Topics
بارہ برس کی عمر میں
ابو طالب کے ساتھ بصرہ میں جب محمدؐ نے
قیام کیا تو بحیرا ءراہب نے محمدؐ کا ہاتھ
پکڑ لیا اور کہا ” اللہ نے انہیں رحمت اللعالمین بنایا ہے“۔ ابو طالب نے حیران ہو
کر پوچھاآپؐ کو کیسے معلوم ہوا کہ محمدؐ رحمت اللعالمین ہیں؟بحیراءراہب نے کہا ” تم لوگ
گھاٹی کے اس جانب تھے، میں نے دیکھا کہ کوئی چیز ایسی نہ تھی جو محمدؐ کے احترام کے لئے جھک نہ گئی ہو۔
امین و صادق کی حیثیت سے محمدؐ رسول اللہ کا شہرہ عام تھا ۔ حضرت خدیجة الکبری
ؓ مکہ کی معزز تاجر تھیں۔ انہوں نے سیدنا
علیہ الصلوة والسلام سے درخواست کی کہ وہ ان کا سامانِ تجارت لے کر شام تشریف لے
جائیں۔ میسرہ آپؐ کا ہمسفر تھا۔ بصری ٰمیں نسطوراءراہب کی خانقاہ کے قریب تجارتی
قافلے نے پڑاؤڈالا ۔ نسطورا ءمیسرہ کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے
۔ میسرہ نے کہا ، میرے ساتھ محمدؐ ہیں ۔
یہ خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ۔ مکہ کے رہنے والے ہیں اور ان کا لقب امین
ہے۔
نسطوراءنے کہا ، جس درخت کے نیچے محمدؐ آرام کر رہے ہیں اس درخت کے نیچے نبیوں کے علاوہ
کسی نے قیام نہیں کیا ۔ مجھے یقین کامل ہے کہ یہ مبارک شخص وہی ہے جس کا تذکرہ
توریت اور انجیل میں ہے ۔ میں اس ہستی میں وہ تمام نشانیاں دیکھ رہا ہوں جو مقدس
آسمانی کتابوں نے آخری نبی کے لئے بیان کی ہیں۔
٭٭٭
انسان کی مادی وجود کے اوپر روشنیوں کے
دو غلاف ہیں ۔ اور ان دونوں غلافوں میں بجلی دوڑتی رہتی ہے۔ ایک غلاف میں روشنیاں
پازیٹیو اور دوسرے غلاف میں نیگیٹو پازیٹیو ہوتی ہیں۔ ان روشنیوں کے فلو (Flow)سے حواس بنتے ہیں ۔ حواس کی دو
سطح ہیں ۔ ایک سطح فرد کی ذہنی حرکت ہے اور دوسری سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت
کو کائناتی سسٹم سے ملاتی ہے۔حواس ہمہ وقت تقسیم ہوتے رہے ہیں ۔ حواس کی تقسیم سے
ایک طرف اعضائے جسمانی بنتے ہیں اور دوسری طرف اعضائے جسمانی کی صلاحیتیں تخلیق
ہوتی ہیں۔ جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے ۔ آنکھ ، کان، ناک، زبان، پیر،
حواس کی تقسیم ہیں ۔ آنکھ کا دیکھنا ، کان کا سننا اور پیرکا پیمائش کرنا زبان میں
ذائقہ اور ناک میں سونگھنے کی حس جسمانی فعلیت ہے ۔ اس کے برعکس حواس میں جو
تحریکات ہوتی ہیں وہ ماورائی تحریکات ہیں جو تواتر کے ساتھ قائم رہتی ہیں۔
لمحات بہ یک وقت دو سطحوںمیں حرکت کرتے
ہیں ۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہر شے میں الگ الگ ہے ۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر
کرتی ہے جو شے کو اس کی منفرد ہستی کے دائرے میں دکھاتی ہے۔
دوسری سطح کی حرکت کائنات کی تمام
اشیاءمیں بہ یک وقت جاری ہے اگر کوئی شخص دوسری سطح کا ادراک حاصل کر لے جو
ریاضت و مجاہد ہ اور مراقبہ کے ذریعہ ممکن ہے تو کائنات کے مخفی گوشے سامنے آنے
لگتے ہیں۔ بحیراءراہب اور نسطوارءنے رہبانیت کے نظام کے تحت دنیا سے الگ تھلک ہو
کر اپنے اندر ایسی صلاحیت بیدار کر لی تھی کہ جس صلاحیت سے غیب کے کچھ مخفی گوشے
سامنے آ جاتے ہیں۔ اسی صلاحیت کی بناءپر بحیراءراہب اور نسطوراءنے سیدنا حضور علیہ
الصلوة والسلام کے بارے میں انکشافات کئے ۔
نوٹ: اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے ۔ ” لا رہبانیت فی الا سلام “
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔