Topics
آبادی سے دور، ملگجی سی چاندنی میں نہائے کھیت، رات کی مخصوص آوازیں، سناٹے
کا حسن، آہستہ خرام قدموں کی سرسراہٹیں، یہ سب ہمیں ایک ماورائی سے ماحول کا حصہ
لگ رہا تھا۔ مرید نے چاند کی طرف دیکھا۔ دسویں یا گیارہویں کا چاند، لاہور سے دور
گھروں سے اٹھتے دھویں کی تہہ میں جاتی سردیوں کی خنکی میں کچھ عجیب سا تاثر دے رہا
تھا۔ بات چاند سے شروع ہو کر چاندنی پر آ کر سوال بن گئی:
’’جب سورج کی روشنی
براہ راست زمین پر پڑتی ہے تو دھوپ کہلاتی ہے اور جب چاند سے منعکس ہو کر زمین تک
پہنچتی ہے تو چاندنی کہلاتی ہے۔ اس انعکاس کے دوران اس روشنی میں ایسی کیا تبدیلی
رونما ہوتی ہے کہ دھوپ کی حدت اور تمازت چاندنی کی ٹھنڈک اور نرماہٹ میں تبدیل ہو
جاتی ہے؟‘‘
میرا سوال بن کر ایک دو لمحے توقف کیا تا کہ ہم ان کے جواب کو سمیٹنے کے لئے
اپنی سماعتوں کے کاسے پوری طرح پھیلا لیں اور فرمایا :
’’روحانی سائنسدان کا کہنا ہے کہ جیسے چاند خود روشن نہیں اسی طرح سورج بھی خود
روشن نہیں۔ روحانی آنکھ سے دیکھنے پر سورج ایک سیاہ ٹکیہ کی مانند نظر آتا ہے۔
درحقیقت زمین روشن ہے۔ سورج اس کی روشنی کو گرم کر کے پلٹاتا ہے۔ اسی کو ہم دھوپ
کہتے ہیں۔ چاند میں سورج کے برعکس پارے کے تالاب اور جھیلیں ہیں۔ وہاں ابرق کے
پہاڑ ہیں۔ جن کے باعث زمین کی روشنی ٹھنڈی ہو کر چاند کی سطح سے منعکس ہوتی ہے۔
پارے اور ابرق کی بہتات زمین کی روشنی کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے
اور یہ روشنی پھلوں اور اناج میں مٹھاس اور شرینی پیدا کرتی ہے۔‘‘
میرے مراد کے جواب نے نہ صرف ہماری فہم و فراست کے دروازے وا کر دیئے بلکہ آ
گہی کے سورج کی ضیا پاشیوں سے ہمارے قلب و نظر میں جگمگاہٹ اتر آئی۔ شعور ان
باتوں کی ندرت سے تحیر میں گم ہو کر رہ گیا۔ اس نے ایک مزید سوال داغ دیا۔
’’چاندنی اور پاگل پن میں جو گہرا تعلق ہے روحانی سائنس اس کی بابت کیا نظریہ
رکھتی ہے؟‘‘
چاندنی میں ٹھنڈک کا
عنصر ایسی کیفیت ہے جس کے باعث ذہن پر سکون ہو جاتا ہے اور پر سکون ہونے سے لاشعور
کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے۔ اس رجحان کا ابنارمل ہونا پاگل پن کہلاتا ہے۔‘‘
جواب ملا۔
سوال کتنا ہی غیر اہم اور غیر متعلق کیوں نہ ہو میرے مراد کے نور فراست سے
جگمگا اٹھتا ہے۔ اس کی شفقت نے شہہ دی اور چاند اور چاندنی کے حوالے سے اس کی
مدوجزر سے تعلق کی بابت پوچھے بنا رہ نہ سکا۔
فرمایا۔’’دراصل پانی میں پارے کا رنگ ہوتا ہے۔ اس لئے چاندنی میں اس کے لئے
کشش ہوتی ہے۔ رنگ کو رنگ کھینچتا ہے اس لئے پانی ہلکا ہو کر اوپر اٹھ جاتا ہے اور
مدوجزر بنتا ہے۔‘‘
گھمبیر گھتیوں کو ایک ہی جملے میں سلجھانا ہر کسی کو کہاں آتا ہے؟ میرے مراد
کی یہ ایک بہت ہی خاص ادا ہے۔ کتنی ہی معمولی بات پوچھی جائے، کتنا ہی ادنیٰ سا
سوال کیوں نہ ہو، کبھی ٹالیں گے نہیں۔ ٹالیں گے تو اس میں بھی کوئی رمز ہوتی ہے جو
بہت بعد میں سمجھ میں آتی ہے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔