Topics
رات کو روحانی لائبریری دیکھنے ماڈل ٹاؤن گئے۔ یہ لائبریری شاہین صاحب نے اپنے
گھر میں ایک کمرہ مخصوص کر کے بنائی ہے۔ پورے ملک کے طول و عرض میں لائبریریوں کا
ایک جال بچھا دیا گیا ہے۔ لوگوں میں مطالعے اور کتب بینی کے ذوق کو پیدا کرنے، اسے
ابھارنے اور سلسلہ کے پیغام کو پھیلانے کے لئے ہر شہر میں کئی کئی لائبریریاں قائم
کی گئی ہیں۔ ہر جگہ یہ لائبریریاں اپنی مدد آپ کے اصول پر خدمت خلق کے جذبے سے
شہر کے مراقبہ ہال سے راہنمائی لے کر قائم کی جاتی ہیں۔ لائبریریوں میں زیادہ تر
کتب روحانی موضوعات پر ہوتی ہیں، اس لئے بھی ان لائبریریوں کو روحانی لائبریریاں
کہا جاتا ہے۔ یہ لائبریری بہت ہی نفاست اور عمدگی سے بنائی گئی تھی۔
شاہین صاحب بتا رہے تھے کہ الماریوں وغیرہ پر اتنے ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں اس
پر مرشد کریم نے اپنے مخصوص لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’جی ہاں! پیسہ بول رہا ہے۔‘‘
لائبریری دکھانے کے بعد شاہین صاحب نے میاں صاحب کی فرمائش پر اپنی ورکشاپ اور
لیبارٹری دکھائی۔ وہاں وہ ویڈیو فلمیں بناتے ہیں۔ اسی دوران وقار یوسف عظیمی بھی
وہاں پہنچ جاتے ہیں اور رات کا کھانا سب مل کر کھاتے ہیں۔ کھانے کے دوران بھائی
جان (وقار یوسف صاحب) صبح ڈسٹرکٹ بار روم میں ہونے والے حضور کے خطاب کی بات چھیڑ
دیتے ہیں۔ حضور سب کو دعوت فکر دیتے ہوئے پوچھتے ہیں۔’’مجھے کل وہاں کیا کہنا
چاہئے؟‘‘۔ سب حسب توفیق مشورے دینے لگے۔
میں نے سوچا میرے مراد نے ایسا کیوں کہا؟ ہم اس قابل کہاں اور کیسے ہو گئے کہ
انہیں مشورہ دے سکیں جو اس وقت تک ایک انتہائی محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ بیس
لاکھ افراد کو مشوروں سے نواز چکے تھے۔ انہیں ہم ایسوں سے مشاورت کی بھلا کیا
ضرورت تھی؟ شاید یہ سب بھی ہماری تربیت کا حصہ تھا۔
حقیقی عظمت کے اجزائے ترکیبی میں انکسار جزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا
اظہار روحانی لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ دوسروں کے لئے مثال ہو اور ان کے اتباع کو کسی
صفت کی عملی صورت کا مشاہدہ ہو سکے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔