Topics
رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینے کی طر ف روانہ ہوئے
تو کفار مکہ نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی
کو پکڑ کر لائے گا اسے سو اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے۔ انعام کے لالچ میں بہت سے
لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ سراقہ نامی شخص اپنے
تیز رفتار گھوڑی پر سوار ہو کر تلاش میں نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور
حضرت ابو بکر صدیقؓ تین دن غار ثور میں قیام کرنے کے بعد مدینے کی طرف روانہ ہو
گئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے میں ہی تھے کہ سراقہ اپنا گھوڑا دوڑاتا
ہوا آ پہنچا ۔ جب وہ قریب آیا تو اس کے گھوڑے کے چاروں پیر پیٹ تک زمین میں دھنس
گئے۔ یہ دیکھ کر سراقہ بہت گھبرایا۔ اس نے بہت کوشش کی مگر گھوڑے کے پیر زمین سے
باہر نہ نکلے ۔ سراقہ نے التجا کی:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میرے
گھوڑے کو اس مصیبت سے نجات دلائیے ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ واپس چلا جاؤں گا اور جو
کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آرہا ہو گا اسے بھی واپس لے جاؤں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا
فرمائی ۔ زمین نے گھوڑے کو باہر نکال دیا۔ سراقہ واپس جانے لگا تو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
اے سراقہ !میں تیرے ہاتھوں میں ایران
کے بادشاہ نوشیروان کے کنگن دیکھ رہا ہوں
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں
ایران فتح ہوا۔ مال غنیمت میں ایران کے بادشاہ نوشیروان کے کنگن بھی تھے ۔ جو حضرت
عمر فاروق ؓ نے سراقہ کے ہاتھوں میں پہنا دئیے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔