۔
اس چیز کو پھر ایک دفعہ سمجھ لو۔ یہ کوئی باریک بات نہیں ہے۔ صرف توجہ کی ضرورت ہے۔
انسان کی ذاتی مصلحتیں اپنے لئے نور کی شعاعوں کو محدود کرلیتی ہیں۔ یہ محدود شعاعیں اپنا کائناتی عمل ترک نہیں کرسکتیں۔ وہ تو جاری رہتا ہے۔ اب انسان کا ایک باطل تصور جو اس نے شعاعوں سے وابستہ کرلیا ہے، غلط امیدیں بن جاتا ہے ۔ یہی ناکامی ہے۔ یہی انسانی مصیبت ہے۔ سیدھی سادی بات ہے کہ جس نور کا تعلق ساری کائنات سے ہے وہ ایک فرد واحد کیلئے کیسے مخصوص ہوسکتا ہے۔ انسان اگر ذاتی اغراض کی قید و بند میں مبتلا نہیں ہے تو ان شعاعوں کو پوری کائنات پر محیط دیکھتا اور محیط سمجھتا ہے۔ چنانچہ شعاعوں کا اور اس کے زاویہ نظر کا ایک خاص ارتباط قائم ہوجاتا ہے۔ یہ ارتباط وہ شے ہے جو اللہ کے قانون کے زیر اثر شعاعوں کے لئے محل توجہ ہے۔ اب اس کے مفاد کا تحفظ شعاعیں خود کرتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اگر وہ کہے دن تو شعاعوں کو دن پیدا کرنا پڑے گا۔ اگر وہ کہے رات تو شعاعوں کو رات کی تخلیق کرنی پڑے گی۔ اللہ کا شعار شعاعوں کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ دو سنتیں پوری کریں........... ایک کائنات کے لئے عمل کرنا ، دوسری اس فرد کے مفاد میں عمل کرنا جس نے ان شعاعوں سے ارتباط قائم کیا ہے۔
جس وقت حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت عمرؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنیؓ سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ اس پر حضرت اویسؓ نے دو سوال کیے۔
۱۔ ‘‘یاعمرؓ! آپ اللہ کو جانتے ہیں؟’‘
انہوں نے جواب دیا۔ ‘‘ہاں میں اللہ کو جانتا ہوں۔’‘
۲۔ ‘‘یاعمرؓ! اللہ بھی آپ کو جانتا ہے؟’‘
جواب دیا، ‘‘اللہ بھی مجھے جانتا ہے۔’‘
ان دونوں باتوں کا مطلب بالکل واضح ہے۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں قدم اٹھائے اور کام پورا ہوجائے۔ وہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قدم صرف اللہ کے لئے اٹھایا گیا ہے یا اور بھی مصلحتیں شامل ہیں۔ اس میں جنت بھی ایک مصلحت ہے۔ اور بہت سی نیکیاں بھی مصلحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس وقت تک نہیں پہچانتا جب تک کہ مقصد صرف اللہ کی ذات نہ ہو۔ اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے تو جنت اسے جانتی ہے۔ کہتی ہے ‘‘ آؤ لبیک’‘ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ روحانیت میں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا مقصد ، کوئی دوسری غایت شریک کرنا کفر ہے۔
تم نے جو خواب لکھا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
میں آپ کے قدموں میں بیٹھا رو رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ بابا جی! میری اماں کہاں گئی۔ میری اماں مجھے دلادو۔
اطلاع کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ میری صورت ہے۔ دوسرا حصہ تمہاری اپنی صورت ہے۔ تیسرا حصہ اماں ہیں جو موجود نہیں ہیں۔ اطلاع کا انکشاف ہوتا ہے یہاں سے کہ تم ایک جگہ ہو۔ اس جگہ تمہاری حیثیت ایک ایسے سوال کی ہے جو بہت سے سوالات کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ کا نام ہے اماں یعنی زندگی کے بہت سے راستے جس نقطہ سے شروع ہوتے ہیں اور انسان یہ طے نہیں کرسکتا کہ مجھے کن راستوں پر سفرکرنا ہے۔ قدرتاً ماں کی پوزیشن یہی ہے کہ وہ زندگی کو ایک ایسے نقطے پر لاکر کھڑا کردیتی ہے جہاں سے زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے لاشمار ہیں۔ انسان کے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ وہ جس راستہ پر سفر شروع کرے کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ راستہ غلط ثابت ہوجائے اور اسے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے۔ یہاں وہ اپنی روح سے رہنمائی چاہتا ہے لیکن روح کو کسی روپ میں متشکّل دیکھتا ہے کیوں کہ اسے ہر شے کو مشہود بناکے دیکھنے کی عادت ہے ۔ جن دنوں میں تم نے یہ خواب دیکھا ہے، ان دنوں میں ایسے خیالات کا زیادہ زور اور دباؤ رہا ہے۔ مذکورہ بالا خواب 19 جون کا ہے۔ ذہن پر یہ کیفیت ہفتوں پہلے سے مسلط تھی۔ اس کا جواب روح 7 جون کو خواب میں دے چکی ہے۔ 7جون کا خواب تم نے اپنے الفاظ میں اس طرح دیکھا ہے:
ایک آدمی نے مجھے آکے کہا کہ قبلہ بدر صاحب نے تم کو بلایا ہے۔ میں فوراً روانہ ہوگیا اور تھوڑی دیر کے بعد ایک مکان میں داخل ہوگیا۔ دروازہ پرایک عورت ملی۔ اس عورت نے کہا کہ بدر صاحب اس کمرے میں تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوکر میں نے دیکھا کہ بدر صاحب میز کے سامنے بیٹھے ہوئے کچھ کررہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر وہ کھڑے ہوگئے۔ میں نے سلام عرض کیا۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگالیا اور میری زبان اپنے منہ میں لے کر زور سے دبائی جس سے میری آنکھ کھل گئی۔
اس خواب میں مذکورہ سوالات کا پورا جواب موجود ہے۔ یعنی مستقبل میں اللہ کی طرف سے معاونت کا بندوبست ہوگا۔ غیب سے ایسا پروگرام بن جائے گا جو آئندہ زندگی کو کامیاب بنانے کا ضامن ہے۔ ہر چیز بروقت ہوتی جائے گی۔ واضح طور پر اس خواب میں سب چیزیں موجود ہیں.......... ۔ تمہارا بلایا جانا، درمیان میں کسی کی رہنمائی اور آخری منزل میں انسپائریشن(Inspiration)الہامی خیال، کی تکمیل غیب سے۔ یہ سارے ذرات خواب میں الگ الگ موجود ہیں۔ دنیا کے معاملات باقی رہے، وہ سارے کے سارے ان ہی کڑیوں کا سازو سامان ہیں۔ ان کا بروقت موجود ہونا، عمل میں آنا یقینی ہے۔
تم نے حسب ذیل مراقبہ لکھا ہے:
۱۔ رات کو سبق پڑھتے ہوئے سارا جسم زمین سے اٹھ جاتا ہے۔ مگر جب آگے چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گرنے لگتا ہوں۔
۲۔ جب آپ کا تصور کرتا ہوں تو آپ اور ناظم آباد کا پورا مکان میرے سامنے ہوتا ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ناظم آباد میں ہوں یا ناظم آباد اور آپ میرے پاس آگئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
ھدی للمتقین۔ الذین یومنون بالغیب ہ(البقرہ2تا3)
مفہوم: یہ کتاب ان لوگوں کو روشنی دکھاتی ہے جو اپنے اندر اللہ کے بارے میں ذوق رکھتے ہیں۔
غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسان کے مشاہدات سے باہر ہیں۔ وہ سب کے سب اللہ کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمان سے مراد ذوق ہے۔ ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا۔ بلکہ صرف اس لئے کہ طبیعت کا تقاضہ پورا کرے۔ متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ ساتھ ہی بدگمانی کو راہ میں نہیں دیتا۔ وہ اللہ کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ وہ اللہ کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور اللہ کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے ۔ صحیح طور سے پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے۔ یہ نہ سمجھ لینا کہ ہر انسان کے اندر یہ ذوق موجود نہیں ہے۔ درحقیقت وہی ذوق لائف اسٹریم (چشمۂ حیاتLife Stream) ہے۔ اس ہی زندگی کی بنا ہے۔ انسان ا سکو استعمال کرے یا نہ کرے یہ اس کی اپنی مرضی اور مصلحت ہے۔
یہ ذوق ہی انسان کے اندر بستا ہے ورنہ انسان خلا ء ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے:
‘‘ میں نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ہے۔’‘
یہاں مٹی کی نیچر (فطرت Nature) بیان کی ہے جو خلا ہے۔ اب یہ بات تمہارے لئے سمجھنا بہت آسان ہے کہ ذوق میں نہ وزن ہوتا ہے، نہ ذوق کے لئے فاصلہ کوئی معنی رکھتا ہے۔ نہ ذوق زمین آسمان کی حدود کا پابند ہے۔ نہ اسے وقت پابند بنا سکتا ہے۔ یہی ذوق چلتا پھرتا ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ انسان اس سے اس وقت تک متعارف نہیں ہوتا جب تک اس سے تعارف حاصل نہ کرے۔ جب تعارف حاصل کرلیتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہی ذوق انسان ہے۔ یہ پوری کائنات میں آزاد ہے۔ فرشتوں کا سربراہ ہے۔ اللہ کی بہترین صنعت ہے اور کائنات میں اللہ کا نائب ہے۔ نہ وہ پیروں سے چلنے اور ہاتھوں سے پکڑنے کا پابند ہے۔ نہ وہ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا محتاج ہے۔ یہ ساری خرافات انسان نے آپ ہی تخلیق کی ہیں اور آپ ہی ڈھول بجاتا پھرتا ہے کہ ہائے میں تو بالکل مجبور ہوں۔ تم یہ سوچو گے کہ کتنے ہی آدمی جو اللہ تعالیٰ سے تعارف حاصل کرسکے وہ تو بہر صورت آزاد نہیں ہیں۔ انہیں ہر معاملہ میں آزاد ہونا چاہیئے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ آزاد ہیں مگر ساتھ ہی وہ نوع انسانی کے معاشرے کی رسی میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہر دور میں اس ہی کمزوری نے ایسے لوگوں کی آزادی کو ادھورا رکھا ہے۔
جس کا نام زید ہے وہ اس ہی ذو ق کا پیٹرن (طرز،Pattern) ہے۔ کوئی پیٹرن ساکت و صامت پنجرہ نہیں بلکہ بولتا، چلتا پھرتا، کھاتا پیتا، سوچتا سمجھتا انسان ہے۔ فرش سے عرش تک اس کا ایک قدم ہے۔ سوئی کا روزن اور آسمانوں کی کھلی فضا ایک ستارہ سے دوسرے ستارے تک کا فاصلہ اس کے لئے ایک ہی معنی رکھتا ہے۔ وہ نہ کہیں رکتا ہے، نہ کھٹکتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ خود کو جانتا نہیں کہ میں کیا ہوں اور کائنات کیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نوع انسانی پر یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ان تمام رازوں کو واشگاف کرکے رکھ دیا ۔ یہ نہ سمجھنا کہ یہ سب راز انہوں نے از خود منکشف کردیئے تھے بلکہ ان پر اللہ نے کھولے جن کو من و عن انہوں نے قرآن کی صورت میں ریکارڈ کرادیا۔ انہوں نے ساری زندگی کی جفاکشی سہہ کر اس امانت کو نوع انسانی کے حوالے کیا۔ نوع انسانی نے جو قدر کی ہے، وہ ظاہر ہے۔
اللہ نے اس ہی علم کو کتاب کا علم فرمایا ہے۔ ہر انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، چاہے اس کا نام زید ہو، بکر ہو یا عمر ہو۔
تم نے لکھا ہے کہ چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گرنے لگتا ہوں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ابھی تم انسان سے اچھی طرح متعارف نہیں ہو جو حقیقی انسان ہے۔
تم یہ خط بغور پڑھنا۔ اگر کوئی لفظ یا طرز بیان تمہیں مشکل محسوس ہو اسے بار بار پڑھ کر سمجھ لینا۔ رات کے وقت فرصت میں بیٹھ کر حرف بحرف اس خط کی نقل کرنا اور وہ نقل اپنی فائل میں محفوظ کرلینا۔ اس خط کی نقل کرنا تمہارے لئے اشد ضروری ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عبارتیں اور مفہوم اچھی طرح تمہارے حافظے میں منتقل ہوجائیں۔ پھر اس نقل کا بار بار پڑھنا بھی ضروری ہے۔ جب تم اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کو بار بار پڑھنے میں آسانی محسوس کروگے اور ذہن کو لفظوں کے معانی میں مرکوز رکھ سکو گے، میرے لکھے ہوئے لفظوں کو پڑھنے میں ذہن پر الگ سے جو بار پڑسکتا ہے اس بار سے تمہارا ذہن محفوظ رہے گا۔
سلسلہ کے سب بہن بھائی تمہیں یاد کرتے ہیں اور مزاج پوچھتے ہیں۔
بہت یاد سے دعاگو
حسن اخریٰ محمد عظیم
1بجے شب،19 اگست 1963ء
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔
ا نتساب
اُس نوجوان نسل کے نام
جو
ابدالِ حق، قلندر بابا اَولیَاء ؒ کی
‘‘ نسبت فیضان ‘‘
سے نوعِ ا نسانی کو سکون و راحت سے آشنا کرکے
اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے
ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
انسان اپنا ازلی شرف حاصل کر کے جنت
میں داخل ہوجائے گا۔
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیمٓ
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا