Topics
حضورعلیہ الصلوة
والسلام کے پاس بنو عامر کا ایک وفد مدینہ آیا اس وفد میں عامر بن طفیل اور اربد
بن قیس بھی تھے۔ دونون اپنے قبیلے کے سردار تھے اورحضورؐ سے سخت عداوت رکھتے تھے ۔
دونوں نے سازش کی کہ سیدنا علیہ الصلوة والسلام کو باتوں میں لگا کر وار کیا جائے۔ حضور علیہ
والصلوٰۃ والسلام سے کہا ، ہم آپؐ سے تنہائی میں بات کرنا چاہتے ہیں ۔حضورؐ نے
تنہائی میں ملنے سے انکار کر دیا ۔ وہ دونوں تنہائی میں بات کرنے پر اصرار کرتے
رہے ۔ جب بار بار کی تکرار کے باوجودحضورؐ نے عامر بن طفیل کی بات نہیں مانی تو اس
نے کبرو نخوت کے ساتھ کہا:
اللہ کی
قسم ! میں اس علاقے کو سواروں اور پیادہ فوج سے بھردوں گا کہ تمہیں ختم کر ڈالیں۔
یہ دھمکی دے کر وہ غصے سے پیر پٹختا ہوا چلا گیا ۔ اس کے جانے کے بعد حضورعلیہ
الصلوة والسلام نے دعا مانگی ۔
اے اللہ
! عامر بن طفیل کے مقابلے میں میرے لئے تو کافی ہو جا ۔
عامر بن طفیل راستہ میں طاعون کی بیماری
میں مبتلا ہو کر مر گیا اور اربد بن قیس اونٹ پر سوار ہو کر اسے فروخت کرنے کے لئے
نکلا تو آسمان سے بجلی گری جس سے اونٹ اور اربد دونوں ہلاک ہو گئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔