Topics
عدی بن حاتم ، حاتم
طائی کے بیٹے تھے ۔ شام سے مدینہ منورہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر
ہوئے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام انہیں گھر لے گئے اور کھجور کی چھال سے بھرا ہو
اکشن بیٹھنے کے لئے دیا اور خود زمین پر بیٹھ گئے ۔ عدی بن حاتم نے سوچا بلا شبہ
یہ بادشاہ نہیں ہیں کیونکہ بادشاہوں میں اس طرح کی تواضح نہیں ہوتی ۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے
فرمایا ۔ اے عدی تم عیسائیت اور صابیت کے درمیان کا اعتقاد رکھتے ہو ۔ عدی بن حاتم نے عرض کیا ، بے
شک آپ نے سچ فرمایا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عدی بن حاتم
تم اپنی قوم سے غنیمتوں کا چوتھا حصہ لیتے ہو ۔ حالانکہ تمہارے دین میں یہ جائز
نہیں ہے۔ عدی کہنے لگے ، بے شک آپ نے سچ فرمایا ہے۔ عدی بن حاتم کو یقین ہو گیا
کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں جو غیب کی باتین جانتے ہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :
اے عدی
اسلام کی طرف تمہاری رغبت ہے مگر تم اسلام اس لئے قبول نہیں کرتے کہ تمہیں بظاہر
مسلمانوں کی حالت کمزور نظر آتی ہے ۔ خدا کی قسم ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کے
پاس دولت پانی کی طرح بہتی ہو گی ۔ مسلمان مٹھیاں بھر بھر کر سونا چاندی خیرات میں
دیں گے اور اسے قبول کرنے والا کوئی نہیں ملے گا ۔
اور تم اسلام کو اس لئے قبول نہیں
کرتے کہ تمہیں مسلمان تھوڑے اور ان کے مقابلے میں کفار تعداد میں زیادہ نظر آتے
ہیں ۔ خدا کی قسم ایک وقت آئے گا کہ چار دانگ عالم میں اسلام کا چرچا ہو گا ۔
زمین کے اوپر پھیلے ہوئے دور دراز ممالک مسلمانوں کے زیر نگیں ہو گے ۔ حتی کہ
عورتین تن تنہا اونٹ پر سوار ہو کر بے خوف و خطر قادسیہ سے چل کر بیت اللہ شریف کی
زیارت کو آئیں گی۔
اور تم اس خیال سے اسلام کو قبول
نہیں کرتے کہ تمہیں مسلمانوں میں بادشاہ نظر نہیں آتے ۔ تمہارے خیال میں بادشاہت
مسلمانوں کے مخالفین کے پاس ہے ۔ خدا کی قسم وقت آئے گا کہ روم اور بابل کے شاہی
محلات مسلمانوں کے پاس ہوں گے ۔ عدی یہ پیشین گوئی سن کر مسلمان ہو گئے۔
عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میری
زندگی میں ہی بابل کے سفید شاہی محلات ختم ہو گئے اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ اونٹ
پر سوار تنہا عورت کئی دنوں کا سفر طے کر کے بیت اللہ شریف پہنچی ہے اور خدا کی
قسم تیسری پیشین گوئی بھی پوری ہو کر رہے گی کہ دولت پانی کی طرح بہے گی اور کوئی
ایسا نہ ملے گا جو اسے قبول کرنے پر تیار ہو جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔