Topics

ستارے قریب آئے

عثمان بن العاص کی والدہ فاطمہ بنت عبداللہ حضور علیہ الصلوة والسلام کی پیدائش کے وقت بی بی آمنہ کے پاس موجود تھیں۔ جس وقت آپؐ پید ا ہوئے انہوں نے دیکھا کہ سارا گھر نور سے بھر گیا اور ستارے اس قدر قریب آ گئے کہ گمان ہوا کہ ستارے زمین پر گر پڑیں گے ۔

پنگوڑے میں چاند

          عباس ؓ بن عبدالمطلب کہتے ہیں ۔ابتدائی عمر میں آپؐ پنگھوڑے میں انگلی سے چاند کی طرف اشارے کرتے تو چاند اسی طرف جھک جاتا تھا ۔ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا۔

مائی حلیمہ

          حضور علیہ والصلوة والسلام کی ولادت سے قبل مکہ میں قحط سالی تھی ۔ بنو سعد کی حلیمہ سعدیہ ؓ اپنے قبیلے کی عورتوں کے ساتھ مکہ میں آئیں۔ ان کا شیر خوار بچہ عبداللہ، ان کے شوہر اور ایک اونٹنی ان کے ہمراہ تھی۔ کمزور و نزار ماں اور نحیف اونٹنی کے دودھ سے بچے کی غذائی ضروریات پوری نہ ہوتی تھیں۔ جب حضور علیہ الصلوة والسلام حلیمہ کی گود میں آئے تو مائی حلیمہ کی قسمت جاگ اٹھی ۔ مائی حلیمہ کا خشک سینہ دودھ کا چشمہ بن گیا ۔ نحیف و نزار اونٹنی میں بجلیاں دوڑ گئیں ۔ تھن دودھ سے بھر گئے ۔ میاں بیوی نے سیر ہو کر اونٹنی کا دودھ پیا ۔ اونٹنی قافلے کے سب جانوروں سے آگے چل رہی تھی ۔ ساتھ کی عورتیں حیران ہو کر پوچھتی تھیں:

          اے ابو زیب کی بیٹی ! کیا یہ وہی سواری ہے؟

          مائی حلیمہ نے جواب دیا ۔

          ” واللہ ! سواری تو وہی ہے سوار بدل گیا ہے ۔ “

دو اجنبی

          حضور کی عمر دو سال ہو گی تو حلیمہ سعدیہ ؓ محمدؐ  کو والدہ کے پاس مکہ واپس لے آئیں ۔ ان دنوں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ حلیمہ سعدیہ ؓ نے حضرت آمنہ ؓ سے عرض کیا” بہتر ہو گاآپؐ اپنے بیٹے کو مزید کچھ عرصہ میرے پاس اور رہنے دیں تا کہ محمدؐ  یہاں کی وبا سے محفوظ رہیں۔

حضرت آمنہ ؓ نے حضور کو حلیمہ سعدیہ ؓ کے ساتھ واپس بھیج دیا ۔ ایک روز محمدؐ  اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ بھیڑیں چرانے لگے ہوئے تھے ۔ عبداللہ دوڑتا ہوا حلیمہ سعدیہ کے پاس آیا اور چلا کر کہا ، ” اماں جان ! جلدی آئیے  میرےقریشی بھائی کو دو اجنبی اپنے ساتھ لے گئے ہیں ۔ یہ سن کر حلیمہ سعدیہ ؓ اور ان کے شوہر بھاگ کر چراگاہ پہنچے دیکھا کہ محمدؐ  کھڑے ہیں اور چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے ۔ مائی حلیمہ فراطِ محبت سے محمدؐ  سے لپیٹ گئیں ۔ محمدؐ  نے بتایا کہ سفید لباس پہنے دو اجنبی شخص میرے پاس آئے ۔ انہوں نے مجھے زمین پر لٹا دیا ۔ ایک نے میرے پیٹ کو سینے تک چاک کر دیا پھر اس نے میرے سینے سے دل نکالا اور اس میں سے خون کی ایک سیاہ پھٹکی نکال کر پھینک دی ۔ پھر دوسرا شخص آگے بڑھا ۔ اس کے ہاتھ میں چاندی کی طرح پانی سے بھرا ہوا طشت تھا ۔ اس نے میرے دل کو دھوکر سینے میں واپس رکھ دیا اور دل پر مہر لگا کر پیٹ اور سینے کو سی دیا ۔ حلیمہ اور اس کے شوہر نے حیران ہو کر محمدؐ  کی طرف دیکھا کیونکہ نہ تو محمدؐ  کے لباس پر خون کا کوئی دھبہ تھا اور نہ جسم پر کوئی نشان تھا ۔

٭٭٭

          روحانی نقطہ ءنظر سے ہر انسان میں دو دماغ کام کرتے ہیں ۔ جب کوئی بچہ دنیا میں آتا ہے تو بتدریج اس کے اوپر مادی حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور مادی حواس کا غلبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ غیب کی چیزیں نہیں دیکھ سکتا ۔ سیدنا حضور علیہ الصلوة والسلام کے بچپن کے ان واقعات میں یہ اسرار کھلتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوة والسلام بچپن میں بھی غیب دیکھتے تھے ۔ اس لئے کہ حضرت جبرائیل ؑ کا نظر آنا سینہ مبارک کا شق ہونا ، قلب مطہر کو طشتری میں رکھنا، اس کو دھونا اور سینہ مبارک میں رکھ کر شگاف کو بند کرنا یہ سب غیب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس سارے واقعہ میں یہ بات بڑی فکر طلب ہے کہ مائی حلیمہ ؓ ان کے شوہر اور حضور کے رضائی بھائی عبداللہ نے جب حضور کو دیکھا تو سینے کے شق ہونے اور دل باہر نکالنے کے اثرات موجود نہیں تھے ۔ انتہا یہ ہے کہ لباس پر خون کا کوئی داغ دھبہ نہیں تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور پاک ؐنے بچپن میں ایسی ماورائی حالت کا مشاہدہ کیا جو عام آدمی نہیں کر سکتا۔

Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔