Topics
صبح نماز اور مراقبہ کے بعد درس میں قرآن حکیم کی آیت:
ختم اللّٰہ علی قلوبہم……
کی شرح فرماتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ مہر کر دیتے ہیں کا جو مطلب ہم لیتے
ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ مہر کر دیتا ہے۔ جب اللہ نے مہر کر دی تو پھر بھلا بندے کا کیا
قصور ہوا، پھر اس کو عذاب الیم کس بات کا؟ پھر اس کی تفصیل فرماتے ہوئے بتایا کہ
قلب کے بعد نفس کی کیفیت ہوتی ہے۔ قلب میں اللہ کی طرف سے موصولہ اطلاعات اور نفس
میں بندے کی مرضی اور اختیار کی روشنی میں ان اطلاعات میں معنی پہنانے کا عمل ہوتا
ہے۔ جب بندہ کسی برائی کو اختیار کرتا ہے تو ضمیر جس کو حضور قلندر بابا اولیاء نے
نور باطن فرمایا ہے، بندے کی راہنمائی کو اسے ٹوکتا اور منع کرتا ہے۔ کئی بار ایسا
ہونے کے بعد جب آدمی اپنی بات پر اڑ جاتا ہے اور برائی کو اختیار کرنے کا عہد کر
لیتا ہے تو فرشتے یہ بات اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔ اس پر اللہ آدمی
کے کیے ہوئے عہد پر کاؤنٹر سائن Counter Signکر دیتے ہیں اور اب اس آدمی پر اس کی اختیار کی ہوئی برائی
مسلط ہو جاتی ہے۔ اس کے کانوں اور آنکھوں پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے کہ وہ ہر بات
کو اسی برائی کے حوالے سے سنتا اور دیکھتا ہے۔ اسی برائی کے اختیار کرنے، اس پر
قائم ہونے اور ضمیر کی ہدایت کو نظر انداز کرنے پر سزا ملتی ہے اور یہ یاد رکھیں
کہ اللہ کسی کو سزا نہیں دیتا۔ آدمی اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی پکڑ میں آ
جاتے ہیں اور یہی ان کی سزا ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔