Topics

خانقاہی نظام تربیت


                مراقبہ ہال(جامعہ عظیمیہ) لاہور میں سہ روزہ تربیتی سیمینار اور مراقبہ ہالوں کے نگراں خواتین و حضرات کی میٹنگ تھی۔ روشن نظر اور منور دل دوستوں کا روح پرور اجتماع تھا۔ سب ایک ہی باپ کی روحانی اولاد ہونے کے ناطے آپس میں بہن بھائیوں کا سا تعلق اور لگاؤ محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے سے مل مل کر خوش ہو رہے تھے۔ میاں مشتاق احمد عظیمی اور ان کے پر جوش اور مخلص ساتھی پورے ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کی میزبانی میں سرگرم تھے۔ فضا میں خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔ ہر طرف مسرتیں رقصاں تھیں۔ ان خوشیوں اور مسرتوں کے روح رواں سب کی توجہ کے مرکز ہم سب کے مرشد، ہادی اور مراد تھے۔ ہم ان کی باتوں سے اپنی سماعتوں کی آبیاری کرنے، اپنے ذہنوں کو ان کے افکار کے موتیوں سے سجانے اور دلوں میں ان کے قرب کے احساس کو تازہ کرنے ہی تو اکٹھے ہوئے تھے۔

                خانقاہی نظام تربیت کا اعجاز ہے کہ آج علم سینہ کو باقاعدہ درس و تدریس کے انداز پر پڑھایا، سکھایا اور منتقل کیا جا رہا ہے۔ روحانیت ایک باقاعدہ سائنس کی طرح تھیوری اور پریکٹیکل کے ساتھ پڑھائی اور سکھائی جارہی ہے۔ وہ علوم جن کو ٹائم اینڈ سپیس کے مروجہ پیمانوں سے نہیں پڑھایا جا سکتا یہاں رفتہ رفتہ طرز فکر میں تبدیلی کے عمل سے گزار کر ذہنوں میں راسخ کر دیئے جاتے ہیں۔ طرز فکر میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت کا احساس بھی فقیر ہی دلاتے ہیں اور اس سے گزارنے والے بھی فقیر ہی ہوتے ہیں۔ مکتب اور مدرسوں میں یہ فیضان نظر کہاں؟

                سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے تحت خانقاہی نظام کا احیائ، اس صدی کا سب سے زیادہ عظیم الشان کارنامہ کہہ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک طرف مادی اقدار کی پرستش اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور دوسری طرف روحانی قدروں کا پھیلاؤ۔ قدرت نے ہر بار انسان کے بگاڑے ہوئے توازن کو درست کر کے اپنی فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ خانقاہی نظام تدریس سے بہرہ مند ہونے والے خود کو اگر سعید جانتے اور اس خوش قسمتی پر ناز کرتے ہیں تو حق بجانب ہیں۔

                مادیت کے چکا چوند سے نگاہیں چندھیا کے پتھرا گئی ہیں۔ قدریں بدلیں، روایات ٹوٹیں اور پھر مٹ گئیں۔ بے ہنری کو کمال، صداقتوں اور کرامتوں کو ڈھکوسلہ کہہ کر دولت پرستی کا لبادہ اوڑھنے کے بعد اب اگر لوگ مضطرب، پریشان اور بیزار ہیں تو کیا غلط۔ ایسے میں……جب ہر چہرہ ستا ہوا، کملایا ہوا، خشونت اور بیزاری کا آئینہ بنا ہوا نظر آتا ہو، شاداب، شگفتہ اور کھلکھلاتے چہرے اس پرآشوب دور میں نخلستان کا تاثر دیتے ہیں۔

                بہن بھائیوں کے چہروں پر شفق رنگ شگفتگی اور شادابی کے ساتھ ساتھ معصومیت دیکھتے دیکھتے میرے ذہن میں شادابی اور شگفتگی کی اصل جاننے کا خیال گزرا۔ خیال کی لہر مراد کی سوچ سے ٹکرا کر پلٹی اور میرے ذہن میں آ کر الفاظ بن گئی……پیغمبرانہ طرز فکر۔ دنیا پرستوں کو دیکھئے……دنیا کی طرف لپکے چلے جاتے ہیں اور دنیا ہے کہ آگے ہی آگے بھاگی چلی جا رہی ہے۔ یہ جتنا دنیا کی طرف بڑھتے ہیں دنیا اسی قدر آگے ہی آگے بھاگی چلی جا رہی ہے۔ یہ جتنا دنیا کی طرف بڑھتے ہیں دنیا اسی قدر آگے کو کھسک جاتی ہے۔ پیغمبرانہ طرز فکر سے فیض یافتہ انسان کی عجیب شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا سے عجیب سا رویہ رکھتا ہے وہ اسے برتتا ہے۔ اس سے متمتع ہوتا ہے لیکن کیا مجال کہ یہ اس کے دل میں کوئی جگہ بنا لے۔ دنیا کے عاشق دنیا کو دل میں بسانے کے جرم میں دنیا کی ستم کشیوں کا شکار ہوتے ہیں تو ادھر فقیر اور دنیا کو دھتکارنے والے بندے کو یہ اپنی آغوش وا کئے اسے اپنی طرف بلاتی ہے لیکن جب یہ دیکھتی ہے کہ یہ بندہ میرے جھانسے میں آنے والا نہیں تو خود اس کی طرف کھسکنا شروع کر دیتی ہے اور جو بندہ مومن کی فراست سے آراستہ ہو جاتا ہے تو یہ دنیا اس کا رانجھا راضی کرنے میں لگ جاتی ہے۔ اب یہ بندہ آگے آگے ہوتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے۔

                میں اپنے مراد کے ہمراہ جہاں کہیں بھی گیا۔ جس شہر، جس گاؤں اور گوٹھ بھی گیا ان کے وہاں پہنچتے ہی ایک چہل پہل اور رونق کا سماں بندھ جاتا ہے۔ ان کی آمد کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہو یا نہ۔ قرب و جوار کے لوگ ملنے، علاج کرانے اور اللہ والے کی دعا لینے کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایک بار لاہور مراقبہ ہال میں بڑھتے ہوئے ہجوم کو دیکھ کر تبصرہ فرمایا۔

                 ’’میں تو جیسے گڑ کی ڈلی ہوں۔ ان لوگوں کو تو گویا میری خوشبو آ جاتی ہے۔‘‘

                 رجوع خلائق تبھی ہوتا ہے جب بندہ مخلوق کی خدمت کو مشن مان لے۔ مرشد کریم نے ایک بار یہ فرمایا تھا کہ مشن میں فرزانگی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ دیوانگی۔ نرمی دیوانگی چاہئے مشن کو چلانے کے لئے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔