Topics

لاٹھی قندیل بن گئی


حضرت طفیل بن عمرو معروف شاعر تھے ۔ جب وہ مکہ آئے تو سرداران قریش نے بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور کہا ، اے طفیل ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری قوم کے ایک نوجوان محمد بن عبداللہ بن عبدالطلب نے ہمارے مذہب میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اس کے کلام نے باپ ، بیٹے ، بھائی بہن اور میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہ مصیبت تم پر بھی نازل نہ ہو جائے ۔ ہم تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ اس کی کوئی بات نہ سننا ۔ طفیل بن عمرو بیت اللہ جاتے وقت اپنے کانوں میں روئی رکھ لیتے تھے کہ غیر اختیاری طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کان میں نہ پڑ جائے ۔ ایک روز وہ علی الصبح بیت اللہ شریف گئے تو انہوں نے دیکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہیں۔ نہ چاہنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے کانوں میں پہنچ گئے ۔

الفاظ انہیں بہت اچھے لگے انہوں نے اپنے آپ سے کہا ۔ طفیل تیری ماں تجھے روئے تو نے یہ کیا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔ تجھے اللہ نے عقل دی ہے ، تو شاعر ہے ۔ تو برے بھلے میں تمیز کر سکتا ہے پھر تجھے اس شخص کی باتیں سننے سے کون سی چیز مانع ہے؟ اچھی باتیں ہوں تو قبول کر لینا اچھی باتیں نہ ہوں تو قبول نہ کرنا ۔ یہ سوچ کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر کی طرف چلے تو طفیل بھی ان کے پیچھے ہو لئے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہو گئے تو طفیل نے دروازہ پر دستک دی اور گھر میں داخل ہو کر سارا واقعہ سنایا اور کہا ،   خدا کی قسم میں نے اس سے بہتر کوئی بات سنی ہے نہ ہی اس سے اچھا کوئی کلام مجھ تک پہنچا ہے۔  انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور عرض کیا ،   محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

میں اپنی قوم میں معزز ہوں اور قوم کے سبھی فرد میری بات مانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے ایسی نشانی عطافرما دیں جو دعوت اسلام میں میری معاون ہو ۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی ۔ جب وہ پہاڑی سے اپنے قبیلے کی طرف اتر رہے تھے تو ان کی لاٹھی کے سرے سے روشنی نمودار ہو گئی ۔ وہ روشنی یوں نظر آتی تھی جیسے قندیل ہوا میں معلق ہو ۔ انہوں نے اندھیری رات میں قندیل کی روشنی میں سفر طے کیا اور اپنے گھر پہنچ گئے ۔ گھر والے جب ان سے ملنے آئے تو انہوں نے کہا ، مجھ سے دور رہو نہ میں تمہارا ہوں نہ تم میرے ہو ۔ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا پیروکار بن گیا ہوں ۔ سب نے اقرار کیا کہ تمہارا دین ہمارا دین ہے اور ہم سب مسلمان ہیں۔

حضرت طفیلؓ بن عمرو نے قبیلہ دوس کو اسلام کی دعوت دی ۔ مگر وہ اپنے عقائد چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے ۔ دل گرفتہ ہو کر حضرت طفیلؓ مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا ۔   محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں     اپنی پوری کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں مگر میرے قبیلے والے ایمان نہیں لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعا فرما ئیے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور بارگاہ الہی میں التجا کی ،   اے اللہ ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے ۔   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طفیل ؓ سے فرمایا ،   تم اپنی قوم میں واپس جاؤاور انہیں نرمی سے اسلام کی دعوت دو ۔

          حضرت طفیلؓ واپس گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تبلیغ دین شروع کر دی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے بعد خیبر میں تشریف فرما تھے تو حضرت طفیلؓ قبیلہ دوس کے ستر اسی گھرانو ں کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

          ہر شے دو رخوں پر پیدا کی گئی ہے ایک رخ مادیت ہے اور دوسرا رخ باطن ہے ۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ۔ لیکن مادی رخ ہمیشہ باطنی رخ کے تابع ہوتا ہے ۔ صلاحیت باطنی رخ میں ہوتی ہے ۔ باطنی رخ سے اگر صلاحیت مادیت میں منتقل نہ ہو تو حرکت نہیں ہوتی ۔ حرکت صلاحیت کا مظہر ہے اور ہر شے کی صلاحیت الگ الگ بھی ہے اور اجتماعی بھی ۔ لکڑی کی صفت جلنا یا روشن ہونا ہے ۔ جب لکڑی کا باطن رخ متحرک ہوا تو لکڑی روشن ہو کر مشعل بن گئی ۔ 


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔